غداروں کا خاندان
احمدیہ تحریک کے بانی مرزا غلام احمد کا تعلق پنجاب کے ایک مغل گھرانے سے تھا۔سکھ حکمرانوں نے ان کے پردادا مرزا گل محمد کو آبائی علاقے قادیان سے نکال دیا تھا۔ جس نے اس وقت پنجاب کے حکمران راجہ رنجیت سنگھ کے ایک مخالف سردار فتح سنگھ کے دربار میں اپنے اہل و عیال سمیت پناہ لے لی۔فتح سنگھ کے مرنے کے بعد رنجیت سنگھ نے اس کے علاقے بھی قبضہ میں لے لیے۔ مرزا غلام احمد کے باپ مرزا غلام مرتضیٰ اور ان کے چچا مرزا مرزا غلام محی الدین نے سکھ فوج میں شامل ہو کر سکھوں کے مظالم کے خلاف شمالی ہندوستان کے مسلمانوں کی تحریک آزادی کو کچلنے میں سرگرمی سے حصہ لیا۔مرزا مرتضیٰ نے شمال مغربی ہند میں سید احمد شہید کے ساتھیوں اور ان کشمیری مسلمانوں کو شہید کیا جو سکھوں کے اقتدار کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے۔رنجیت سنگھ نے کشمیر پر ١٨١٨ء میں اور پشاور پر ١٨٢٣ء میں قبضہ کیا۔
١٨٣٤ء میں اس کی”بیش بہا ”خدمات کے عوض رنجیت سنگھ نے قادیان میں اس کے پانچ گاؤں بحال کر دئیے۔اگلے سال رنجیت سنگھ نے وفات پائی۔اس کی وفات کے بعد مرکزی قوت کمزور پڑنے لگی اور انگریزوں کا اثر و نفوذ بڑھنے لگا۔ مرزا مرتضیٰ نے انگریزوں کی طرف داری کی۔وہ سکھ دربار میں انگریزوں کا قابل اعتماد آلہ کار بن گیا۔جب سکھوں کو اس بات کا علم ہو گیا تو انہوں نے اسے اور اس کے بھائی مرزا غلام محی الدین کو قتل کرنے کی کوشش کی،مگر یہ اپنے چھوٹے بھائی مرزا غلام حیدر کی مداخلت کے باعث بچ گئے۔
١٨٥٧ء کی جنگ آزادی میں خدمات سر انجام دینے والے وفادار گھرانوں کی دستاویز تیا ر کرتے ہوئے ”روسائے پنجاب ”نامی کتاب میں سرلیپل گریفن غلام مرتضیٰ کی خدمات کے بارے میں مندرجہ ذیل خیالات پیش کرتا ہے :
دربار نو نہال سنگھ اور شیر سنگھ کے وقت مرزا غلام مرتضیٰ کو سر گرم خدمت پر رکھا گیا۔١٨٤١ء میں وہ جنرل ونٹورا کے ساتھ منڈی اور کولو بھیجا گیا اور ١٨٤٣ء میں ایک پیادہ رجمنٹ کے ساتھ پشاور بھیجا گیا۔اس نے ہزارہ میں بغاوت کے وقت اپنے آپ کو ممتاز کیا اور جب ١٨٤٨ء کی بغاوت پھوٹ پڑی تو وہ حکومت کا وفادار رہا اور اس کی طر ف سے لڑتا رہا۔اس کے بھائی غلام محی الدین نے بھی اس وقت بیش قیمت خدمات سرانجام دیں۔دیوان ملراج کی امداد کے لیے جب بھائی دیوان سنگھ اپنے فوجی دستوں کے ساتھ ملتان جا رہا تھا تو مرزا غلام محی الدین نے دوسرے جاگیر داروں لنگر خان ساہیوال اور صاحب خان ٹوانہ کی مدد سے مسلمان آبادی کو ساتھ ملا لیا اور صاحب دیال کی فوج کے ساتھ باغیوں پر حملہ کیا اور انہیں مکمل شکست دیتے ہوئے چناب میں دھکیل دیا جہاں چھ سوسے زائد افراد ڈوب کر ہلاک ہو گئے۔
Mirza Ghulam Ahmad Qadiani, Kitab-ul-Baryah, Qadian p.143
مارچ ١٨٤٩ء میں جب انگریزوں نے پنجاب پر قبضہ کیا تواس گھرانے کی تمام جاگیریں تو بحال نہ کی گئیں مگر سا ت سو روپے کی پنشن،قادیان اور قریبی دیہاتوں کے مالکانہ حقوق مرزا غلام مرتضیٰ اوراس کے بھائی کو دیے گئے۔
See Abdul Rahim Dard Qadiani, Life of Ahmad, Lahore 1948, p.13
انگریزوں کے پنجاب کے الحاق کے دو ماہ بعد جون ١٨٤٩ء میں مرزا غلام مرتضیٰ نے پنجاب کے مالیاتی کمشنر جے۔ایم۔ ولسن کو خط لکھا جس میں پنجاب کے الحاق کے موقع پر ا س کے خاندان کی طرف سے کی گئی خدمات کے عوض مدد کی استدعا کی گئی تھی۔١١ جون ١٨٤٩ء کو ولسن نے جواب دیا۔
میں نے تمہاری درخواست کا بغور جائزہ لیا ہے جس نے مجھے تمہاری اور تمہارے خاندان کی ماضی کی خدمات اور حقوق یاد دلا دیئے ہیں۔ مجھے بخوبی علم ہے کہ برطانوی حکومت کے قیام سے لے کر تم اور تمہارا خاندان یقیناً مخلص،وفادار اور ثابت قدم رعایا رہے ہو اور تمہارے حقوق واقعی قابل لحاظ ہیں۔تمہیں ہر لحاظ سے پر امید اور مطمئن رہنا چاہیے کہ حکومت برطانیہ تمہارے خاندانی حقوق اور خدمات کو کبھی فراموش نہیں کرے گی اور جب بھی کوئی سازگار موقع آیا ان کا خیال کیا جائے گا۔تم ہمیشہ سرکار انگریزی کا ہوا خواہ اور جاں نثار رہو کیونکہ اسی میں سرکار کی خوشنودی اور تمہاری بہبودی ہے۔
Mirza Ghulam Ahmad, Kashful Ghata, Ziaul-Islam Press Qadian1898,p.
١٨٥٧ء کی جنگ آزادی نے پنجاب کے وفادار خدمت گاروں کو موقع فراہم کیا کہ وہ اپنے برطانوی آقاؤں کو اپنی خدمات پیش کرسکیں۔ ہماری تاریخ کے اس کڑے دور میں مرزا کے گھرانے کی طرف سے انگریزوں کو پیش کی گئی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے سر لیپل گریفن لکھتا ہے :
١٨٥٧ء کی بغاوت کے دوران مرزا کے گھرانے نے بہترین خدمات سرانجام دیں۔مرزا غلام مرتضیٰ نے کئی آدمی بھرتی کیے اور اس کا بیٹا غلام قادر جنرل نکلسن کی فوجوں میں خدمات سرانجام دے رہا تھا۔ جب اس نے چھیالیس مقامی پیادوں کے باغیوں کو تباہ کیا جو سیالکوٹ سے تریموں گھاٹ فرار ہو گئے تھے۔جنرل نکلسن نے غلام قادر کو ایک سند عطا کی جس میں یہ لکھا تھا کہ ١٨٥٧ء میں مرزا کے گھرانے سے بڑھ کر ضلع میں کسی اور نے اتنا وفاداری کا ثبوت نہیں دیا”
See Abdul Rahim Dard Qadiani, Life of Ahmad, Lahore 1948, p.
دلی میں حریت پسندوں کی طرف سے جنرل نکلسن کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔عبدالرحیم درد بیان کرتا ہے :
”جنرل نکلسن کے ذہن پر قائم شدہ وفادارانہ ا ور سرگرم تاثر جو مرزا کے گھرانے نے چھوڑا اور جس کا تذکرہ سرجان لارنس نے اپنی جنگ آزادی کی روداد”جنرل نکلسن کے بغیر دلی فتح نہیں ہو سکتاتھا” میں کیا ہے کی حقیقت حال اس نیچے دئیے گئے خط سے معلوم کی جا سکتی ہے جو اس نے اپنی موت سے ایک ماہ قبل اگست ١٨٥٨ء کو مرزا غلام قادر کو لکھا :
جیساکہ تم نے اور تمہارے گھرانے نے عظیم ترین اخلاص اور وفاداری سے ١٨٥٧ء کی بغاوت کو کچلنے میں تریمو گھاٹ، میر تھل اور دوسری جگہوں پر حکومت کی امداد کی ہے اور اپنے آپ کو حکومت کا مکمل وفادار ثابت کیا ہے اور اپنی جیب سے پچاس سواروں اور گھوڑوں سے حکومت کی امداد کی ہے لہٰذا تمہاری وفاداری اور بہادری کے اعتراف میں تمہیں یہ پروانہ جاری کیا جاتا ہے جسے تم سنبھال کر رکھنا۔حکومت اور اس کے اہل کار ان ہمیشہ تمہاری خدمات،حقوق اور اخلاص جوتم نے حکومت کے بارے میں دکھلایا ہے کا ہمیشہ خیال رکھیں گے۔باغیوں کو کچلنے کے بعد میں تمہارے گھرانے کی بہبود کی طرف خیال کروں گا۔میں نے گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر مسٹر نسبت کو لکھا ہے جس میں تمہاری خدمات کی طرف اس کی توجہ مبذول کروائی ہے۔
See Abdul Rahim Dard Qadiani, Life of Ahmad, Lahore 1948, p.
وہ ١٨٥٧ء کی بد نصیب جنگ کے خاتمے پر برطانوی آقاؤں کی جانب سے دو سو روپے مالیت کی ایک خلعت اور ایک سندسے نوازا گیا۔گورنر کے دربار میں اسے ایک کرسی بھی عطا کی گئی۔
نیچے رابرٹ کسٹ کمشنر لاہور کی جانب سے ٢٠ستمبر ١٨٥٨ء کو لکھے گئے اس توصیفی خط کا متن ہے جو اس نے مرزا غلام مرتضیٰ کو لکھا :
رابرٹ کسٹ صاحب بہادر کمشنر لاہور
تہور و شجاعت دستگاہ مرزا غلام مرتضیٰ رئیس قادیان بعافیت باشند
از اینجاکہ ہنگام مفسدہ ہندوستان موقوعہ١٨٥٧ء از جانب آپ کے رفاقت و خیر خواہی ومدد دہی سرکار دولت مدار انگلشیہ درباب نگاہ داشت سواراں وبہمر سانی اسپاں بخوبی بمنصہ ظہور پہنچی اور شروع مفسدہ سے آج تک آپ بہ دل ہوا خواہ سرکا ر رہے اور باعث خوشنودی سرکار ہوا۔لہٰذا بدلے اسی خیر خواہی اور خیر سگالی خلعت مبلغ دوسوروپے سرکار سے آپ کو عطا ہوتا ہے اور حسب منشا چھٹی صاحب چیف کمشنر بہادر نمبری ٥٧٦ مورخہ ١٠ اگست١٨٥٧ء پروانہ ہذا با اظہار خوشنودی سرکار و نیک نامی وفاداری بنام آپ کے لکھا جاتا ہے۔
Ghulam Ahmad, Shahadat-ul-Quran, Punjab Press Sialkot,1893. p.
سر ظفر اللہ بیان کرتا ہے کہ مرزا غلام مرتضیٰ نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں فوج میں شمولیت اختیار کی اور کئی لڑائیوں میں اعزازات حاصل کیے۔بعد ازاں اس نے اور اس کے بڑے بیٹے مرزا غلام قادر نے انگریزوں کے لیے قابل تعریف خدمات سرانجام دیں جن کو حکام نے باقاعدہ پسند کیا۔
Sir Zafarullah, Essence of Islam, vol.1,London,1979,p.viii
١٨٧٦ء میں مرزا غلام مرتضیٰ نے وفات پائی۔
See Qazi Fazal Ahmad’s Kalma-e- Rabani,Lahore,1893
اس کے مرنے کے بعد اس کے بڑے بیٹے مرزا غلام قادر نے کمشنر مالیات پنجاب رابرٹ ایجرٹن کو اپنے والد کی مو ت کی اطلاع دیتے ہوئے اور برطانوی شہنشاہیت کے لیے اپنے خاندان کی خدمات پیش کرتے ہوئے خط لکھا۔اس نے اپنی خدمات کی بنا پر کچھ مدد کی درخواست کی۔مرزا غلام احمد کی کتاب ”کشف الغطاء”میں ٢٩ جون ١٨٧٦ء کو ایجرٹن کی طرف سے غلام قادر کو دیا گیا جواب یوں ہے۔
سررابرٹ ایجرٹن فنانشل کمشنر پنجاب
مشفق مہربان دوستاں مرزا غلام قادر ریئس قادیان حفظہ
آپ کا خط دو ماہ حال کا لکھا ہو ا ملاحظہ حضور ایں جانب میں گزرا۔مرزا غلام مرتضیٰ صاحب آپ کے والد کی وفات سے ہم کو بہت افسوس ہوا۔ مرزا غلام مرتضیٰ سرکار انگریز کا اچھا خیر خواہ اور وفاداررئیس تھا۔ہم آپ کی خاندانی لحاظ سے اسی طرح عزت کریں گے۔جس طرح تمہارے باپ وفادار کی کی جاتی تھی۔ ہم کو کسی اچھے موقع کے نکلنے پر تمہارے باپ کی وفاداری کی بہتری اور پابجائی کا خیال رہے گا۔
المرقوم٢٩ جون ١٨٧٦ء
سررابرٹ ایجرٹن صاحب بہادر
فنانشل کمشنر پنجاب
Mirza Ghulam Ahmad, Kashful Ghata, Qadian 1898, p.5
احمدیہ تحریک کے بانی مرزا غلام احمد کا تعلق پنجاب کے ایک مغل گھرانے سے تھا۔سکھ حکمرانوں نے ان کے پردادا مرزا گل محمد کو آبائی علاقے قادیان سے نکال دیا تھا۔ جس نے اس وقت پنجاب کے حکمران راجہ رنجیت سنگھ کے ایک مخالف سردار فتح سنگھ کے دربار میں اپنے اہل و عیال سمیت پناہ لے لی۔فتح سنگھ کے مرنے کے بعد رنجیت سنگھ نے اس کے علاقے بھی قبضہ میں لے لیے۔ مرزا غلام احمد کے باپ مرزا غلام مرتضیٰ اور ان کے چچا مرزا مرزا غلام محی الدین نے سکھ فوج میں شامل ہو کر سکھوں کے مظالم کے خلاف شمالی ہندوستان کے مسلمانوں کی تحریک آزادی کو کچلنے میں سرگرمی سے حصہ لیا۔مرزا مرتضیٰ نے شمال مغربی ہند میں سید احمد شہید کے ساتھیوں اور ان کشمیری مسلمانوں کو شہید کیا جو سکھوں کے اقتدار کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے۔رنجیت سنگھ نے کشمیر پر ١٨١٨ء میں اور پشاور پر ١٨٢٣ء میں قبضہ کیا۔
١٨٣٤ء میں اس کی”بیش بہا ”خدمات کے عوض رنجیت سنگھ نے قادیان میں اس کے پانچ گاؤں بحال کر دئیے۔اگلے سال رنجیت سنگھ نے وفات پائی۔اس کی وفات کے بعد مرکزی قوت کمزور پڑنے لگی اور انگریزوں کا اثر و نفوذ بڑھنے لگا۔ مرزا مرتضیٰ نے انگریزوں کی طرف داری کی۔وہ سکھ دربار میں انگریزوں کا قابل اعتماد آلہ کار بن گیا۔جب سکھوں کو اس بات کا علم ہو گیا تو انہوں نے اسے اور اس کے بھائی مرزا غلام محی الدین کو قتل کرنے کی کوشش کی،مگر یہ اپنے چھوٹے بھائی مرزا غلام حیدر کی مداخلت کے باعث بچ گئے۔
١٨٥٧ء کی جنگ آزادی میں خدمات سر انجام دینے والے وفادار گھرانوں کی دستاویز تیا ر کرتے ہوئے ”روسائے پنجاب ”نامی کتاب میں سرلیپل گریفن غلام مرتضیٰ کی خدمات کے بارے میں مندرجہ ذیل خیالات پیش کرتا ہے :
دربار نو نہال سنگھ اور شیر سنگھ کے وقت مرزا غلام مرتضیٰ کو سر گرم خدمت پر رکھا گیا۔١٨٤١ء میں وہ جنرل ونٹورا کے ساتھ منڈی اور کولو بھیجا گیا اور ١٨٤٣ء میں ایک پیادہ رجمنٹ کے ساتھ پشاور بھیجا گیا۔اس نے ہزارہ میں بغاوت کے وقت اپنے آپ کو ممتاز کیا اور جب ١٨٤٨ء کی بغاوت پھوٹ پڑی تو وہ حکومت کا وفادار رہا اور اس کی طر ف سے لڑتا رہا۔اس کے بھائی غلام محی الدین نے بھی اس وقت بیش قیمت خدمات سرانجام دیں۔دیوان ملراج کی امداد کے لیے جب بھائی دیوان سنگھ اپنے فوجی دستوں کے ساتھ ملتان جا رہا تھا تو مرزا غلام محی الدین نے دوسرے جاگیر داروں لنگر خان ساہیوال اور صاحب خان ٹوانہ کی مدد سے مسلمان آبادی کو ساتھ ملا لیا اور صاحب دیال کی فوج کے ساتھ باغیوں پر حملہ کیا اور انہیں مکمل شکست دیتے ہوئے چناب میں دھکیل دیا جہاں چھ سوسے زائد افراد ڈوب کر ہلاک ہو گئے۔
Mirza Ghulam Ahmad Qadiani, Kitab-ul-Baryah, Qadian p.143
مارچ ١٨٤٩ء میں جب انگریزوں نے پنجاب پر قبضہ کیا تواس گھرانے کی تمام جاگیریں تو بحال نہ کی گئیں مگر سا ت سو روپے کی پنشن،قادیان اور قریبی دیہاتوں کے مالکانہ حقوق مرزا غلام مرتضیٰ اوراس کے بھائی کو دیے گئے۔
See Abdul Rahim Dard Qadiani, Life of Ahmad, Lahore 1948, p.13
انگریزوں کے پنجاب کے الحاق کے دو ماہ بعد جون ١٨٤٩ء میں مرزا غلام مرتضیٰ نے پنجاب کے مالیاتی کمشنر جے۔ایم۔ ولسن کو خط لکھا جس میں پنجاب کے الحاق کے موقع پر ا س کے خاندان کی طرف سے کی گئی خدمات کے عوض مدد کی استدعا کی گئی تھی۔١١ جون ١٨٤٩ء کو ولسن نے جواب دیا۔
میں نے تمہاری درخواست کا بغور جائزہ لیا ہے جس نے مجھے تمہاری اور تمہارے خاندان کی ماضی کی خدمات اور حقوق یاد دلا دیئے ہیں۔ مجھے بخوبی علم ہے کہ برطانوی حکومت کے قیام سے لے کر تم اور تمہارا خاندان یقیناً مخلص،وفادار اور ثابت قدم رعایا رہے ہو اور تمہارے حقوق واقعی قابل لحاظ ہیں۔تمہیں ہر لحاظ سے پر امید اور مطمئن رہنا چاہیے کہ حکومت برطانیہ تمہارے خاندانی حقوق اور خدمات کو کبھی فراموش نہیں کرے گی اور جب بھی کوئی سازگار موقع آیا ان کا خیال کیا جائے گا۔تم ہمیشہ سرکار انگریزی کا ہوا خواہ اور جاں نثار رہو کیونکہ اسی میں سرکار کی خوشنودی اور تمہاری بہبودی ہے۔
Mirza Ghulam Ahmad, Kashful Ghata, Ziaul-Islam Press Qadian1898,p.
١٨٥٧ء کی جنگ آزادی نے پنجاب کے وفادار خدمت گاروں کو موقع فراہم کیا کہ وہ اپنے برطانوی آقاؤں کو اپنی خدمات پیش کرسکیں۔ ہماری تاریخ کے اس کڑے دور میں مرزا کے گھرانے کی طرف سے انگریزوں کو پیش کی گئی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے سر لیپل گریفن لکھتا ہے :
١٨٥٧ء کی بغاوت کے دوران مرزا کے گھرانے نے بہترین خدمات سرانجام دیں۔مرزا غلام مرتضیٰ نے کئی آدمی بھرتی کیے اور اس کا بیٹا غلام قادر جنرل نکلسن کی فوجوں میں خدمات سرانجام دے رہا تھا۔ جب اس نے چھیالیس مقامی پیادوں کے باغیوں کو تباہ کیا جو سیالکوٹ سے تریموں گھاٹ فرار ہو گئے تھے۔جنرل نکلسن نے غلام قادر کو ایک سند عطا کی جس میں یہ لکھا تھا کہ ١٨٥٧ء میں مرزا کے گھرانے سے بڑھ کر ضلع میں کسی اور نے اتنا وفاداری کا ثبوت نہیں دیا”
See Abdul Rahim Dard Qadiani, Life of Ahmad, Lahore 1948, p.
دلی میں حریت پسندوں کی طرف سے جنرل نکلسن کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔عبدالرحیم درد بیان کرتا ہے :
”جنرل نکلسن کے ذہن پر قائم شدہ وفادارانہ ا ور سرگرم تاثر جو مرزا کے گھرانے نے چھوڑا اور جس کا تذکرہ سرجان لارنس نے اپنی جنگ آزادی کی روداد”جنرل نکلسن کے بغیر دلی فتح نہیں ہو سکتاتھا” میں کیا ہے کی حقیقت حال اس نیچے دئیے گئے خط سے معلوم کی جا سکتی ہے جو اس نے اپنی موت سے ایک ماہ قبل اگست ١٨٥٨ء کو مرزا غلام قادر کو لکھا :
جیساکہ تم نے اور تمہارے گھرانے نے عظیم ترین اخلاص اور وفاداری سے ١٨٥٧ء کی بغاوت کو کچلنے میں تریمو گھاٹ، میر تھل اور دوسری جگہوں پر حکومت کی امداد کی ہے اور اپنے آپ کو حکومت کا مکمل وفادار ثابت کیا ہے اور اپنی جیب سے پچاس سواروں اور گھوڑوں سے حکومت کی امداد کی ہے لہٰذا تمہاری وفاداری اور بہادری کے اعتراف میں تمہیں یہ پروانہ جاری کیا جاتا ہے جسے تم سنبھال کر رکھنا۔حکومت اور اس کے اہل کار ان ہمیشہ تمہاری خدمات،حقوق اور اخلاص جوتم نے حکومت کے بارے میں دکھلایا ہے کا ہمیشہ خیال رکھیں گے۔باغیوں کو کچلنے کے بعد میں تمہارے گھرانے کی بہبود کی طرف خیال کروں گا۔میں نے گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر مسٹر نسبت کو لکھا ہے جس میں تمہاری خدمات کی طرف اس کی توجہ مبذول کروائی ہے۔
See Abdul Rahim Dard Qadiani, Life of Ahmad, Lahore 1948, p.
وہ ١٨٥٧ء کی بد نصیب جنگ کے خاتمے پر برطانوی آقاؤں کی جانب سے دو سو روپے مالیت کی ایک خلعت اور ایک سندسے نوازا گیا۔گورنر کے دربار میں اسے ایک کرسی بھی عطا کی گئی۔
نیچے رابرٹ کسٹ کمشنر لاہور کی جانب سے ٢٠ستمبر ١٨٥٨ء کو لکھے گئے اس توصیفی خط کا متن ہے جو اس نے مرزا غلام مرتضیٰ کو لکھا :
رابرٹ کسٹ صاحب بہادر کمشنر لاہور
تہور و شجاعت دستگاہ مرزا غلام مرتضیٰ رئیس قادیان بعافیت باشند
از اینجاکہ ہنگام مفسدہ ہندوستان موقوعہ١٨٥٧ء از جانب آپ کے رفاقت و خیر خواہی ومدد دہی سرکار دولت مدار انگلشیہ درباب نگاہ داشت سواراں وبہمر سانی اسپاں بخوبی بمنصہ ظہور پہنچی اور شروع مفسدہ سے آج تک آپ بہ دل ہوا خواہ سرکا ر رہے اور باعث خوشنودی سرکار ہوا۔لہٰذا بدلے اسی خیر خواہی اور خیر سگالی خلعت مبلغ دوسوروپے سرکار سے آپ کو عطا ہوتا ہے اور حسب منشا چھٹی صاحب چیف کمشنر بہادر نمبری ٥٧٦ مورخہ ١٠ اگست١٨٥٧ء پروانہ ہذا با اظہار خوشنودی سرکار و نیک نامی وفاداری بنام آپ کے لکھا جاتا ہے۔
Ghulam Ahmad, Shahadat-ul-Quran, Punjab Press Sialkot,1893. p.
سر ظفر اللہ بیان کرتا ہے کہ مرزا غلام مرتضیٰ نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں فوج میں شمولیت اختیار کی اور کئی لڑائیوں میں اعزازات حاصل کیے۔بعد ازاں اس نے اور اس کے بڑے بیٹے مرزا غلام قادر نے انگریزوں کے لیے قابل تعریف خدمات سرانجام دیں جن کو حکام نے باقاعدہ پسند کیا۔
Sir Zafarullah, Essence of Islam, vol.1,London,1979,p.viii
١٨٧٦ء میں مرزا غلام مرتضیٰ نے وفات پائی۔
See Qazi Fazal Ahmad’s Kalma-e- Rabani,Lahore,1893
اس کے مرنے کے بعد اس کے بڑے بیٹے مرزا غلام قادر نے کمشنر مالیات پنجاب رابرٹ ایجرٹن کو اپنے والد کی مو ت کی اطلاع دیتے ہوئے اور برطانوی شہنشاہیت کے لیے اپنے خاندان کی خدمات پیش کرتے ہوئے خط لکھا۔اس نے اپنی خدمات کی بنا پر کچھ مدد کی درخواست کی۔مرزا غلام احمد کی کتاب ”کشف الغطاء”میں ٢٩ جون ١٨٧٦ء کو ایجرٹن کی طرف سے غلام قادر کو دیا گیا جواب یوں ہے۔
سررابرٹ ایجرٹن فنانشل کمشنر پنجاب
مشفق مہربان دوستاں مرزا غلام قادر ریئس قادیان حفظہ
آپ کا خط دو ماہ حال کا لکھا ہو ا ملاحظہ حضور ایں جانب میں گزرا۔مرزا غلام مرتضیٰ صاحب آپ کے والد کی وفات سے ہم کو بہت افسوس ہوا۔ مرزا غلام مرتضیٰ سرکار انگریز کا اچھا خیر خواہ اور وفاداررئیس تھا۔ہم آپ کی خاندانی لحاظ سے اسی طرح عزت کریں گے۔جس طرح تمہارے باپ وفادار کی کی جاتی تھی۔ ہم کو کسی اچھے موقع کے نکلنے پر تمہارے باپ کی وفاداری کی بہتری اور پابجائی کا خیال رہے گا۔
المرقوم٢٩ جون ١٨٧٦ء
سررابرٹ ایجرٹن صاحب بہادر
فنانشل کمشنر پنجاب
Mirza Ghulam Ahmad, Kashful Ghata, Qadian 1898, p.5
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔