Wednesday 30 September 2015

وفات وحیات مسیح علیہ السلام پر کس منہ سے مناظرہ؟؟؟

0 comments

وفات وحیات مسیح علیہ السلام پر کس منہ سے مناظرہ؟؟؟
مرزا قادیانی اپنی کتاب ازالہ اوہام جلد 1 صفحہ 171 پر لکھتا ہے کہ مسیح کے نزول کا کوئی ایسا عقیدہ نہیں جو ہمارے ایمانیات یا دین کا کوئی جز ہو، بلکہ یہ ہزار ہا پشین گوئیوں میں سے ایک پشین گوئی ہے۔جس کا حقیقت اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب مربیوں سے یہ سوال ہے کہ مرزا قادیانی کے بقول حیات مسیح علیہ السلام کے نزول کا کوئی ایسا عقیدہ نہیںجو ہمارے ایمانیات یا دین کا کوئی جز ہو۔ اب یہ مربی کس منہ سے حیات و وفات مسیح علیہ السلام پر مناظرہ کا چیلنجکرتے ہیں؟؟؟؟ اگر کسی کے پاس اس کا جواب ہے تو میدان میں آئے۔


Saturday 19 September 2015

آسمان کی طرف حضرت عیسی علیہ السلام کے جانے کا قرآنی ثبوت

0 comments

آسمان کی طرف حضرت عیسی علیہ السلام کے جانے کا قرآنی ثبوتسوال…مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اﷲ پاک نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہود کی دست درازیوں سے محفوظ رکھتے ہوئے آسمانوں پر اٹھالیا۔ آپ قرآن و احادیث صحیحہ کی روشنی میں اس عقیدئہ کو ثابت کریں؟جواب… حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زندہ جسد عنصری کے ساتھ آسمان پر اٹھایا جانا۔دلیل۱… ارشاد ربانی: ’’اذ قال اﷲ یعیسیٰ انی متوفیک ورافعک الیّٰ ومطھرک من الذین کفروا وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الیٰ یوم القیامۃ ثم الیّٰ مرجعکم فاحکم بینکم فیما کنتم فیہ تختلفون (آل عمران:۵۵)‘‘ترجمہ: ’’جب کہ اﷲتعالیٰ نے فرمایا: اے عیسیٰ! میں لے لوں گا تجھ کو اور اٹھالوں گا اپنی طرف اور تم کو ان لوگوں سے پاک کرنے والا ہوں۔ جو منکر ہیں اور جو لوگ تمہارا کہنا ماننے والے ہیں ان کو غالب رکھنے والا ہوں ان لوگوں پر جو کہ منکر ہیں۔ روزقیامت تک پھر میری طرف ہوگی سب کی واپسی۔ سو میں تمہارے درمیان فیصلہ کردوں گا۔ ان امور میں جن میں تم باہم اختلاف کرتے تھے۔‘‘اس آیت کریمہ کے متصل ماقبل کی آیت کریمہ و مکروا و مکراﷲ میں باری تعالیٰ کی جس خفیہ و کامل تدبیر کی جانب اشارہ فرمایا گیا تھا۔ اس کی تفصیل حسب بیان مفسرین آیت مذکورہ میں فرمائی گئی ہے۔ اس محکم تدبیر کے وقوع سے پہلے ہی جب کہ یہود بے بہبود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جائے قیام کا محاصرہ کرکے قتل و سولی پر چڑھانے کا ناپاک منصوبہ بنارہے تھے۔ حضرت حق جل مجدہ نے ایسے خطرناک وقت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تسلی دینے کے لئے بشارت دے دی کہ آپ کے دشمن خائب و خاسر رہیں گے۔اس سلسلہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے چار وعدے فرمائے گئے:میں تجھے پورا پورا لے لوں گا۔اور تجھے اپنی طرف (آسمان پر) اٹھالوں گا۔اور تجھے کفار (یہود) کے شر سے صاف بچالوں گا۔تیرے متبعین کو تیرے دشمنوں پر قیامت تک غالب رکھوں گا۔یہ چار وعدے اس لئے فرمائے گئے کہ یہود کی سازش میں یہ تفصیل تھی کہ:حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پکڑیں۔اور طرح طرح کے عذاب دے کر ان کو قتل کریں۔اور پھر خوب رسوا اور ذلیل کریں۔اور اس ذریعہ سے ان کے دین کو فنا کریں کہ کوئی ان کا متبع ونام لیوا بھی نہ رہے۔لہٰذا ان کے پکڑنے کے مقابلہ میں متوفیک فرمایا۔ یعنی تم کو بھرپورلینے والا ہوں۔تم میری حفاظت میں ہو اور ارادئہ ایذاء و قتل کے مقابلہ میں رافعک الیّٰ فرمایا۔ یعنی میں تم کو آسمان پر اٹھالوں گا، اور رسوا اور ذلیل کرنے کے مقابلہ میں مطہرک من الذین کفروا فرمایا۔ یعنی میں تم کو ان یہود نامسعود سے پاک کروں گا۔ رسوائی و بے حرمتی کی نوبت ہی نہیں آئے گی اورآپ کی امت کو مٹانے اور دین مسیحی کو نیست و نابود کرنے والوں کے مقابلہ میں: ’’جاعل الذین اتبعوک‘‘ فرمایا۔ یعنی تیرے رفع کے بعد تیرے متبعین کو ان کفار پر غلبہ دوں گا۔توفی کے معنیبہرحال پہلا وعدہ لفظ ’’توفی‘‘ سے فرمایا گیا ہے۔ اس کے حروف اصلیہ ’’وفا‘‘ ہیں۔ جس کے معنی ہیں پورا کرنا۔ چنانچہ استعمال عرب ہے وفی بعھدہ اپنا وعدہ پورا کیا۔(لسان العرب)باب تفعل میں جانے کے بعد اس کے معنی ہیں: اخذ الشئی وافیاً (بیضاوی) یعنی کسی چیز کو پورا پورا لینا۔ توفی کا یہ مفہوم جنس کے درجہ میں ہے۔ جس کے تحت یہ تمام انواع آتی ہیں۔ موت، نیند اور رفع جسمانی۔چنانچہ امام رازیؒ فرماتے ہیں: ’’قولہ (انی متوفیک) یدل علی حصول التوفی وھو جنس تحتہ انواع بعضھا بالموت وبعضھا بالاصعاد الی السماء فلما قال بعدہ (و رافعک الیّٰ) کان ھذا تعیینا للنوع و لم یکن تکراراً‘‘(تفسیر کبیر زیر آیت یعیسیٰ انی متوفیک ص۷۲ جز۸)ترجمہ: ’’باری تعالیٰ کا ارشاد انی متوفیک صرف حصول توفی پر دلالت کرتا ہے اور وہ ایک جنس ہے۔ جس کے تحت کئی انواع ہیں۔ کوئی بالموت اور کوئی بالرفع الی السمائ۔ پس جب باری تعالیٰ نے اس کے بعد ورافعک الیّٰ فرمایا تو اس نوع کو متعین کرنا ہوا۔ (رفع الی السمائ) نہ کہ تکرار۔‘‘یہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ کسی لفظ جنس کو بول کر اس کی خاص نوع مراد لینے کے لئے قرینہ حالیہ و مقالیہ کا پایا جانا ضروری ہے۔ تو یہاں توفی بمعنی رفع جسمانی الی السماء لینے کے لئے ایک قرینہ یہ ہے کہ اس کے فوراً بعد ورافعک الیّٰ فرمایا گیا۔ رفع کے معنی ہیں اوپر اٹھا لینا۔ کیونکہ رفع، وضع وخفض کی ضد ہے۔ جس کے معنی نیچے رکھنا اور پست کرنا اور دوسرا قرینہ ومطھرک من الذین کفرواہے۔ کیونکہ تطہیر کا مطلب یہی ہے کہ کفار (یہود) کے ناپاک ہاتھوں سے آپ کو صاف بچالوں گا۔چنانچہ ابی جرؒیج سے محدث ابن جریرؒ نے نقل فرمایا ہے:’’عن ابی جریج قولہ (انی متوفیک ورافعک الیّٰ ومطھرک من الذین کفروا) قال فرفعہ ایاہ الیہ توفیہ ایاہ وتطھیرہ من الذین کفروا‘‘(تفسیر ابن جریر ج ۳ ص ۲۹۰)’’باری تعالیٰ کا ارشاد گرامی متوفیک! کی تفسیر یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی طرف اٹھالینا ہی آپ کی توفی ہے اور یہی کفار سے ان کی تطہیر ہے۔‘‘اور تیسرا قرینہ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت مرفوعہ ہے۔ جس کو امام بیہقیؒ نے نقل فرمایا ہے اور جس میں نزول من السماء کی تصریح ہے:’’کیف انتم اذا نزل ابن مریم من السماء فیکم‘‘(کتاب الاسماء والصفات ص :۲۰۳)اس لئے کہ نزول سے پہلے رفع کا ثبوت ضروری ہے۔ اسی طرح جب یہ لفظ موت کے معنی دے گا۔ تو قرینہ کی احتیاج ہوگی مثلاً:’’قل یتوفٰکم ملک الموت الذی وکل بکم (الم سجدہ:۱۱) ‘‘ترجمہ: ’’اے پیغمبر! ان سے کہہ دو کہ تم کو قبض کرے گا۔ملک الموت جو تم پر مقرر کیا گیا ہے۔ (یعنی تم کو مارے گا)‘‘اس میں ملک الموت قرینہ ہے۔ دیگر متعدد آیات میں بھی بربنائے قرائن توفی بمعنی موت آیا ہے۔ کیونکہ موت میں بھی توفی یعنی پوری پوری گرفت ہوتی ہے۔ ایسے ہی جہاں نیند کے معنی دے گا۔ تو بھی قرینہ کی ضرورت ہوگی۔مثلاً: ’’وھوالذی یتوفٰکم باللیل (انعام:۶۰)‘‘ترجمہ: ’’خدا ایسی ذات ہے کہ تم کو رات کے وقت پورا لے لیتا ہے۔ یعنی سلادیتا ہے۔‘‘یہاں لیل اس بات کا قرینہ ہے کہ توفی سے مراد نوم ہے۔ کیونکہ وہ بھی توفی (پوری پوری گرفت) کی ایک نوع ہے۔ یہ تمام تفصیلات بلغاء کے استعمال کے مطابق ہیں۔ البتہ عام لوگ توفی کو اماتت اور قبض روح کے معنی میں استعمال کرتے ہیں۔ چنانچہ کلیات ابوالبقاء میں ہے:’’التوفی الاماتۃ وقبض الروح وعلیہ استعمال العامۃ او الاستیفاء واخذ الحق وعلیہ استعمال البلغائ‘‘(کلیات ابوالبقائ:۱۲۹)یعنی عام لوگ تو توفی کو اماتت اور قبض روح کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور بلغاء پورا پورا وصول کرنے اور حق لے لینے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں۔بہرحال زیر بحث آیت کریمہ میں بربنائے قرائن توفی کے معنی قبض اور پورا پورا۔ یعنی جسم مع الروح کو اپنی تحویل میں لے لینے کے ہیں، اماتت کے نہیں ہیں۔ البتہ قبض روح بصورت نیند کے معنی ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ قبض روح کی دو صورتیں ہیں۔ ایک مع الامساک اور دوسری مع الارسال۔ تو اس آیت میں توفی بقرینہ رافعک الیّٰ بمعنی نیند ہوسکتی ہے اور یہ ہمارے مدعا کے خلاف نہیں ہوگا۔ کیونکہ نیند اور رفع جسمی میں جمع ممکن ہے۔ چنانچہ مفسرین کی ایک جماعت نے اس کو اختیار کیا ہے: ’’(الثانی) المراد بالتوفی النوم ومنہ قولہ تعالیّٰ اﷲ یتوفی الانفس حین موتھا والتی لم تمت فی منامھا) فجعل النوم وفاۃ وکان عیسیٰ قد نام فرفعہ اﷲ وھو نائم لئلا یلحقہ خوف‘‘(خازن ج۱ ص۲۵۵)......سوال … قال اﷲتعالیٰ واذ قال اﷲ یعیسیٰ انی متوفیک ورافعک الیّٰ‘‘ اس کی صحیح تفسیر بیان کرکے حیات حضرت مسیح علیہ السلام کو ثابت کریں۔ مرزائی ’’ توفی‘‘ سے وفات مراد لیتے ہیں۔ حضرت ابن عباسؓ سے بھی ’’متوفیک‘‘ کی تفسیر ’’ممیتک‘‘ منقول ہے۔ اور اس تائید میں مرزائی ’’توفنا مع الابرار، تو فنا مع المسلمین‘‘ کو بھی پیش کرتے ہیں، ان تمام امور کا شافی جواب تحریر کریں؟جواب … ’’واذ قال اﷲ یعیسیٰ انی متوفیک ورافعک‘‘ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع جسمانی ثابت ہے۔ یہ حیات عیسیٰ علیہ السلام کی دلیل ہے، نہ کہ وفات عیسیٰ علیہ السلام کی۔ توفی وغیرہ کی کچھ بحث پہلے گزرچکی ہے۔ مزید ملاحظہ ہو:توفی کاحقیقی معنیالف… ’’توفی‘‘ کا حقیقی معنی موت نہیں۔ اس لئے کہ اگر اس کا حقیقی معنی موت ہوتا تو ضرور قرآن و سنت میں کہیں ’’توفی‘‘ کو ’’حیات‘‘ کے مقابل ذکر کیا جاتا۔ حالانکہ ایسا کہیں نہیں ہے۔ بلکہ ’’توفی‘‘ کو ’’مادمت فیھم‘‘ کے مقابلہ میں رکھا گیا۔ معلوم ہوا کہ توفی کا حقیقی معنی موت نہیں۔ دیکھئے قرآن مجید میں جگہ جگہ موت و حیات کا تقابل کیا گیا ہے نہ کہ توفی و حیات کا۔ مثلاً الذی یحیی ویمیت، یحییکم ثم یمیتکم، ھوامات و احیی، لایموت فیھا ولایحییٰ، ویحي الموتیٰ، اموات غیر احیائ، یحییٰ الموتی، یحیی الارض بعد موتھا، تخرج الحي من المیت و تخرج المیت من الحي۰یہ تقابل بتاتا ہے کہ تعرف الاشیاء باضدادہا کے تحت حیات کی ضد موت ہے توفی نہیں۔ توفی کو قرآن مجید میں مادمت فیھم کے مقابلہ میں لایا گیا: ’’ وکنت علیھم شھیداً مادمت فیھم فلما توفیتنی‘‘ اس سے توفی کا حقیقی معنی سمجھا جاسکتا ہے کہ کیا ہے؟ اس کے لئے علامہ زمخشری کا حوالہ کافی ہوگا : ’’اوفاہ، استوفاہ، توفاہ استکمال ومن المجاز توفی و توفاہ اﷲ ادرکتہ الوفاۃ‘‘ ترجمہ : ’’اوفاہ، استوفاہ اور توفاہ کے معنی استکمال یعنی پورا لینے کے ہیں۔ توفی کو مجازاً موت کے معنی میں لیا جاتا ہے۔ جیسے توفی اور توفاہ اﷲ یعنی اس کی وفات ہوگی۔‘‘اس حوالہ سے معلوم ہوا کہ توفی کا حقیقی معنی موت نہیں۔ البتہ مجازاً کہیں کہیں موت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ب… اﷲ رب العزت نے اپنی کتاب میں ’’اماتت‘‘ کی اسناد اپنی طرف ہی فرمائی۔ غیر اﷲ کی طرف ہرگز نہیں کی۔ جبکہ ’’توفی‘‘ کی اسناد ملائکہ کی طرف بھی اکثر موجود ہے۔ یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ توفی کا حقیقی معنی موت نہیں۔ جیسے ’’حتی اذا جاء احد کم الموت توفتہ رسلنا‘‘ یہاں پر توفی کی اسناد ملائکہ کی طرف کی گئی۔ج… توفی کا حقیقی معنی موت نہیں جیسے قرآن مجید میں ہے: ’’حتیٰ یتوفھن الموت‘‘ یہاں توفی اور موت کو مقابلہ میں ذکر کیا گیا ہے۔ اب اس کے معنی ہوں گے کہ ان کو موت کے وقت پورا پورا لے لیا جاتا ہے۔ اگر توفی کا معنی موت ہو تو پھر اس کا معنی تھا کہ: ’’یمیتہن الموت‘‘ یہ کس قدر رکیک معنی ہوں گے۔ کلام الٰہی اور یہ رکاکت؟ اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔د… توفی کا حقیقی معنی موت نہیں۔ قرآن مجید میں ہے : ’’اﷲ یتوفی الانفس حین موتھا والتی لم تمت فی منامھا فیمسک التی قضیٰ علیہا الموت ویرسل الاخریٰ الیٰ اجل مسمی (الزمر: ۴۲)‘‘ترجمہ: ’’اﷲتعالیٰ نفسوں کو لے لیتا ہے ان کی موت کے وقت اور ان نفسوں کو جو نہیں مرے ان کو نیند میں لے لیتا ہے۔ پس وہ نفس جس کو موت وارد ہوتی ہے روک لیتا ہے اور دوسرے کو مقرر مدت تک چھوڑ دیتا ہے۔‘‘یہاں پہلے جملہ میں توفی نفس کو حین موتھا کے ساتھ مقید کیا ہے۔ معلوم ہوا توفی عین موت نہیں۔اور پھر توفی کو موت اور نیند کی طرف منقسم کیا ہے۔ لہٰذا نصاً معلوم ہوا کہ توفی موت کے مغائر ہے۔نیز یہ کہ توفی، موت اور نیند دونوں کو شامل ہے۔ نیند میں آدمی زندہ ہوتا ہے۔ اس کی طرف توفی کی نسبت کی گئی۔ توفی بھی ہے اور آدمی زندہ ہے۔ مرا نہیں۔ کیا یہ نص نہیں اس بات کی کہ توفی کا حقیقی معنی موت نہیں؟خلاصہ بحث:توفی کا حقیقی معنی پورا پورا لینے کے ہیں۔ ہاں البتہ کبھی مجازاً موت کے معنی میں بھی توفی کا استعمال ہوا ہے۔ جیسے : ’’توفنا مع الابرار، توفنا مسلمین‘‘ وغیرہ۔ضروری تنبیہ… اگرکہیں کوئی لفظ کسی مجازی معنی میں استعمال ہو تو ہمیشہ کے لئے اس کے حقیقی معنی ترک نہیں کردیئے جائیں گے۔ اگر کوئی ایسے سمجھتا ہے تو وہ قادیانی احمق ہی ہوسکتے ہیں۔ ورنہ اصول صرف یہ ہے کہ مجازی معنی وہاں مراد لئے جائیں گے جہاں حقیقی معنی متعذر ہوں۔ یا عیسیٰ انی متوفیک میں حقیقی معنی پورا پورا لینے کے لئے جائیں گے اور توفنا مع الابرار میں مجازی معنی (موت) کے کئے جائیں گے۔.................حضرت ابن عباس ؓ اور حیات عیسیٰ علیہ السلامالف… حضرت ابن عباسؓ پوری امت کی طرح حیات مسیح علیہ السلام کے قائل ہیں۔ آپ نے آنحضرتﷺ سے متعدد روایات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع و نزول وحیات کی روایت کی ہیں۔ ’’التصریح بما تواتر فی نزول المسیح طبع ملتان‘‘ کے ص ۱۸۱، ۲۲۳، ۲۲۴، ۲۴۵، ۲۷۳، ۲۷۹، ۲۸۴، ۲۸۹، ۲۹۱، ۲۹۲ پر دس روایات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع و نزول کی حضرت ابن عباس ؓ کے حوالہ سے حضرت انور شاہ کشمیریؒ نے جمع فرمائی ہیں۔ من شاء فلیراجع!ب… متوفیک کے معنی ممیتک عبداﷲ بن عباسؓ سے نقل کرنے والا راوی علی بن ابی طلحہ ہے۔(تفسیر ابن جریر ج۳ ص ۲۹۰)علماء اسماء الرجال نے اس کے متعلق ضعیف الحدیث، منکر، لیس بمحمود المذہب کے جملے فرمائے ہیں اور یہ کہ اس نے حضرت عبداﷲ ابن عباسؓ کی زیارت بھی نہیں کی۔ درمیان میں مجاہدؒ کا واسطہ ہے۔(میزان الاعتدال ج ۵ ص ۱۶۳، تہذیب التہذیب ج ۴ ص ۲۱۳)رہا یہ کہ پھر صحیح بخاری شریف میں یہ روایت کیسے آگئی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ: امام بخاریؒ کا یہ التزام صرف احادیث مسندۃ کے بارے میں ہے۔ نہ کہ تعلیقات و آثار صحابہ کے ساتھ۔ چنانچہ فتح مغیث ص ۲۰ میں ہے: ’’قول البخاری ماادخلت فی کتابی الا ماصح علی، مقصود بہ ھو الاحادیث الصحیحۃ المسندۃ دون التعالیق والاثار الموقوفۃ علی الصحابۃ فمن بعدھم والاحادیث المترجمۃ بھا ونحوذٰلک‘‘ترجمہ: ’’یعنی امام بخاری کے اس فرمان کا مطلب کہ میں نے اپنی کتاب میں صرف وہی ذکر کیا ہے جو صحیح سند سے ثابت ہے۔ اس سے مراد صرف احادیث صحیحہ مسندہ ہیں۔ باقی تعلیقات اور آثار موقوفہ وغیرہ اس میں شامل نہیں۔ اس طرح وہ احادیث جو ترجمۃ الباب میں ذکر کی گئی ہیں وہ بھی مراد نہیں ہیں۔‘‘ج… حضرت عبداﷲ بن عباسؓ سے دوسری صحیح روایت میں اگرچہ توفی کے معنی موت منقول ہیں۔ مگر اسی روایت میں کلمات آیت کے اندر تقدیم و تاخیر بھی صراحتاً مذکور ہے۔ جس سے قادیانی گروہ کی خود بخود تردید ہوجاتی ہے۔’’اخرج ابن عساکر واسحاق بن بشر عن ابن عباسؓ قال قولہ تعالیٰ یٰعیسیٰ انی متوفیک ورافعک الیّٰ یعنی رافعک ثم متوفیک فی آخرالزمان‘‘(درمنثور ج۲ ص۳۶)ترجمہ: ’’یعنی ابن عساکر اور اسحاق بن بشر نے (بروایت صحیح) ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ میں آپ کو اٹھانے والا ہوں اپنی طرف پھر آخر زمانہ میں (بعد نزول) آپ کو موت دینے والا ہوں۔‘‘د… تفسیر ابن کثیر میں عبداﷲ ابن عباسؓ سے صحیح روایت منقول ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بغیر قتل کے زندہ آسمان پر اٹھالئے گئے۔’’ورفع عیسیٰ من روزنۃ فی البیت الی السماء ھذا اسناد صحیح الی ابن عباس‘‘(تفسیر ابن کثیر ج ۱ ص ۵۷۴ زیر آیت بل رفعہ اﷲ)ترجمہ: ’’عیسیٰ علیہ السلام گھر کے روزن (روشن دان) سے (زندہ) آسمان کی طرف اٹھالئے گئے۔ یہ اسناد ابن عباسؓ تک بالکل صحیح ہے۔‘‘رفع سے مراد رفع روحانی یا رفع درجات ہے؟؟سوال…سورئہ آل عمران میں ارشاد خداوندی ہے: ’’ورافعک‘‘ اور سورئہ نساء میں فرماتے ہیں: ’’بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘ دونوں مقامات پر قادیانی رفع سے مراد رفع روحانی یا رفع درجات لیتے ہیں۔ آپ ان کے مؤقف کا اس طرح رد کریں۔ جس سے قادیانی دجل تارتار ہوجائے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع جسمانی ثابت ہو؟جواب …یہ بات بھی قادیانی دجل کا شاہکار ہے کہ وہ کہیں رافعک اور بل رفعہ اﷲ میں رفع روح مراد لیتے ہیں اور جب ان پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ تمہارے (قادیانی) عقیدہ کے مطابق تو مسیح علیہ السلام صلیب سے اتر کر زخم اچھے ہونے کے بعد کشمیر چلے گئے اور ستاسی سال بعد ان کی موت واقع ہوئی۔ تو موت کے بعد رفع روح ہوا۔ حالانکہ یہ قرآن کے اسلوب بیان کے خلاف ہے۔ اس لئے کہ چاروں وعدوں میں سے تین وعدے جو براہ راست مسیح علیہ السلام کی ذات (جسم) مبارک سے تعلق رکھتے تھے۔ ایک ہی وقت میں ایک ساتھ ان کا ایفاء ہوا۔ تو قادیانی مجبوراً پھر اس سے فوراً رفع درجات پر آجاتے ہیں۔ جس طرح قادیانیوں کو ایمان کا قرار (سکون) نصیب نہیں اس طرح ان کے مؤقف کو بھی قرار نہیں۔ وہ اپنا مؤقف بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی رفع روح مراد لیتے ہیں، کبھی رفع درجات مراد لیتے ہیں۔ حالانکہ یہ دونوں مؤقف غلط ہیں۔۱… یہ امر روز روشن کی طرح واضح ہے کہ ’’بل رفعہ اﷲ ‘‘کی ضمیر اسی طرف راجع ہے کہ جس طرف ’’قتلوہ‘‘ اور’’ صلبوہ‘‘ کی ضمیریں راجع ہیں اور ظاہر ہے کہ’’ قتلوہ‘‘اور ’’صلبوہ‘‘ کی ضمیریں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم مبارک اور جسد مطہر کی طرف راجع ہیں۔ روح بلا جسم کی طرف راجع نہیں۔ اس لئے کہ قتل کرنا اور صلیب پر چڑھانا جسم ہی کا ممکن ہے۔ روح کا قتل اور صلیب پر لٹکانا قطعاً ناممکن ہے۔ لہٰذا ’’بل رفعہ‘‘ کی ضمیر اسی جسم کی طرف راجع ہوگی۔ جس جسم کی طرف ’’قتلوہ‘‘ اور ’’صلبوہ‘‘ کی ضمیریں راجع ہیں۔۲… دوم یہ کہ یہود روح کے قتل کے مدعی نہ تھے۔ بلکہ قتل جسم کے مدعی تھے اور ’’بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘ سے اس کی تردید کی گئی ہے۔ لہٰذا بل رفعہ میں رفع جسم ہی مراد ہوگا۔ اس لئے کہ کلمہ بل کلام عرب میں ماقبل کے ابطال کے لئے آتا ہے۔ لہٰذا بل کے ماقبل اور مابعد میں منافات اور تضاد کا ہونا ضروری ہے جیسا کہ: ’’وقالوا اتخذالرحمن ولداً سبحنہ بل عباد مکرمون ‘‘ولدیت اور عبودیت میں منافات ہے دونوں جمع نہیں ہوسکتے۔ ’’ام یقولون بہ جنۃ بل جاء ھم بالحق‘‘ مجنونیت اور اتیان بالحق (یعنی من جانب اﷲ حق کو لے کر آنا) یہ دونوں متضاد اور متنافی ہیں۔ یکجا جمع نہیں ہوسکتے۔ یہ ناممکن ہے کہ شریعت حقہ کالا نے والا مجنون ہو۔ اسی طرح اس آیت میں یہ ضروری ہے کہ مقتولیت اور مصلوبیت جو بل کا ماقبل ہیں۔ وہ مرفوعیت الیٰ اﷲ کے منافی ہو جو بل کا مابعد ہے اور ان دونوں کا وجود اور تحقق میں جمع ہونا ناممکن ہونا چاہئے اور ظاہر ہے کہ مقتولیت اور روحانی رفع بمعنی موت میں کوئی منافات نہیں۔ محض روح کا آسمان کی طرف اٹھایا جانا قتل جسمانی کے ساتھ جمع ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ شہداء کا جسم تو قتل ہوجاتا ہے اور روح آسمان پر اٹھالی جاتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہوا کہ بل رفعہ اﷲ میں رفع جسمانی مراد ہو کہ جو قتل اور صلب کے منافی ہے۔ اس لئے کہ رفع روحانی اور رفع عزت اور رفعت شان قتل اور صلب کے منافی نہیں۔ بلکہ جس قدر قتل اور صلب ظلماً ہوگا۔ اسی قدر عزت اور رفعت شان میں اضافہ ہوگا اوردرجات اور زیادہ بلند ہوں گے۔ رفع درجات کے لئے تو موت اور قتل کچھ بھی شرط نہیں۔ رفع درجات زندہ کو بھی حاصل ہوسکتے ہیں۔ ’’کما قال تعالیٰ ورفعنالک ذکرک‘‘ اور ’’یرفع اﷲ الذین آمنوا منکم والذین اوتو العلم درجات‘‘ ہے ۔۳… یہود حضرت مسیح علیہ السلام کے جسم کے قتل اور صلب کے مدعی تھے۔ اﷲتعالیٰ نے اس کے ابطال کے لئے بل رفعہ اﷲ فرمایا۔ یعنی تم غلط کہتے ہو کہ تم نے اس کے جسم کو قتل کیا یا صلیب پر چڑھایا۔ بلکہ اﷲتعالیٰ نے ان کے جسم کو صحیح و سالم آسمان پر اٹھالیا۔ نیز اگر رفع سے رفع روح بمعنی موت مراد ہے تو قتل اور صلب کی نفی سے کیا فائدہ؟ قتل اور صلب سے غرض موت ہی ہوتی ہے اور بل اضرابیہ کے ما بعد کو بصیغہ ماضی لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ رفع الیٰ السمائباعتبار ماقبل کے امر ماضی ہے۔ یعنی تمہارے قتل اور صلب سے پہلے ہی ہم نے ان کو آسمان پر اٹھالیا۔ جیسا کہ بل جاء ھم بالحق میں صیغہ ماضی اس لئے لایا گیا کہ یہ بتلادیا جائے کہ آپﷺ کا حق کو لے کر آنا کفار کے مجنون کہنے سے پہلے ہی واقع ہوچکا ہے۔ اسی طرح بل رفعہ اﷲ بصیغہ ماضی لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ رفع الی السماء ان کے مزعوم اور خیالی قتل اور صلب سے پہلے ہی واقع ہوچکا ہے۔۴… جس جگہ لفظ رفع کا مفعول یا متعلق جسمانی شے ہوگی تو اس جگہ یقینا جسم کا رفع مراد ہوگا اور اگر رفع کا مفعول اور متعلق درجہ یا منزلہ یا مرتبہ یا امر معنوی ہو تو اس وقت رفع مرتبت اور بلندی رتبہ کے معنی مراد ہوں گے۔ ’’کما قال تعالیٰ ورفعنا فوقکم الطور‘‘ اٹھایا ہم نے تم پر کوہ طور ’’اﷲ الذی رفع السمٰوت بغیر عمدا ترونھا‘‘ اﷲ ہی نے بلند کیا آسمانوں کو بغیر ستونوں کے جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو۔ ’’واذ یرفع ابراہیم القواعد من البیت واسمٰعیل‘‘ یاد کرو اس وقت کو کہ جب ابراہیم بیت اﷲ کی بنیادیں اٹھارہے تھے اور اسمٰعیل ان کے ساتھ تھے۔ ’’ورفع ابویہ علی العرش‘‘ یوسف علیہ السلام نے اپنے والدین کو تخت کے اوپر بٹھایا۔ ان تمام مواقع میں لفظ رفع اجسام سے مستعمل ہوا ہے اور ہر جگہ رفع جسمانی مراد ہے اور ورفعنالک ذکرک ہم نے آپﷺ کا ذکر بلند کیا اور ورفعنا بعضھم فوق بعض درجات ہم نے بعض کو بعض پر درجہ اور مرتبہ کے اعتبار سے بلند کیا۔اس قسم کے مواقع میں رفعت شان اور بلندی رتبہ مراد ہے۔ اس لئے کہ رفع کے ساتھ خود ذکر اور درجہ کی قید یعنی قرینہ مذکور ہے۔قادیانی اشکالایک حدیث میں ہے: ’’اذا تواضع العبد رفعہ اﷲ الی السماء السابعۃ‘‘(کنزالعمال ج۳ ص۱۱۰، حدیث نمبر ۵۷۲۰، بحوالہ الخرائطی فی مکارم الاخلاق)ترجمہ: ’’جب بندہ تواضع کرتا ہے تو اﷲتعالیٰ اس کو ساتویں آسمان پر اٹھالیتے ہیں۔ اس حدیث کو خرائطیؒنے اپنی کتاب مکارم الاخلاق میں ابن عباسؓ سے روایت کیا ہے ۔اس روایت کو مرزائی بہت خوش ہوکر بطور اعتراض پیش کیا کرتے ہیں کہ رفع کا مفعول جسمانی شے ہے اور الی السماء کی بھی تصریح ہے۔ مگر باوجود اس کے رفع سے رفع جسمی مراد نہیں بلکہ رفع معنوی مراد ہے۔جواب …یہ ہے کہ یہاں مجاز کے لئے قرینہ عقلیہ قطعیہ موجود ہے کہ یہ اس زندہ کے حق میں ہے۔ جو لوگوں کے سامنے زمین پر چلتا ہے اور تواضع کرتا ہے۔ تو اس کا مرتبہ اور درجہ اﷲتعالیٰ کے یہاں ساتویں آسمان کے برابر بلند اونچا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہاں رفع جسم مراد نہیں بلکہ رفع درجات مراد ہے۔ غرض یہ کہ رفع کے معنی بلندی رتبہ مجازاً بوجہ قرینہ عقلیہ لئے گئے اور اگر کسی کم عقل کی سمجھ میں یہ قرینہ عقلیہ نہ آئے۔ تو اس کے لئے قرینہ قطعیہ بھی موجود ہے۔ وہ یہ کہ کنزالعمال میں روایت مذکورہ کے بعد ہی علی الاتصال یہ روایت مذکور ہے : ’’من یتواضع للّہ درجۃ یرفعہ اﷲ درجۃ حتی یجعلہ فی علیین‘‘ یعنی جس درجہ کی تواضع کرے گا۔ اسی کے مناسب اﷲ اس کا درجہ بلند فرمائیں گے۔ یہاں تک کہ جب وہ تواضع کے آخری درجہ پر پہنچ جائے گا تو اﷲتعالیٰ اس کو علیین میں جگہ دیں گے۔، جو علو اور رفعت کا آخری مقام ہے۔ اس حدیث میں صراحتاً لفظ درجہ کا مذکور ہے اور قاعدہ مسلمہ ہے۔ الحدیث یفسر بعضہ بعضا ایک حدیث دوسری حدیث کی تفسیر اور شرح کرتی ہے۔خلاصہ یہ کہ رفع کے معنی اٹھانے اور اوپر لے جانے کے ہیں۔ لیکن وہ رفع کبھی اجسام کا ہوتا ہے اور کبھی معانی اور اعراض کا ہوتا ہے اور کبھی اقوال اور افعال کا، اور کبھی مرتبہ اور درجہ کا۔ جہاں رفع اجسام کا ذکر ہوگا۔ وہاں رفع جسمی مراد ہوگا اور جہاں رفع اعمال اور رفع درجات کا ذکر ہوگا۔ وہاں رفع معنوی مراد ہوگا۔ رفع کے معنی تو اٹھانے اور بلند کرنے ہی کے ہیں۔ باقی جیسی شے ہوگی اس کا رفع اسی کے مناسب ہوگا۔۵… یہ کہ اس آیت کا صریح مفہوم اور مدلول یہ ہے کہ جس وقت یہود نے حضرت مسیح کے قتل اور صلب کا ارادہ کیا۔ تو اس وقت قتل اور صلب نہ ہوسکا۔ بلکہ اس وقت حضرت مسیح کا اﷲ کی طرف رفع ہوگیا۔ معلوم ہوا کہ یہ رفع جس کا بل رفعہ اﷲ میں ذکر ہے حضرت عیسیٰ کو پہلے سے حاصل نہ تھا۔ بلکہ یہ رفع اس وقت ظہور میں آیا کہ جس وقت یہود ان کے قتل کا ارادہ کررہے تھے اور وہ رفع جو ان کو اس وقت حاصل ہوا وہ یہ تھا کہ اس وقت بجسدہ العنصری صحیح و سالم آسمان پر اٹھا لئے گئے۔ رفعت شان اور بلندی مرتبہ تو ان کو پہلے ہی سے حاصل تھی اور وجیھا فی الدنیا ولآخرۃ ومن المقربینکے لقب سے پہلے ہی سرفراز ہوچکے تھے۔ لہٰذا اس آیت میں وہی رفع مراد ہوسکتا ہے کہ جو ان کو یہود کے ارادہ قتل کے وقت حاصل ہوا۔ یعنی رفع جسمی اور رفع عزت و منزلت اس سے پہلے ہی ان کو حاصل تھا۔ اس مقام پر اس کا ذکر بالکل بے محل ہے۔۶… یہ کہ یہود کی ذلت و رسوائی اور حسرت اور ناکامی اور عیسیٰ علیہ السلام کی کمال عزت و رفعت بجسدہ العنصری صحیح و سالم آسمان پر اٹھائے جانے ہی میں زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ نیز یہ رفعت شان اور علو مرتبت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ مخصوص نہیں۔ زندہ اہل ایمان اور زندہ اہل علم کو بھی حاصل ہے۔ ’’کما قال تعالی یرفع اﷲ الذین اٰٰمنوا منکم والذین اوتوا العلم درجات‘‘ بلند کرتا ہے اﷲتعالیٰ اہل ایمان اور اہل علم کو باعتبار درجات کے۔۷… یہ کہ اگر آیت میں رفع روحانی بمعنی موت مراد ہو تو یہ ماننا پڑے گا کہ وہ رفع روحانی بمعنی موت یہود کے قتل اور صلب سے پہلے واقع ہوا جیسا کہ: ’’ام یقولون بہ جنۃ بل جاء ھم بالحق، ویقولون أئنا لتارکوا اٰلھتنا للشاعر مجنون، بل جاء بالحق‘‘ ان آیات میں آنحضرتﷺ کا حق کو لے کر آنا ان کے شاعر اور مجنون کہنے سے پہلے واقع ہوا۔ اسی طرح رفع روحانی بمعنی موت کو ان کے قتل اور صلب سے مقدم ماننا پڑے گا۔ حالانکہ مرزا قادیانی اس کے قائل نہیں۔ مرزا قادیانی تو (العیاذباﷲ) یہ فرماتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام یہود سے خلاص ہوکرفلسطین سے کشمیر پہنچے اور عرصہ دراز تک بقید حیات رہے اور اسی عرصہ میں اپنے زخموں کا علاج کرایا اور پھر طویل مدت کے بعدیعنی ستاسی سال زندہ رہ کر وفات پائی اور سری نگر کے محلہ خان یار میں مدفون ہوئے اور وہیں آپ کا مزار ہے۔ لہٰذا مرزا قادیانی کے زعم کے مطابق عبارت اس طرح ہونی چاہئے تھی: ’’وما قتلوہ بالصلیب بل تخلص منھم وذہب الی کشمیر واقام فیھم مدۃ طویلۃ ثم اماتہ اﷲ ورفع الیہ ‘‘۸… یہ کہ رفع روحانی بمعنی موت لینے سے وکان اﷲ عزیزاً حکیماً کے ساتھ مناسبت نہیں رہتی۔ اس لئے کہ عزیز اور حکیم اور اس قسم کی ترکیب اس موقعہ پر استعمال کی جاتی ہے کہ جہاں کوئی عجیب و غریب اور خارق العادات امر پیش آیا ہو اور وہ عجیب و غریب امر جو اس مقام پر پیش آیا وہ رفع جسمانی ہے۔ یہ خیال نہ کیا جائے کہ جسم عنصری کا آسمان پر جانا محال ہے۔ وہ عزت والا اور غلبہ والا اور قدرت والا ہے۔ اس کے لئے یہ کوئی مشکل کام نہیں اور نہ یہ خیال کرے کہ جسم عنصری کا آسمان پر اٹھایا جانا خلاف حکمت اور خلاف مصلحت ہے۔ وہ حکیم ہے اس کا کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں۔ دشمنوں نے جب حضرت مسیح پر ہجوم کیا تو اس نے اپنی قدرت کا کرشمہ دکھلا دیا کہ اپنے نبی کو آسمان پر اٹھالیا اور جو دشمن قتل کے ارادہ سے آئے تھے۔ انہی میں سے ایک کو اپنے نبی کا ہم شکل اور شبیہ بناکر انہیں کے ہاتھ سے اس کو قتل کرادیا اور پھر اس شبیہ کے قتل کے بعد ان سب کو شبہ اور اشتباہ میں ڈال دیا۔رفع کے معنی عزت کی موت۔ نہ کسی لغت سے ثابت ہے نہ کسی محاورہ سے اور نہ کسی فن کی اصطلاح سے۔ محض مرزا قادیانی کی اختراع ہے۔ البتہ رفع کا لفظ محض اعزاز اور رفع جسمانی کے منافی نہیں اعزاز اور رفع جسمانی دونوں جمع ہوسکتے ہیں۔ نیز اگر رفع سے عزت کی موت مراد ہو تو نزول سے ذلت کی پیدائش مراد ہونی چاہئے۔ اس لئے کہ حدیث میں نزول کو رفع کا مقابل قرار دیا ہے اور ظاہر ہے کہ نزول کے یہ معنی مرزا قادیانی کے ہی مناسب ہیں۔۹… رہا یہ امر کہ آیت میں آسمان پر جانے کی کوئی تصریح نہیں۔ سو اس کا جواب یہ ہے کہ بل رفعہ اﷲ الیہ (اﷲتعالیٰ نے عیسیٰ کو اپنی طرف اٹھالیا) اس کلام کے معنی ہی یہ ہیں کہ اﷲ نے آسمان پر اٹھالیا جیسا کہ: ’’تعرج الملائکۃ والروح الیہ‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ: فرشتے اور روح الامین اﷲ کی طرف چڑھتے ہیں یعنی آسمان پر۔ وقال تعالیٰ :’’الیہ یصعد الکلم الطیب والعمل الصالح یرفعہ‘‘ اﷲ ہی کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں اور اﷲتعالیٰ عمل صالح کو اوپر اٹھاتا ہے۔ یعنی آسمان کی طرف چڑھتے ہیں۔ اس طرح بل رفعہ اﷲ الیہ میں آسمان پر اٹھایا جانا مراد ہوگا اور جس کو خدائے تعالیٰ نے ذرا بھی عقل دی ہے۔ وہ سمجھ سکتا ہے بل رفعہ اﷲ الیہ کے یہ معنی کہ خدا نے ان کو عزت کی موت دی۔ یہ معنی جس طرح لغت کے خلاف ہیں اسی طرح سیاق و سباق کے بھی خلاف ہیں۔ اس طرح کہ اس آیت کی تفسیر میں حضرت ابن عباسؓ سے باسناد صحیح یہ منقول ہے : ’’لما اراداﷲ ان یرفع عیسیٰ الیٰ السمائ‘‘(تفسیر ابن کثیر ص ۵۷۴ ج۱ زیر آیت بل رفعہ اﷲ)’’جب اﷲتعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان کی طرف اٹھانے کا ارادہ فرمایا۔ الی آخر القصہ ‘‘اس کے علاوہ متعدد احادیث میں آسمان پر جانے کی تصریح موجود ہے وہ احادیث ہم نقل کرچکے ہیں۔۱۰… مرزا قادیانی نے لکھا ہے: ’’لہٰذا یہ امر ثابت ہے کہ رفع سے مراد اس جگہ موت ہے۔ مگر ایسی موت جو عزت کے ساتھ ہو۔جیسا کہ مقربین کے لئے ہوتی ہے کہ بعد موت ان کی روحیں علیین تک پہنچائی جاتی ہیں : ’’فی مقعد صدق عند ملیک مقتدر‘‘(ازالہ اوہام ص ۵۹۹، خزائن ج۳ ص ۴۲۴)مرزا قادیانی کا یہ کہنا کہ رفع سے ایسی موت مراد ہے جو عزت کے ساتھ ہو۔ جیسے مقربین کی موت ہوتی ہے کہ ان کی روحیں مرنے کے بعد علیین تک پہنچ جاتی ہیں۔ اس عبارت سے خود واضح ہے کہ بل رفعہ اﷲ سے آسمان پر جانا مراد ہے۔ اس لئے کہ علیین اور ’’مقعد صدق‘‘ تو آسمان ہی میں ہیں۔ بہرحال آسمان پر جانا تو مرزا قادیانی کو بھی تسلیم ہے۔ اختلاف اس میں ہے کہ آسمان پر حضرت مسیح بن مریم کی فقط روح گئی یا روح اور جسد دونوں گئے۔ سو یہ ہم پہلے ثابت کرچکے ہیں کہ آیت میں بجسدہ العنصری رفع مراد ہے۔............دعا گو غلام نبی نوری۔

Esha Iban E Mariyan Zindha Asmaan Par Gaye

0 comments

حدیث نزول عیسی علیہ السلام ( عیسی علیہ السلام کی وفات ہوئی نہیں بلکہ ہونی ہے)

حدیث نزول عیسی علیہ السلام ( عیسی علیہ السلام کی وفات ہوئی نہیں بلکہ ہونی ہے)

حدیث …’’حدثنی المثنی قال ثنا اسحاق قال ثنا ابن ابی جعفر عن ابیہ عن الربیع فی قولہ تعالی (الم اﷲ لا الہ الا ھو الحی القیوم) قال ان النصاریٰ اتوا رسول اﷲﷺ فخاصموہ فی عیسیٰ بن مریم وقالوا لہ من ابوہ وقالوا علی اﷲ الکذب والبھتان لا الہ الا ھو لم یتخذ صاحبۃ ولا ولدا فقال لھم النبیﷺ الستم تعلمون انہ لایکون ولد الاّ ھویشبہ اباہ قالوا بلیٰ قال الستم تعلمون ان ربنا حي لا یموت وان عیسیٰ یأتی علیہ الفناء قالوا بلیٰ قال الستم تعلمون ان ربنا قیم علی کل شئی یکلؤہ ویحفظہ ویرزقہ قالوا بلیٰ قال فھل یملک عیسیٰ من ذلک شیئا قالوا لا قال افلستم تعلمون ان اﷲ عزوجل لا یخفی علیہ شئ فی الارض ولا فی السماء قالوا بلیٰ۰ قال فھل یعلم عیسیٰ من ذلک شیا الا ما علم قالوا لا۰ قال فان ربنا صور عیسیٰ فی الرحم کیف شاء فھل تعلمون ذلک قالوا بلیٰ قال الستم تعلمون ان ربنا لا یاکل الطعام ولا یشرب الشراب ولا یحدث الحدث قالوا بلیٰ قال الستم تعلمون ان عیسیٰ حملتہ امرأۃ کما تحمل المرأۃ ثم وضعتہ کما تضع المرأۃ ولدھا ثم غذی کما یغذی الصبی ثم کان یطعم الطعام ویشرب الشراب و یحدث الحدث قالوا بلیٰ قال فکیف یکون ھذا کمازعمتم قال فعرفوا ثم ابوا الا حجوداً فانزل اﷲ عزوجل الم اﷲ لا الہ الا ھوالحی القیوم‘‘
(تفسیر ابن جریر ص ۱۶۳ ج۳)
ترجمہ: ’’ربیع سے ’’الم اﷲ لا الہ الا ھو الحی القیوم‘‘ کی تفسیر میں منقول ہے کہ جب نصاریٰ نجران، نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضرت مسیح علیہ السلام کی الوہیت کے بارے میں آپﷺ نے مناظرہ اور مکالمہ شروع کیا اور یہ کہا کہ اگر حضرت مسیح ابن اﷲ ہیں تو پھر ان کا باپ کون ہے؟ (مراد کہ اگر حضرت عیسیٰ کا باپ نہیں، تو ان کو اﷲ ہی کا بیٹا کہنا چاہئے) حالانکہ خدا وہ ہے جو لاشریک ہے۔ بیوی اور اولاد سے پاک اور منزہ ہے۔ تو آنحضرتﷺ نے ان سے یہ ارشاد فرمایا کہ تم کو خوب معلوم ہے کہ بیٹا باپ کے مشابہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کیوں نہیں بے شک ایسا ہی ہوتا ہے۔ (یعنی جب یہ تسلیم ہوگیا کہ بیٹا، باپ کے مشابہ ہوتا ہے) تو اس قاعدہ سے حضرت مسیح بھی خدا کے مماثل اور مشابہ ہونے چاہئیں۔ حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ خدا بے مثل ہے اور بے چون و چگون ہے۔ ’’لیس کمثلہ شئی ولم یکن لہ کفواً احد‘‘ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ تم کو معلوم ہے کہ ہمارا پروردگار حیی لا یموت ہے۔ یعنی زندہ ہے۔ کبھی نہ مرے گا اور عیسیٰ علیہ السلام پر موت اور فنا آنے والی ہے۔ (اس جواب سے صاف ظاہر ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام ابھی زندہ ہیں، مرے نہیں۔ بلکہ زمانہ آئندہ میں ان پر موت آئے گی) نصاریٰ نجران نے کہا بے شک صحیح ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم کو معلوم ہے کہ ہمارا پروردگار ہر چیز کا قائم کرنے والا تمام عالم کا نگہبان اور محافظ اور سب کارزاق ہے۔ نصاریٰ نے کہا بے شک! آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ عیسیٰ علیہ السلام بھی کیا ان چیزوں کے مالک ہیں؟ نصاریٰ نے کہا نہیں۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا تم کو معلوم ہے کہ اﷲ پر زمین اور آسمان کی کوئی شے پوشیدہ نہیں۔ نصاریٰ نے کہا ہاں بے شک! آپﷺ نے ارشاد فرمایا کیا عیسیٰ کی بھی یہی شان ہے؟ نصاریٰ نے کہا نہیں۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم کو معلوم ہے کہ اﷲ نے حضرت عیسیٰ کو رحم مادر میں جس طرح چاہا بنایا؟ نصاریٰ نے کہا ہاں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم کو خوب معلوم ہے کہ اﷲ نہ کھانا کھاتا ہے۔ نہ پانی پیتا ہے اور نہ بول و براز کرتا ہے۔ نصاریٰ نے کہا بے شک! آپﷺ نے فرمایا کہ تم کو معلوم ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام سے اور عورتوں کی طرح ان کی والدہ مطہرہ حاملہ ہوئیں اور پھر مریم صدیقہ نے ان کو جنا۔ جس طرح عورتیں بچوں کو جنا کرتی ہیں۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام کو بچوں کی طرح غذا بھی دی گئی۔ حضرت مسیح کھاتے بھی تھے، پیتے بھی تھے اور بول و براز بھی کرتے تھے۔ نصاریٰ نے کہا بے شک! ایسا ہی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ پھر عیسیٰ علیہ السلام کس طرح خدا کے بیٹے ہوسکتے ہیں؟‘‘نصاریٰ نجران نے حق کو خوب پہچان لیا۔ مگر دیدئہ و دانستہ اتباع حق سے انکار کیا۔ اﷲ عزوجل نے اس بارے میں یہ آیتیں نازل فرمائیں : ’’الم اﷲ لا الہ الا ھو الحی القیوم‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دعا گو غلام نبی نوری

Wednesday 16 September 2015

مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق دجال کو عیسیٰ علیہ اسلام نے قتل کرنا ہے مگر مرزا غلام قادیانی نے کہا کہ میں مسیح موعود ہوں اور قتل دجال عیسیٰ علیہ اسلام کے ہاتھوں نہیں بلکہ قلم سے ہونا ہے ۔ کیا دجال کا قتل قلم سے ممکن ہے ؟

0 comments

سوال : مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق دجال کو عیسیٰ علیہ اسلام نے قتل کرنا ہے مگر مرزا غلام قادیانی نے کہا کہ میں مسیح موعود ہوں اور قتل دجال عیسیٰ علیہ اسلام کے ہاتھوں نہیں بلکہ قلم سے ہونا ہے ۔ کیا دجال کا قتل قلم سے ممکن ہے ؟جواب :حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ابن صیاد کے متعلق مشہور ہوا کہ وہ دجال ہے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تلوار نکال کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی کہ اگر اجازت ہو تو میں اسے قتل کر دوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ دجال ہے تو تو تم اسے قتل نہیں کرسکتے اس کو حضرت عیسیٰ علیہ اسلام ہی قتل کریں گے اگر یہ دجال نہیں تو تم کیوں اپنے ھاتھ قتل ناحق سے رنگین کرتے ہو ۔ عن جابر بن عبداللہ (فی قصۃ ابن صیاد)فقال عمر بن الخطاب ائذن لی فاقتلہٗ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان یکن ھو فلست صاحبہ انما صاحبہ عیسیٰ ابن مریم علیہ الصلوٰۃ والسلام، و ان لا یکن فلیس لک ان تقتل رجلا من اھل العھد(مشکوٰۃ۔ کتاب الفتن، باب قصّۃ بن صیّاد ، بحوالہ شرح السُّنہ بَغَوی)جا بر بن عبداللہ (قصّۂ ابن صیّاد کے سلسلہ میں) روایت کرتے ہیں کہ پھر عمر بن خطاب نے عرض کیا، یا رسول اللہ مجھے اجازت دیجئے کہ میں اسے قتل کردوں ۔ اس پرحضوؐر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ وہی شخص (یعنی دجال) ہے تو اس کے قتل کرنے والے تم نہیں ہو بلکہ اسے تو عیسیٰ بن مریم ہی قتل کریں گے۔ اور اگر یہ وہ شخص نہیں ہے تو تمہیں اہلِ عہد (یعنی ذمیوں) میں سے ایک آدمی کو قتل کردینے کا کوئی حق نہیں ہے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا تلوار نکالنا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ اگر یہ دجال ہے تو تم اسے قتل نہیں کرسکتے اس کو عیسیٰ ابن مریم ہی قتل کریں گے ، اس حدیث شریف نے یہ ثابت کردیا کہ دجال سے حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کی لڑائی ہوگی اور حضرت عیسیٰ ابن مریم دجال کا قتل کریں گے ، ورنہ جس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تلوار نکالی تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرما دیتے کہ اے عمر رضی اللہ عنہ یہ کیا کر رہے ہو اس کے ساتھ تو جہاد قلم کے ساتھ ہوگا ۔چنانچہ یہ حدیث دلیل ہے اس بات کی کہ دجال کے ساتھ حضرت عیسیٰ ابن مریم کی باقاعدہ لڑائی ہوگی اور دجال اس لڑائی میں مارا جائے گا نہ کہ قلم سے کے ساتھ دجال کو ختم کیا جائے گا ۔خود مرزا غلام قادیانی کہتا ہے کہ " اگر ابن صیاد کی پیشانی پر ک ف ر لکھا ہوا ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس کے قتل کرنے سے کیوں منع فرماتے اور کیوں فرماتے کہ ہمیں ابھی اس کے حال پر ابھی اشتباہ ہے اگر یہی دجال ہے تو اس کا صاحب عیسیٰ ابن مریم ہے جو اسے قتل کرے گا ہم اسے قتل نہیں کر سکتے " ( خزائن جلد 3 صفحہ 213، 212 ) مرزا غلام قادیانی کی مندرجہ بالا تحریر سے تین باتیں ثابت ہوتی ہیں 1 : ابن صیاد کی دجال کی طرف نسبت کرنے سے یہ بات بلکل واضح ہوجاتی ہے کہ دجال فرد واحد کا نام ہے کسی گروہ کا نہیں ، جیسا کہ قادیانی امت کا دجال کے بارے میں خیال ہے کہ دجال سے مراد پادریوں کا گروہ ہے ( خزائن جلد 3 صفحہ 362 ، 365 ، 494 )2 : مرزا غلام قادیانی نے اس حدیث کا حوالہ دے کر یہ تسلیم کرلیا ہے کہ دجال کا قتل عیسیٰ علیہ اسلام کے ھاتھوں ہوگا نہ کہ قلم سے 3 : قادیانی امت حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کی وفات کے بارہ میں صحابہ کے اجماع کا دعویٰ کرتے ہیں اور اسکی بنیاد آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا تلوار نکالنا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا آیت قد خلت پڑھنا بتاتے ہیں اور اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ وفات مسیح کے قائل نہ تھے ۔ ورنہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر یہی دجال ہے تو اس کا صاحب عیسی ابن مریم ہے جو اسے قتل کرے گا ہم اسکو قتل نہیں کرسکتے ۔ تو وہاں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہ کیوں نہ فرمایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ اسلام تو وفات پاچکے ہیں وہ دجال کو کیسے قتل کرینگے ؟ خلاصہ بحثلہذا ثابت ہوگیا کہ دجال کا قتل حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کے ھاتھوں ہوگا نہ کہ قلم سے دجال فرد واحد ہے نہ کہ کسی پادریوں کے گروہ کا نام وفات مسیح علیہ اسلام پر صحابہ راضوان اللہ علیہ اجمعین کے اجماع کا دعویٰ سراسر جھوٹ ہے ۔

عمر مسیح علیہ السلام پر اختلاف کا جواب۔ از قلم غلام نبی نوری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The age of Hzrat e Esah . A.S

0 comments

" عن عائشہ رضی اللہ عنہا ان عیسیٰ ابن مریم عاش عشرین و ما ئۃ سنۃ۔" ۔یعنی حضرت عیسیٰ علیہ اسلام ١٢٠ برس تک زندہ رہے یہاں عاش ماضی کا صیغہ ہے جس سے معلوم ہوا کے ١٢٠ سال کے بعد ان کا انتقال ہو گیاالجوابقادیانی اپنی تلبیس کی عادت قدیمہ پر عمل کرتے ہوۓ یہ حدیث پوری نقل نہیں کرتے اگر پوری نقل کرے تو ان کا سارا پول کھل جائے ...حدیث کی ابتدا یوں ہے کے .." انہ لم یکن کان بعدہ نبی الا عاش نصف عمری الذی کان قبله ،و ان عیسیٰ ابن مریم عاش عشرین و ما ئۃ سنۃ. " .(کنزا العمل صفحہ ٤٧٩ حدیث ٣٢٢٦٢ )ہر بعد میں آنے والا نبی اپنے سے پہلے نبی کی آدھی عمر پاتا ہے اور بیشک حضرت عیسیٰ علیہ اسلام نے120برس عمر پائیاصل بات یہ ہے کے یہ حدیث عقلاََ بھی اس قابل نہیں کے اس کی طرف ادنیٰ سا بھی غور کیا جائے کیونکے اس روایت کے شروع میں یہ مضمون بھی ہے کے ہر بعد میں آنے والا نبی اپنے سے پہلے نبی کی آدھی عمر پاتا ہے.اب اگر اسے صحیح مان کر حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کے اوپر کے دس انبیاء کی عمریں شمار کی جائیں تو ان کی عمریں ہزاروں لاکھوں برسوں سے تجاوز کر جائیں گی اور حضرت آدم علیہ اسلام کی عمر تو اتنا بڑھ جائے گی کے ماجودہ زمانے کے کمپیوٹر اسے شمار کرنے سے عجاز آئیں گے .اگر حساب کیا جائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اوپر بیسویں نبی کی عمر ٦ کروڑ ٢٩ لاکھہ ١٤ ہزار ٥٦٠ سال بنتی ہے حالانکہ خود قران مجید میں حضرت نوح علیہ اسلام کی عمر ٩٥٠ برس بتائی گئی ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ اسلام سے بہت پہلے کے رسول ہیں ..لہذا جب روایت کا پہلا جز ہی نہ قابل اعتبار ٹھہرا تو دوسرے جز پر کیسے اعتبار کیا جا سکے گا ؟اگر حدیث کا پہلا جز صحیح ہے کے ہر بعد میں انے والا نبی اپنے سے پہلے نبی کی آدھی عمر پاتا ہے تو اس رو سے مرزا جھوٹا ثابت ہوتا ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر ٦٣ برس ہے اور چونکہ قادیانی حضرات مرزے کو نبی مانتے ہیں تو اس لئے اس حدیث کے لحاظ سے اس کی عمر ٣١ ،٣٢ ہونی چاہیے تھی حالانکہ اس کی عمر ٧٠ کے لگ بھگ تھی .یہ حدیث ابن لہیہ کے واسطے سے مروی ہے جو محدثین کے نزدیک بالاتفاق مردود اور نا قابل عتبار راوی ہے اس لیے روایت صحیع کی مجودگی میں یہ روایت بلکل نہ قابل قبول ہے .اگر بالفرض اس حدیث کو صحیح تسلیم کرلیا جائے تو دیگر حدیث متواتر کو سامنے رکھہ کر اس طرح تطبیق دی جائے گی کے وہ نصوص کے مخلاف نہ ہو چانچہ ملا علی قاری رحمتہ اللہ علیہ نے اس کی تطبیق اس طرح دینے کی کوشس کی ہے کے نبوت سے قبل 40 سال ،نبوت کے بعد 33 سال اور قیامت کے قریب نازل ہونے کے بعد کے 48 سال اس طرح کل ملا کے 118 سال ہوۓ حدیث میں کسر کو پورا کر کے 120 سال کہہ دیا جس حدیث میں نزول کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ اسلام صرف 7 سال زندہ رہنے کی بات ہے وہ قتل دجال کے بعد7 سال تک زندہ رہنے پر محمول کی جائے گی.

Tuesday 15 September 2015

ہاہاہا مرزائیوں کا عینک والا خود ساختہ نبی ۔۔۔۔۔Glass Wala Nabi

0 comments

 عیکنک والے جن تو آپ نے بہت دیکھے ہوں گے پر یہ عینک والا خود ساختہ نبی بھی دیکھ لیں جو اپنے آپ کو یلاش کی بیوی ، مسیح ، ابن مریم، خدا، نبی، رسول، محدث، عالم ، مفکر ، سائنسدان، کیمیا گر، جادو گر، زانی شرابی، چور، ڈکیٹ، وارداتیا، نامر، خسرہ اور بہت سارے تمغوں سے نوازتا ہے ، مذید ہمارے فورم ہر اس کتے کے زاتی الہام پڑھیں اور اس پر لعنت ڈالیں

Sunday 13 September 2015

خاتم النبیین پر ایک بہترین ، عمدہ اور معلوماتی تحریر

0 comments
خاتم النبیین پر ایک بہترین ، عمدہ اور معلوماتی تحریر

  • ختم نبوت کا عقیدہ ان اجماعی عقائد میں سے ہے، جو اسلام کے اصول اور ضروریات دین میں شمار کئے گئے ہیں . اور عہد نبوت سے لے کر اس عہد تک ہر مسلمان اس پر ایمان رکھتا آیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلا کسی تاویل اور تصخیص کے خاتم النبیین ہیں .
  • قرآن مجید کی ایک سو آیات کریمہ، رحمت عالم ﷺ کی احادیث متواترہ (دوسو دس احادیث مبارکہ) سے یہ مسئلہ ثابت ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کا سب سے پہلا اجماع اسی مسئلہ پر منعقد ہوا کہ مدعی نبوت کو قتل کیا جائے.
  • آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ حیات میں اسلام کے تحفظ وحیات میں اسلام کے تحفظ و حیات کے لیے جتنی بھی جنگیں لڑیں گئیں ، ان میں شہید ہونے والے صحابہ اکرام رضی اللہ عنہ کی کل تعداد 259 ہے .
  • عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ ودفاع کے لئے اسلام کی تاریخ کی پہلی جنگ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں مسلیمہ کزاب کے خلاف یمامہ کے میدان میں لڑی گئی .
  • اس ایک خنگ میں شہید ہونے والے صحابہ رضی اللہ عنہ اور تابعین رحمتہ اللہ کی تعداد بارہ سو ہے جن میں 700 سات سو قرآن مجید کے حافظ اور عالم تھے.
  • رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کل کمائی اور گراں قدر اثاثہ حضرات صحابہ اکرام رضی اللہ عنہ ہی ہیں . جن کی بڑی تعداد اس عقیدہ کے تحفظ کے لئے جام شہادت نوش کر گئی 
  • . اس سے ختم نبوت کے عقیدہ کی عظمت کا اندازہ ہو جاتا ہے .
  • عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت اور فضیلت

  • حضرت حبیب بن زید انصاری رضی اللہ عنہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یمامہ کے قبیلہ بنو حنیفہ کے مسلیمہ کزاب کے پاس بھیجا، مسلیمہ کذاب نے حضرت حبیب بن زید انصاری رضی اللہ عنہ کو کہا کیا تم گواہی دیتے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ؟ 
    حضرت حبیب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں ... مسلیمہ نے کہا کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں (مسلیمہ) بھی اللہ کا رسول ہوں؟؟
    حضرت حبیب بن ذید انصاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں بہرا ہوں تیری یہ بات نہیں سن سکتا ....
    مسلیمہ بار بار سوال کرتا رہا ،وہ یہی جواب دیتے رہے .. 
    مسلیمہ آپ کا ایک ایک عضو کاٹتا رہا حتی' کہ حبیب بن زید رضی اللہ عنہ کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر کہ ان کو شہید کردیا گیا..
    اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرات صحابہ اکرام رضی اللہ تعالی عنہ مسئلہ ختم نبوت کی اہمیت وعظمت سے کس طرح والہانہ تعلق رکھتے تھے ...
    اب تابعین رضی اللہ عنہ میں سے ایک تابعی کا ایک واقعہ ملاحظہ ہو ............
    "حضرت ابو مسلم خولانی رضی اللہ عنہ جن کا نام عبدللہ بن ثوب رضی اللہ عنہ ہے اور یہ امت محمدیہ کے وہ جلیل القدر بزرگ ہیں جن کے لئے اللہ نے آگ کواس طرح بے اثر فرما دیا ..
    جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے آتش نمرود کو گلزار بنا دیا . یہ یمن میں پیدا ہوئے تھے .اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارک میں ہی اسلام کے آئے تھے .لیکن ارکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضری کا موقع نہیں ملا تھا .
    آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ کے آخری دور میں یمن میں نبوت کے جھوٹادعوےدار اسود عنسی پیدا ہوا .جو لوگوں کو اپنی جھوٹی نبوت پر ایمان لانے پر مجبور کیا کرتا تھا .
    اسی دوران اس نے حضرت ابو مسلم خولانی رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیج کر اپنے پاس بلایا اور اپنی نبوت پر ایمان لانے کی دعوت دی .... حضرت ابو مسلم رضی اللہ عنہ نے انکار کیا پھر اس نے پوچھا کیا تم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر ایمان رکھتے ہو ؟؟؟
    حضرت ابو مسلم رضی اللہ عنہ نے فرمایا ...ہاں
    اس پر اسود عنسی نے آگ دھکائی اور ابو مسلم لو اس خوفناک آگ میں ڈال دیا ، لیکن اللہ تعالی نے ان کے لئے آگ کو بے اثر کر دیا اور وہ اس سے صحیح سلامت نکل آئے. یہ واقعہ اتنا عجیب تھا کہ اسود عنسی اور اس کے رفقاء کو اس پر ہیبت سی طاری ہو گئی اسود کے ساتھیوں نے اسے مشورہ دیا کہ ان کو جلا وطن کر دو . ورنہ خطرہ ہے کہ ان کی وجہ سے تمہارے پیرووں کے ایمان میں تزلزل آجائے گا. چنانچہ انہیں یمن سے جلا وطن کر دیا گیا .
    یمن سے نکل کر آپ مدینہ منورہ تشریف لے آئے .حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جب ان سے ملے تو فرمایا : شکر اللہ تعالی کا کہ اس نے مجھے موت سے پہلے اس نے امت محمدیہ صلہ اللہ علیہ وآلہ وسلم کہ اس شخص کی زیارت کرا دی جس کے ساتھ اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ اسلام جیسا معاملہ فرمایا "
  • قرآن مجید میں ذات باری تعالی کے متعلق "رب العالمین" آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے "رحمتہ للعالمین" قرآن مجید کے لئے "زکرللعالمین" اور بہت اللہ کےلئے "ھدی للعالمین " فرمایا گیا ہے.
    اس سے جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت ورسالت کی آفاقییت وعالمگیریت ثابت ہوتی ہے،وہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصف ختم نبوت کا اختصاص بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کے لئے ثابت ہوتا ہے. اس لئے کے پہلے تمام انبیاء علیہ السلام اپنے اپنے علاقہ مخصوص قوم اور مخصوص وقت کے لئے تشریف لائے ، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو حق تعالی نے کل کائنات کو آپ کی نبوت ورسالت کے لئے اکائی بنا دیا .
    جس طرح کل کائنات کےلئے اللہ تعالی "رب" ہے .اسی طرح کل کائنات کےلئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم "نبی" ہیں.
    یہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اعزاز اختصاص ہے. آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےاپنے لئےجن چھے خصوصیات کا زکر فرمایا ان میں سے ایک یہ بھی ہے ::
    "میں تمام مخلوق کو نبی بنا کر بھیجا گیا اور مجھ پر نبوت کا سلسلہ بند کر دیا گیا "(مشکوہ صفحہ 512 فضائل المرسلین 'مسلم جلد 1 صفحہ 199)
    آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری نبی ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت آخری امت ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قبلہ آخری قبلہ بیت شریف ہے .آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل شدہ کتاب آخری آسمانی کتاب ہے .
    یہ سب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے ساتھ منصب ختم نبوت کے اختصاص کے تقاضے ہیں جو اللہ تعالی نے پورے کر دیے ہیں.
    چنانچہ قرآن مجید کو "زکر للعالمین" بیت اللہ شریف کو "ھدی للعالمین" کا اعزاز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت کے صدقے میں ملا ہے.
    آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت آخری امت قرار پائی جیسا کہ ارشاد نبوی ہے "انا آخر الانبیاء وانتم آ ”ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین وکان اللہ بکل شئی علیما۔“ (سورۂ احزاب:40) 
    ترجمہ: ”محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے ختم پر ہے اورا للہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔
    تمام مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ خاتم النبیین کے معنی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو منصبِ نبوت پر فائز نہیں کیا جائیگا۔
    خاتم النبیین کی نبوی تفسیر

    حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے، ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی کسی قسم کا نبی نہیں۔“(ابوداؤد، ترمذی) اس حدیث شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ ”خاتم النبیین“ کی تفسیر ”لانبی بعدی“ کے ساتھ خود فرمادی ہے۔اسی لئے حافظ ابن کثیررحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر میں اس آیت کے تحت چند احادیث نقل کرنے کے بعد آٹھ سطر پر مشتمل ایک نہایت ایمان افروز ارشاد فرماتے ہیں۔ چند جملے آپ بھی پڑھ لیجئے۔
    ”اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور رسول اکرم نصلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث متواتر کے ذریعہ خبر دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا تاکہ لوگوں کو معلوم رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جس نے بھی اس مقام (یعنی نبوت) کا دعویٰ کیا وہ بہت جھوٹا‘ بہت بڑا افترا پرداز‘ بڑا ہی مکار اور فریبی‘ خود گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا ہوگا‘ اگرچہ وہ خوارق عادات اور شعبدہ بازی دکھائے اور مختلف قسم کے جادو اور طلسماتی کرشموں کا مظاہرہ کرے۔“ (تفسیر ابن کثیررحمۃ اللہ علیہ جلد3 صفحہ494)
    خاتم النبیین کی تفسیر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے

    حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم و تابعین رحمۃ اللہ علیہم کا مسئلہ ختم نبوت سے متعلق مؤقف کیلئے یہاں پر صرف دوصحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی آرأ مبارکہ درج کی جاتی ہیں۔ حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ انہوں نے آیت کی تفسیر میں فرمایا”اور لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول اور خاتم النبیین یعنی آخرالنبیین ہیں۔“ (ابن جریر صفحہ 16جلد 22) حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ سے آیت خاتم النبیین کے بارہ میں یہ تفسیر نقل کی گئی ہے کہ”اللہ تعالیٰ نے تمام انبیأ کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کردیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان رسولوں میں سے جو اللہ کی طرف سے مبعوث ہوئے آخری ٹھہرے۔“ (درّ منثور صفحہ204 جلد5) کیا اس جیسی صراحتوں کے بعد بھی کسی شک یا تاویل کی گنجائش ہے؟ اور بروزی یا ظلی کی تاویل چل سکتی ہے؟
  • خرالامم" (ابن ماجہ صفحہ 297)
  • ڈارلنگ ٹٹی اٹھا لو۔ الہام مرزا قادیانی

    0 comments

    ڈارلنگ ٹٹی اٹھا لو۔ الہام مرزا قادیانی

    مرزا غلام قادیانی یہاں پر اپنی خباثت دکھاتے ہوئے وحی الہی پر تمسخر بناتے ہوئے اپنی بیوی کو کہتا ہے کہ مجھے کشفی

    بتایا گیا ہے کہ جو ٹٹی میں نے تمہیں اٹھانے کے لیے کہا تھا وہ تم نے نہیں اٹھائی،۔ استغفر اللہ۔ کتنی بڑی خباثت ہے مرزا کی۔
    اس لعنتی پر لعنت ڈال کر پوسٹ شئیر کریں

    Sunday 6 September 2015

    Qadianiyat par last class.............قادیانیت پر آخری کلاس

    0 comments

    مذہبی دعووں کی سیاست


    مرزا صاحب کا سارا کاروبار صرف اور صرف مذہب کی آڑ میں سیاست تھی جس کا اسلام کے احیاء کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔آپ انگریزوں کے آلہ کار اور مسلمانوں کے اتحاد کے سب سے بڑے دشمن تھے۔مجدد، مہدی، مسیح موعود، نبی، رسول اور کرشن اوتار کے دعوے صرف سیاسی تماشے تھے۔آپ کے سیاسی کاروبار کی نوعیت سمجھنے کے لیے آپ کے مہددیت کے دعوے سے گفتگو کا آغاز کرتے ہیں۔



    مہدی


    احادیث کے مطابق مہدی ایک ہدایت یافتہ شخصیت ہوں گے۔نبی کریمﷺ کے طریق پر خلافت قائم کریں گے اور زمین کو اُس وقت عدل و انصاف سے بھر دیں گے جب اسے زمین سے منتشر کر کے نکالا جا چکا ہو گا۔ وہ ایک جنگجو اور اسلام کے عظیم سپاہی ہوں گے۔تاریخ کے مختلف ادوار میں اپنے سیاسی مقاصد کو پروان چڑھانے کے لیے کئی مذہبی مہم جوؤں نے مہد ی ہونے کا دعویٰ کیا۔سیاسی مقاصد کی خاطر ایران کے بابیوں اور ہندوستان کے قادیانیوں نے اس کا سب سے زیادہ استعمال کیا۔ جب کبھی مسلمانوں کی سیاسی قو ت تنزل کا شکار ہوئی تو کوئی نہ کوئی مہدی اُٹھ کھڑا ہوا۔انیسویں صدی کے سیاسی حالات کے باعث ”مہدی ”کے تصور نے بڑی اہمیت حاصل کی۔ یہ اعتماد بحال کرنے اور کسی قوم کی اُمید زندہ رکھنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔یہ توقع کی جاتی تھی کہ مہدی علیہ السلام آکر ماضی کی شان و شوکت بحال کریں گے اور اسلامی دُنیا کو ایک خوشگوار انجام تک لے جائیں گے۔مرزا صاحب نے مہدی کا دعویٰ ١٨٩١ء میں کیا۔ آپ نے یہ اعلان کیا کہ آپ کی ذات میں مہدی کے متعلق تمام پیش گوئیاں مکمل ہو گئی ہیں ،مگر مہدی کے جہادی پہلو کے متعلق سوچ کر آپ خوف سے کانپ جاتے۔ آپ نے اپنے آپ کو ”عدم تشدد کا حامی مہدی” قرار دیا جو زمین پر جنگ کو روکنے آیا تھا۔آپ نے انگریزوں اور مسلمانوں کو یہ یقین دلانے کی سر توڑ کوشش کی کہ مہد ی کی عالمی فتوحات کی جو پیش گوئیاں ہیں وہ امن کی فتوحات ہیں ، جنگ کی نہیں۔اپنی کتابوں میں آپ نے مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرایا کہ وہ ایک خونخوار جنگجو اور خونی مہدی کے تصور کو پروان چڑھا رہے ہیں ،جو غیر مسلم یہودیوں اور عیسائیوں کو قتل کرے گا۔ ١ ایسا کوئی مہدی نہیں آ سکتا جو جہاد شروع کرے۔ وہ ایک ابلاغ کا ر تو ہو سکتا ہے،سپاہی نہیں۔انگریزوں کے خلاف جنگ کا سوال ہی پید انہیں ہوسکتا تھا،خواہ ہندوستان میں یااسلامی دُنیا میں کہیں اور اس کی ضرورت پیش آئے۔

    انیسویں صدی کے آخیر میں نو آبادیاتی قومیں ایشیا ء اور افریقہ میں نو آبادیوں کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی تھیں فرانسیسی سامراج نے تیونس پر قبضہ کر لیا اور برطانیہ مصر لے گیا۔مصر کے معاملات میں برطانیہ کی مداخلت ١٨٧٥ء میں شروع ہوئی جب برطانوی وزیر اعظم ڈزرائیلی نے نہر سویز کے حصص خریدنے کے لیے بات چیت شروع کی۔ اس کے بعد اگلی دہائی میں بھی انہوں نے ”پُر امن نفوذ پذیری ” جاری رکھی، خد یواسماعیل نے نو آبادیاتی شکنجے سے جان چھڑانے کی کوشش کی،مگر ناکام رہا۔ ١٨٧٩ء میں مصری فوج میں ایک بغاوت ہوئی جو دبادی گئی۔ دوسال بعد کرنل احمد اعرابی نے مصری معاملات میں برطانوی مداخلت کے خلاف چند فوجی افسران اور مذہبی رہنماؤں کے ساتھ مل کر ہتھیار اُٹھا لیے۔ ١١ اور ١٢ جون کو اسکندریہ میں بلوہ ہوا۔ ایک مہینے بعد برطانوی امیر البحر فریڈرک بی کیمپ نے وہ کیاجسے بعد میں ولزلی نے ”اسکندریہ پر احمقانہ اور مجرمانہ بمباری ”کا نام دیا گیا۔لندن میں اعرابی کی جنگ آزادی کو ختم کرنے کے لیے گلیڈ سٹون حکومت نے فوج بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ ستمبر ١٨٨٢ء میں فوج کے نائب سالار ولزلی کو طل کبیر کی جنگ میں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جو کہ نہر سویز اور قاہرہ کے تقریباً وسط میں تھی۔تاہم برطانوی فوجیں کامیاب رہیں اور کرنل احمد کی فوجیں جزیرہ سشیلز کی طرف ہٹ گئیں۔١٨٨٣ء میں برطانیہ نے مصر پر قبضہ کر لیا اوراس حقیقت کے باوجود کہ مصر ترکی سلطنت کا حصہ تھا،برطانیہ نے اس پر اپنا نو آبادی تسلط جاری رکھا۔

    (مرزا غلام احمد”حقیقت المہدی ”قادیان۔ ١٨٩٩ء۔ صفحہ نمبر ٦۔ اور ” محمد علی، مرزا غلام احمد” لاہور۔١٩٦٧ء صفحہ نمبر ٥)

    اعرابی کی نو آبادیاتی مخالف بغاوت کے دوران سوڈان میں ایک مذہبی رہنما المہدی (محمد احمد ) اُٹھ کھڑے ہوئے۔انہوں نے تمام قبائل کو متحد کیا اور ان تمام مصری دستوں کو متواتر شکستیں دیں جو انہیں گرفتار کرنے کے لیے بھیجے گئے تھے۔نیل کے مغرب میں مہدی کے درویشوں نے پورے سوڈان کا مکمل اختیار جلد ہی سنبھا ل لیا۔

    ((مہدی برطانوی یا مصری تاریخ کا ایک باب یا حصہ نہیں یہ اسلامی احیاء کے خود مختار تاریخی عمل کا حصہ ہے۔ دیکھئے بی۔ایم۔ہولٹ ”سوڈان میں مہدی ریاست ”۔ ٨٩۔١٨٨١۔ آکسفورڈ۔١٩٥٨۔ اور۔محمد شکیبہ۔”سوڈان میں برطانوی حکمت عملی ” لندن۔١٩٥٢ء)

    ١٨٨٣ء میں دس ہزار فوجیوں کولے کر برطانوی جرنیل ہکس نے درویشوں کے خلاف لڑنے کے لیے صحرا میں بڑھنا شروع کیا۔ جذبہ جہاد سے سر شار مہدی کی فوجوں نے دس ہزار آدمیوں کی فوج کا مکمل صفایا کر دیا جس سے برطانوی حیران اور خوفزدہ ہو گئے۔ لارڈ فٹ موریز نے دار الامرا ء کو بتایا کہ ”جب سے فرعون کے ہاتھی بحیرہ احمر میں ڈوب کر تباہ ہوئے اس وقت سے کسی فوج کی اتنی مکمل تباہی آج تک نہیں ہو سکی ”۔ سوڈانیوں اور عرب ممالک کی کثیر تعداد نے یہ یقین کر لیا کہ آپ وہی ا صل مہدی ہیں جن کی آمد کی خوشخبری حضور اکرمﷺ نے دی تھی۔

    (لٹن سٹار کی۔ Eminent Victorians۔چٹوئی اور انڈس۔لندن۔١٩٧٤۔صفحہ نمبر ٢٥٥)

    برطانوی سامراجیوں نے درویشوں کے خلاف لڑنے کے لیے چارلس گورڈن کا انتخاب کیا۔ گورڈن نے تائیوان کی چین میں ”تائپنگ بغاوت ”کو کچل کر بڑا نام کمایا تھا۔اس تحریک کا سربراہ خدا کا بیٹا،خدا کا پیغمبر،آسمانی بادشاہ اور حضرت مسیح کا چھوٹا بھائی ہونے کا دعویدار تھا۔ وہ بھی مرزا کی طرح اپنے علمی مقاصد میں ناکامی پرسیاست کی طرف راغب ہو گیا۔١٨٦٤ ء میں گورڈن نے ”مسیح کی بغاوت ”کچل دی اور نان کن پر قبضہ کر لیا۔

    مہدی کی فوجو ں کے بڑھتے ہوئے عسکری دباؤ کے سامن گورڈن نے اپنی چھاؤنیاں ہٹا لیں اور برطانوی احکامات کے خلاف خرطوم پر اپنا قبضہ جاری رکھا جب تک کہ ١٨٨٥ء میں مہدی کی فوجوں نے اس پر قبضہ کر لیا۔ درویشوں نے جنرل گورڈن کو مار ڈالا۔ملکہ وکٹوریہ اصرار کرتی رہی کہ ہندوستانی دستوں کو عدن سے حرکت دی جائے کہ وہ گورڈن کو بچا سکیں۔مشہور انگریزی شاعر لارڈٹینی سن نے گورڈن کے بارے ایک نظم لکھی اور برطانوی پریس نے اسے ”سپاہی ولی”کا خطاب دے دیا اگرچہ ریڈ ور زبلرز نے یہ کہا ”یہ آدمی اُونٹوں سے بھی کم حیثیت کا مالک تھا۔

    (رچرڈ گیرٹ۔ ”جنرل گورڈن ”۔آتھر بیکر لمیٹڈ لندن۔١٩٧٤ء صفحہ نمبر ٢١٥

    محمد احمد المہدی سوڈانی کو برطانوی فوجیں کبھی بھی نیچا نہ دکھا سکیں۔ دس سال کے عرصے کے بعد کچنر نے ١٨٩٦ء میں سوڈان کو سامراجی دائرہ اختیار میں زبردستی لانے کے لیے فوجی مہمات شروع کیں۔ ایک سال کے بعد مہدی کے خلیفہ کو بڑی خونریزی کے بعد شکست ہوئی اور وہ ایک سال بعد مارے گئے۔کچنر نے مہدی کا مقبرہ تباہ کر دیا۔ ان کی ہڈیاں دریائے نیل میں پھینک دی گئیں اور یہ تجویز ہوا کہ ان کی کھوپڑی رائل کالج آف سرجنز کو بھجوائی جائے جہاں اس کی نپولین کی آنتوں کے ساتھ نمائش کی جا سکے۔بعد ازاں وادی حلفہ میں یہ کھوپڑی رات کے وقت خفیہ طور پر دفن کر دی گئی۔

    مہدی کی سوڈان میں جنگ آزادی نے عرب اور شام میں سنگین خطرے بھڑکا دئیے۔ مسلمانانِ ہند نے بھی برطانوی فوجوں کی ذلت آمیز شکستوں پر اطمینان کا سانس لیا۔ انہوں نے مہدی سوڈانی کو عزت و احترام دیا۔ انہیں خطوط بھیجے اور قوموں کے نجات دہندہ کا درجہ دیا۔ ہندوستان میں اُنہیں یقین پورا پایا جاتا تھا کہ مہدی سوڈانی افریقہ کو فتح کرنے کے بعد انڈیا بھی فتح کریں گے اور غیر ملکی شکنجوں سے مسلمانوں کو آزاد کرائیں گے۔

    ( اے ایگمن ہیک۔دی جزنر۔میجر جرنل سی۔ جی گولڈن۔سی۔ بی الخرطوم۔کیگن پال ٹرونج اینڈ کمپنی لندن ١٨٨٥ء۔صفحہ نمبر ٤٤ٍ)

    جب مہدی سوڈانی کی تحریک پورے زوروں پر تھی، مرزا قادیانی جہاد کی مذمت اور برطانوی سامراج کے روشن ترین خاکے تیار کر کے مذہبی مواد کی بھاری مقدار افریقہ کو بھجوا رہا تھا۔

    اپنی کتاب ”حقیقت المہدی ”میں اس نے جہادی اور خونی مہدی کی سخت مذمت کی اور دعویٰ کیا کہ پچھلے بیس سالوں سے (١٨٧٩۔٩٩ ١٨ء)وہ تصور جہاد کے خلاف پرچار کر رہا ہے۔ ایک خونی مہدی اور مسیح کی آمد کے نظریئے اور جہاد مخالف لٹریچر کی عرب ممالک خصوصاً ترکی،شام، کابل وغیرہ میں تقسیم جاری رکھی۔ اپنی کتاب کے ساتھ عربی اور فارسی میں ایک اٹھارہ صفحات کا ضمیمہ منسلک کر کے اس نے عرب ممالک کے مسلمانوں کو دعوت دی کہ وہ اس کی مہدویت کے دعویٰ کو تسلیم کر لیں اور جہاد کے نام پر جنگیں بند کر دیں اور برطانوی حکومت کے بارے میں اپنے دلوں میں گہرا احترام پیدا کریں۔ایک دوسری کتاب ”ملکہ وکٹوریہ کی خدمت میں تحفہ ”میں آپ ذکر کرتے ہیں۔

    ”والد صاحب مرحوم کے انتقال کے بعد یہ عاجز دنیا کے مشغلوں سے بالکل علیحدہ ہو کر خدا تعالی کی طرف مشغول ہوا اور مجھ سے سرکار انگریزی کے حق میں جو خدمت ہوئی وہ یہ تھی کہ میں نے پچاس ہزار کے قریب کتابیں اور رسائل اور اشتہارات چھپوا کر اس ملک اور نیز دوسرے بلادِاسلامیہ میں اس مضمون کے شائع کیے کہ گورنمنٹ انگریز ہم مسلمانوں کی محسن ہے، لہٰذا ہر ایک مسلمان کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ اس گورنمنٹ کی سچی اطاعت کرے اور دل سے اس دولت کا شکر گزار اور دعا گو رہے اور یہ کتابیں میں نے مختلف زبانوں یعنی فارسی عربی میں تالیف کر کے اسلام کے تمام ملکوں میں پھیلا دیں یہاں تک کہ اسلام کے دو مقدس شہروں مکہ اور مدینہ میں بھی شائع کر دیں۔اور روم کے پایہ تخت قسطنطنیہ اور بلادِ شام اور مصر اور کابل اور افغانستان کے متفرق شہروں میں جہاں تک ممکن تھا اشاعت کر دی جس کا یہ نتیجہ ہوا کہ لاکھوں انسانوں نے جہاد کے غلیظ خیالات چھوڑ دئیے جو نا فہم ملاؤں کی تعلیم سے ان کے دلوں میں تھے۔یہ ایک ایسی خدمت مجھ سے ظہور میں آئی کہ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ برٹش انڈیا کے تمام مسلمانوں میں سے اس کی نظیر کوئی مسلمان دکھلا نہیں سکتا۔

    ( دیکھئے مرزا غلام احمد ”ستارہ قیصریہ ”١٨٩٩ء۔قادیان۔ صفحہ نمبر ٤٠٣ ”حقیقت مہدی ”قادیان۔١٨٩٩ء)

    کیا اپنی جیب سے ہزاروں روپیہ خرچ کر کے برطانوی حمایت میں لٹریچر چھپوانے میں کوئی مقصد کارفرما ہے؟ کیا احمدی اس پر روشنی ڈالیں گے؟ یہ ہزاروں روپے (جن کی آج وقعت کروڑوں روپے بنتی ہے )کہاں سے آئے ؟ ١٨٩٨ء میں مرزا صاحب نے انکم ٹیکس کے ایک مقدمہ میں اپنی سالانہ آمدنی سات سو روپے سے کم ظاہر کی تھی، جس پر ضلع گرداسپور کے کلکٹر ٹی۔ٹی ڈکسن نے انہیں انکم ٹیکس سے مستثنی قرار دیا تھا۔

    (مرزا غلام احمد۔”تحفہ قیصریہ”ص ٢٧۔)

    مرزا صاحب اسے ایک خدائی نشانی قرار دیتے ہیں۔

    (مرزا غلام احمد”ضرورت الامام ”قادیان ١٨٩٩ء )

    برطانوی پروپیگنڈا مہم میں خرچ کے لیے وہ ہزاروں روپوں کا کہاں سے انتظام کرسکا ؟ جواب بالکل صاف ہے۔ سیاست کے اس فریب کارانہ کھیل کی مدد کے لیے برطانوی خفیہ تنظیموں کی تفویض پر خفیہ مذہبی رقوم رکھی گئی تھیں۔ہندوستان اوراس کے باہر برطانیہ کی حمایت میں پروپیگنڈا مہم کی تدوین اور اسے جاری رکھنے کے لیے فری میسن اور یہودی بھی آپ کو رقوم دیتے تھے۔ مرزا صاحب نے یہ وضاحت بھی کی ہے کہ وہ اسلامی ممالک میں اس لٹریچر کے ساتھ چند عرب شرفا ء کو بھی بھیجتے رہے ہیں۔

    (مرزا غلام احمد کی تیار کردہ یادداشت جو منظوری کے لیے ملکہ وکٹوریہ ہندوستان کے منتظم اعلی کے نائب منتظم اور ہندوستان کے دوسرے اہل کاروں کو پیش کی گئی۔”تبلیغ رسالت ”۔جلد ٣۔صفحہ نمبر ١٩٦ )

    قادیان کی خفیہ تنظیم کے تربیت یافتہ یہ جاسوس اسلام مخالف قوتوں کے ساتھ قریبی تعلقات قائم رکھتے تھے۔غلام نبی (قادیان)عبدالرحمن مصری، عبدالمحی عرب،(پروفیسر عبدالمحی عرب حکیم نورالدین سے بہت متاثر تھا۔ وہ نیویارک میں طب کی تعلیم کے لیے جانا چاہتا تھا،مگر امریکی حکومت نے اسے ایرانی جاسوس سمجھتے ہوئے اجازتِ داخلہ دینے سے انکار کر دیا۔ جس پر وہ لندن میں مقیم ہو گیا )

    (مولانا غلام رسول مہر۔”سفر نامہ حجاز ” کراچی۔ ١٩٨٤ئ۔ صفحہ نمبر ٧٦)

    اور شاہ ولی اللہ کو انیسویں صدی کے اخیر میں تخریب کارانہ مقاصد کے لیے مصر بھیجا گیا۔ان کی خدمات قاہرہ میں برطانوی خفیہ والوں کو تفویض کر دی گئیں۔ہمارے ذہنوں میں ایک اور اہم سوال اُبھرتا ہے کہ مرزا صاحب کا یہ دعویٰ تھا کہ برطانوی ہند میں جہاد ممنوع اور غیر قانونی ہے،مگر آپ نے اسے بقیہ اسلامی دنیا کے لیے مکمل طور پر غیر قانونی اور ممنوعہ کیوں قرار دیا۔ جہاں مسلمان یورپی سامراجیت کے خلاف اپنے بقاء کی جنگ لڑ رہے تھے۔کیا یہ سامراجی قوتوں اور ان کے یہودی حلیفوں کے واسطے اسلامی دنیا کی جہادی تحاریک کو تباہ کرنے کی ایک طے شدہ حکمت عملی نہیں تھی ؟



    قادیانیت کیا ہے؟


    قادیانیت برطانوی سامراج کا پیدا کردہ اسلام دُشمن سیاسی و سازشی فتنہ ہے جس کو مرزا غلام قادیانی نے مذہبی روپ دے کر مسلمانوں کے دلوں سے جذبہ جہاد کو مٹانے کی خطرناک سازش دور فرنگی میں فرنگی کے اشاروں پر تیار کی تھی جس کا اعتراف خود مرزا غلام قادیانی کرتا ہے کہ قادیانیت انگریز کا (خود کاشتہ پودا ) ہے (مجموعہ اشتہارات جلد سوم ص١٢١ از مرزا قادیانی ) اور قادیانی عالمی صیہونی تحریک کے آلہ کار یورپ کے تربیت یافتہ اور اسرائیل کے ایجنٹ ہیں۔ قادیانیت کا وجود ننگ انسانیت اور ملت اسلامیہ کے لیے ایک ناسور اور ایمان کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ قادیانیت حضورﷺ سے بغض و عناد، ختم نبوت پر ڈاکہ زنی اور یہودیت کے مکر و فریب اور دجل کا دوسرا نام ہے۔
     

    Saturday 5 September 2015

    mirza Qadiani Gnada

    0 comments

    Alhmaat.e mirza ki haqiqat

    0 comments
    mira Ghulam qadiani ke alhamaat ki haqiqat,

    Thursday 3 September 2015

    Qadiyaniyat pat 2nd Class...قادیانیت پر دوسرئ کلاس

    0 comments
    ؟ 
    مذہبی دعووں کی سیاست


    مرزا صاحب کا سارا کاروبار صرف اور صرف مذہب کی آڑ میں سیاست تھی جس کا اسلام کے احیاء کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔آپ انگریزوں کے آلہ کار اور مسلمانوں کے اتحاد کے سب سے بڑے دشمن تھے۔مجدد، مہدی، مسیح موعود، نبی، رسول اور کرشن اوتار کے دعوے صرف سیاسی تماشے تھے۔آپ کے سیاسی کاروبار کی نوعیت سمجھنے کے لیے آپ کے مہددیت کے دعوے سے گفتگو کا آغاز کرتے ہیں۔
    مہدی

    احادیث کے مطابق مہدی ایک ہدایت یافتہ شخصیت ہوں گے۔نبی کریمﷺ کے طریق پر خلافت قائم کریں گے اور زمین کو اُس وقت عدل و انصاف سے بھر دیں گے جب اسے زمین سے منتشر کر کے نکالا جا چکا ہو گا۔ وہ ایک جنگجو اور اسلام کے عظیم سپاہی ہوں گے۔تاریخ کے مختلف ادوار میں اپنے سیاسی مقاصد کو پروان چڑھانے کے لیے کئی مذہبی مہم جوؤں نے مہد ی ہونے کا دعویٰ کیا۔سیاسی مقاصد کی خاطر ایران کے بابیوں اور ہندوستان کے قادیانیوں نے اس کا سب سے زیادہ استعمال کیا۔ جب کبھی مسلمانوں کی سیاسی قو ت تنزل کا شکار ہوئی تو کوئی نہ کوئی مہدی اُٹھ کھڑا ہوا۔انیسویں صدی کے سیاسی حالات کے باعث ”مہدی ”کے تصور نے بڑی اہمیت حاصل کی۔ یہ اعتماد بحال کرنے اور کسی قوم کی اُمید زندہ رکھنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔یہ توقع کی جاتی تھی کہ مہدی علیہ السلام آکر ماضی کی شان و شوکت بحال کریں گے اور اسلامی دُنیا کو ایک خوشگوار انجام تک لے جائیں گے۔مرزا صاحب نے مہدی کا دعویٰ ١٨٩١ء میں کیا۔ آپ نے یہ اعلان کیا کہ آپ کی ذات میں مہدی کے متعلق تمام پیش گوئیاں مکمل ہو گئی ہیں ،مگر مہدی کے جہادی پہلو کے متعلق سوچ کر آپ خوف سے کانپ جاتے۔ آپ نے اپنے آپ کو ”عدم تشدد کا حامی مہدی” قرار دیا جو زمین پر جنگ کو روکنے آیا تھا۔آپ نے انگریزوں اور مسلمانوں کو یہ یقین دلانے کی سر توڑ کوشش کی کہ مہد ی کی عالمی فتوحات کی جو پیش گوئیاں ہیں وہ امن کی فتوحات ہیں ، جنگ کی نہیں۔اپنی کتابوں میں آپ نے مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرایا کہ وہ ایک خونخوار جنگجو اور خونی مہدی کے تصور کو پروان چڑھا رہے ہیں ،جو غیر مسلم یہودیوں اور عیسائیوں کو قتل کرے گا۔ ١ ایسا کوئی مہدی نہیں آ سکتا جو جہاد شروع کرے۔ وہ ایک ابلاغ کا ر تو ہو سکتا ہے،سپاہی نہیں۔انگریزوں کے خلاف جنگ کا سوال ہی پید انہیں ہوسکتا تھا،خواہ ہندوستان میں یااسلامی دُنیا میں کہیں اور اس کی ضرورت پیش آئے۔

    انیسویں صدی کے آخیر میں نو آبادیاتی قومیں ایشیا ء اور افریقہ میں نو آبادیوں کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی تھیں فرانسیسی سامراج نے تیونس پر قبضہ کر لیا اور برطانیہ مصر لے گیا۔مصر کے معاملات میں برطانیہ کی مداخلت ١٨٧٥ء میں شروع ہوئی جب برطانوی وزیر اعظم ڈزرائیلی نے نہر سویز کے حصص خریدنے کے لیے بات چیت شروع کی۔ اس کے بعد اگلی دہائی میں بھی انہوں نے ”پُر امن نفوذ پذیری ” جاری رکھی، خد یواسماعیل نے نو آبادیاتی شکنجے سے جان چھڑانے کی کوشش کی،مگر ناکام رہا۔ ١٨٧٩ء میں مصری فوج میں ایک بغاوت ہوئی جو دبادی گئی۔ دوسال بعد کرنل احمد اعرابی نے مصری معاملات میں برطانوی مداخلت کے خلاف چند فوجی افسران اور مذہبی رہنماؤں کے ساتھ مل کر ہتھیار اُٹھا لیے۔ ١١ اور ١٢ جون کو اسکندریہ میں بلوہ ہوا۔ ایک مہینے بعد برطانوی امیر البحر فریڈرک بی کیمپ نے وہ کیاجسے بعد میں ولزلی نے ”اسکندریہ پر احمقانہ اور مجرمانہ بمباری ”کا نام دیا گیا۔لندن میں اعرابی کی جنگ آزادی کو ختم کرنے کے لیے گلیڈ سٹون حکومت نے فوج بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ ستمبر ١٨٨٢ء میں فوج کے نائب سالار ولزلی کو طل کبیر کی جنگ میں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جو کہ نہر سویز اور قاہرہ کے تقریباً وسط میں تھی۔تاہم برطانوی فوجیں کامیاب رہیں اور کرنل احمد کی فوجیں جزیرہ سشیلز کی طرف ہٹ گئیں۔١٨٨٣ء میں برطانیہ نے مصر پر قبضہ کر لیا اوراس حقیقت کے باوجود کہ مصر ترکی سلطنت کا حصہ تھا،برطانیہ نے اس پر اپنا نو آبادی تسلط جاری رکھا۔

    (مرزا غلام احمد”حقیقت المہدی ”قادیان۔ ١٨٩٩ء۔ صفحہ نمبر ٦۔ اور ” محمد علی، مرزا غلام احمد” لاہور۔١٩٦٧ء صفحہ نمبر ٥)

    اعرابی کی نو آبادیاتی مخالف بغاوت کے دوران سوڈان میں ایک مذہبی رہنما المہدی (محمد احمد ) اُٹھ کھڑے ہوئے۔انہوں نے تمام قبائل کو متحد کیا اور ان تمام مصری دستوں کو متواتر شکستیں دیں جو انہیں گرفتار کرنے کے لیے بھیجے گئے تھے۔نیل کے مغرب میں مہدی کے درویشوں نے پورے سوڈان کا مکمل اختیار جلد ہی سنبھا ل لیا۔

    ((مہدی برطانوی یا مصری تاریخ کا ایک باب یا حصہ نہیں یہ اسلامی احیاء کے خود مختار تاریخی عمل کا حصہ ہے۔ دیکھئے بی۔ایم۔ہولٹ ”سوڈان میں مہدی ریاست ”۔ ٨٩۔١٨٨١۔ آکسفورڈ۔١٩٥٨۔ اور۔محمد شکیبہ۔”سوڈان میں برطانوی حکمت عملی ” لندن۔١٩٥٢ء)

    ١٨٨٣ء میں دس ہزار فوجیوں کولے کر برطانوی جرنیل ہکس نے درویشوں کے خلاف لڑنے کے لیے صحرا میں بڑھنا شروع کیا۔ جذبہ جہاد سے سر شار مہدی کی فوجوں نے دس ہزار آدمیوں کی فوج کا مکمل صفایا کر دیا جس سے برطانوی حیران اور خوفزدہ ہو گئے۔ لارڈ فٹ موریز نے دار الامرا ء کو بتایا کہ ”جب سے فرعون کے ہاتھی بحیرہ احمر میں ڈوب کر تباہ ہوئے اس وقت سے کسی فوج کی اتنی مکمل تباہی آج تک نہیں ہو سکی ”۔ سوڈانیوں اور عرب ممالک کی کثیر تعداد نے یہ یقین کر لیا کہ آپ وہی ا صل مہدی ہیں جن کی آمد کی خوشخبری حضور اکرمﷺ نے دی تھی۔

    (لٹن سٹار کی۔ Eminent Victorians۔چٹوئی اور انڈس۔لندن۔١٩٧٤۔صفحہ نمبر ٢٥٥)

    برطانوی سامراجیوں نے درویشوں کے خلاف لڑنے کے لیے چارلس گورڈن کا انتخاب کیا۔ گورڈن نے تائیوان کی چین میں ”تائپنگ بغاوت ”کو کچل کر بڑا نام کمایا تھا۔اس تحریک کا سربراہ خدا کا بیٹا،خدا کا پیغمبر،آسمانی بادشاہ اور حضرت مسیح کا چھوٹا بھائی ہونے کا دعویدار تھا۔ وہ بھی مرزا کی طرح اپنے علمی مقاصد میں ناکامی پرسیاست کی طرف راغب ہو گیا۔١٨٦٤ ء میں گورڈن نے ”مسیح کی بغاوت ”کچل دی اور نان کن پر قبضہ کر لیا۔

    مہدی کی فوجو ں کے بڑھتے ہوئے عسکری دباؤ کے سامن گورڈن نے اپنی چھاؤنیاں ہٹا لیں اور برطانوی احکامات کے خلاف خرطوم پر اپنا قبضہ جاری رکھا جب تک کہ ١٨٨٥ء میں مہدی کی فوجوں نے اس پر قبضہ کر لیا۔ درویشوں نے جنرل گورڈن کو مار ڈالا۔ملکہ وکٹوریہ اصرار کرتی رہی کہ ہندوستانی دستوں کو عدن سے حرکت دی جائے کہ وہ گورڈن کو بچا سکیں۔مشہور انگریزی شاعر لارڈٹینی سن نے گورڈن کے بارے ایک نظم لکھی اور برطانوی پریس نے اسے ”سپاہی ولی”کا خطاب دے دیا اگرچہ ریڈ ور زبلرز نے یہ کہا ”یہ آدمی اُونٹوں سے بھی کم حیثیت کا مالک تھا۔

    (رچرڈ گیرٹ۔ ”جنرل گورڈن ”۔آتھر بیکر لمیٹڈ لندن۔١٩٧٤ء صفحہ نمبر ٢١٥

    محمد احمد المہدی سوڈانی کو برطانوی فوجیں کبھی بھی نیچا نہ دکھا سکیں۔ دس سال کے عرصے کے بعد کچنر نے ١٨٩٦ء میں سوڈان کو سامراجی دائرہ اختیار میں زبردستی لانے کے لیے فوجی مہمات شروع کیں۔ ایک سال کے بعد مہدی کے خلیفہ کو بڑی خونریزی کے بعد شکست ہوئی اور وہ ایک سال بعد مارے گئے۔کچنر نے مہدی کا مقبرہ تباہ کر دیا۔ ان کی ہڈیاں دریائے نیل میں پھینک دی گئیں اور یہ تجویز ہوا کہ ان کی کھوپڑی رائل کالج آف سرجنز کو بھجوائی جائے جہاں اس کی نپولین کی آنتوں کے ساتھ نمائش کی جا سکے۔بعد ازاں وادی حلفہ میں یہ کھوپڑی رات کے وقت خفیہ طور پر دفن کر دی گئی۔

    مہدی کی سوڈان میں جنگ آزادی نے عرب اور شام میں سنگین خطرے بھڑکا دئیے۔ مسلمانانِ ہند نے بھی برطانوی فوجوں کی ذلت آمیز شکستوں پر اطمینان کا سانس لیا۔ انہوں نے مہدی سوڈانی کو عزت و احترام دیا۔ انہیں خطوط بھیجے اور قوموں کے نجات دہندہ کا درجہ دیا۔ ہندوستان میں اُنہیں یقین پورا پایا جاتا تھا کہ مہدی سوڈانی افریقہ کو فتح کرنے کے بعد انڈیا بھی فتح کریں گے اور غیر ملکی شکنجوں سے مسلمانوں کو آزاد کرائیں گے۔

    ( اے ایگمن ہیک۔دی جزنر۔میجر جرنل سی۔ جی گولڈن۔سی۔ بی الخرطوم۔کیگن پال ٹرونج اینڈ کمپنی لندن ١٨٨٥ء۔صفحہ نمبر ٤٤ٍ)

    جب مہدی سوڈانی کی تحریک پورے زوروں پر تھی، مرزا قادیانی جہاد کی مذمت اور برطانوی سامراج کے روشن ترین خاکے تیار کر کے مذہبی مواد کی بھاری مقدار افریقہ کو بھجوا رہا تھا۔

    اپنی کتاب ”حقیقت المہدی ”میں اس نے جہادی اور خونی مہدی کی سخت مذمت کی اور دعویٰ کیا کہ پچھلے بیس سالوں سے (١٨٧٩۔٩٩ ١٨ء)وہ تصور جہاد کے خلاف پرچار کر رہا ہے۔ ایک خونی مہدی اور مسیح کی آمد کے نظریئے اور جہاد مخالف لٹریچر کی عرب ممالک خصوصاً ترکی،شام، کابل وغیرہ میں تقسیم جاری رکھی۔ اپنی کتاب کے ساتھ عربی اور فارسی میں ایک اٹھارہ صفحات کا ضمیمہ منسلک کر کے اس نے عرب ممالک کے مسلمانوں کو دعوت دی کہ وہ اس کی مہدویت کے دعویٰ کو تسلیم کر لیں اور جہاد کے نام پر جنگیں بند کر دیں اور برطانوی حکومت کے بارے میں اپنے دلوں میں گہرا احترام پیدا کریں۔ایک دوسری کتاب ”ملکہ وکٹوریہ کی خدمت میں تحفہ ”میں آپ ذکر کرتے ہیں۔

    ”والد صاحب مرحوم کے انتقال کے بعد یہ عاجز دنیا کے مشغلوں سے بالکل علیحدہ ہو کر خدا تعالی کی طرف مشغول ہوا اور مجھ سے سرکار انگریزی کے حق میں جو خدمت ہوئی وہ یہ تھی کہ میں نے پچاس ہزار کے قریب کتابیں اور رسائل اور اشتہارات چھپوا کر اس ملک اور نیز دوسرے بلادِاسلامیہ میں اس مضمون کے شائع کیے کہ گورنمنٹ انگریز ہم مسلمانوں کی محسن ہے، لہٰذا ہر ایک مسلمان کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ اس گورنمنٹ کی سچی اطاعت کرے اور دل سے اس دولت کا شکر گزار اور دعا گو رہے اور یہ کتابیں میں نے مختلف زبانوں یعنی فارسی عربی میں تالیف کر کے اسلام کے تمام ملکوں میں پھیلا دیں یہاں تک کہ اسلام کے دو مقدس شہروں مکہ اور مدینہ میں بھی شائع کر دیں۔اور روم کے پایہ تخت قسطنطنیہ اور بلادِ شام اور مصر اور کابل اور افغانستان کے متفرق شہروں میں جہاں تک ممکن تھا اشاعت کر دی جس کا یہ نتیجہ ہوا کہ لاکھوں انسانوں نے جہاد کے غلیظ خیالات چھوڑ دئیے جو نا فہم ملاؤں کی تعلیم سے ان کے دلوں میں تھے۔یہ ایک ایسی خدمت مجھ سے ظہور میں آئی کہ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ برٹش انڈیا کے تمام مسلمانوں میں سے اس کی نظیر کوئی مسلمان دکھلا نہیں سکتا۔

    ( دیکھئے مرزا غلام احمد ”ستارہ قیصریہ ”١٨٩٩ء۔قادیان۔ صفحہ نمبر ٤٠٣ ”حقیقت مہدی ”قادیان۔١٨٩٩ء)

    کیا اپنی جیب سے ہزاروں روپیہ خرچ کر کے برطانوی حمایت میں لٹریچر چھپوانے میں کوئی مقصد کارفرما ہے؟ کیا احمدی اس پر روشنی ڈالیں گے؟ یہ ہزاروں روپے (جن کی آج وقعت کروڑوں روپے بنتی ہے )کہاں سے آئے ؟ ١٨٩٨ء میں مرزا صاحب نے انکم ٹیکس کے ایک مقدمہ میں اپنی سالانہ آمدنی سات سو روپے سے کم ظاہر کی تھی، جس پر ضلع گرداسپور کے کلکٹر ٹی۔ٹی ڈکسن نے انہیں انکم ٹیکس سے مستثنی قرار دیا تھا۔

    (مرزا غلام احمد۔”تحفہ قیصریہ”ص ٢٧۔)

    مرزا صاحب اسے ایک خدائی نشانی قرار دیتے ہیں۔

    (مرزا غلام احمد”ضرورت الامام ”قادیان ١٨٩٩ء )

    برطانوی پروپیگنڈا مہم میں خرچ کے لیے وہ ہزاروں روپوں کا کہاں سے انتظام کرسکا ؟ جواب بالکل صاف ہے۔ سیاست کے اس فریب کارانہ کھیل کی مدد کے لیے برطانوی خفیہ تنظیموں کی تفویض پر خفیہ مذہبی رقوم رکھی گئی تھیں۔ہندوستان اوراس کے باہر برطانیہ کی حمایت میں پروپیگنڈا مہم کی تدوین اور اسے جاری رکھنے کے لیے فری میسن اور یہودی بھی آپ کو رقوم دیتے تھے۔ مرزا صاحب نے یہ وضاحت بھی کی ہے کہ وہ اسلامی ممالک میں اس لٹریچر کے ساتھ چند عرب شرفا ء کو بھی بھیجتے رہے ہیں۔

    (مرزا غلام احمد کی تیار کردہ یادداشت جو منظوری کے لیے ملکہ وکٹوریہ ہندوستان کے منتظم اعلی کے نائب منتظم اور ہندوستان کے دوسرے اہل کاروں کو پیش کی گئی۔”تبلیغ رسالت ”۔جلد ٣۔صفحہ نمبر ١٩٦ )

    قادیان کی خفیہ تنظیم کے تربیت یافتہ یہ جاسوس اسلام مخالف قوتوں کے ساتھ قریبی تعلقات قائم رکھتے تھے۔غلام نبی (قادیان)عبدالرحمن مصری، عبدالمحی عرب،(پروفیسر عبدالمحی عرب حکیم نورالدین سے بہت متاثر تھا۔ وہ نیویارک میں طب کی تعلیم کے لیے جانا چاہتا تھا،مگر امریکی حکومت نے اسے ایرانی جاسوس سمجھتے ہوئے اجازتِ داخلہ دینے سے انکار کر دیا۔ جس پر وہ لندن میں مقیم ہو گیا )

    (مولانا غلام رسول مہر۔”سفر نامہ حجاز ” کراچی۔ ١٩٨٤ئ۔ صفحہ نمبر ٧٦)

    اور شاہ ولی اللہ کو انیسویں صدی کے اخیر میں تخریب کارانہ مقاصد کے لیے مصر بھیجا گیا۔ان کی خدمات قاہرہ میں برطانوی خفیہ والوں کو تفویض کر دی گئیں۔ہمارے ذہنوں میں ایک اور اہم سوال اُبھرتا ہے کہ مرزا صاحب کا یہ دعویٰ تھا کہ برطانوی ہند میں جہاد ممنوع اور غیر قانونی ہے،مگر آپ نے اسے بقیہ اسلامی دنیا کے لیے مکمل طور پر غیر قانونی اور ممنوعہ کیوں قرار دیا۔ جہاں مسلمان یورپی سامراجیت کے خلاف اپنے بقاء کی جنگ لڑ رہے تھے۔کیا یہ سامراجی قوتوں اور ان کے یہودی حلیفوں کے واسطے اسلامی دنیا کی جہادی تحاریک کو تباہ کرنے کی ایک طے شدہ حکمت عملی نہیں تھی ؟

    Qadiayniyat par 3th class..قادیانیت پر تیسری کلاس

    0 comments
    سیاسی منظر


    ١٨٥٧ء کی نا کام جنگِ آزادی کے بعد برطانیہ کا پورے بر صغیر پر قبضہ ہو گیا۔ جنگ کا اہم پہلو اُن علما ء کا کردار تھا جو انہوں نے برطانوی غاصبوں کے خلاف منظم مزاحمت کی صورت میں ادا کیا۔ سیّد احمد شہید کی تحریک بالاکوٹ میں ان کی اور ان کے رفقاء کی شہادت سے ختم نہ ہو سکی۔زندہ بچ جانے والے مجاہدین اور حریت پسندوں نے شمال مغربی سرحدی صوبہ کی پہاڑیوں کو اپنا مرکز بنا کر برطانوی راج کے خلاف جہا د جاری رکھا اور برطانوی فوجوں کو کئی لڑائیوں میں کچل کر رکھ دیا جن میں سے اہم ١٨٦٣ کی جنگ امبیلا ہے۔ برطانوی دستوں کے خلاف مجاہدین نے حیران کن بہادری اور شاندار جرات کا مظاہرہ کیا۔ سرحدوں پر ہزیمت اُٹھانے کے بعد انگریزوں نے ہندوستان میں مجاہدین کی خفیہ تنظیم کو تباہ کرنے کی کوشش کی کیونکہ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ یہ تنظیم ان مجاہدین کو اسلحہ اور رقوم کی فراہمی کی ذمہ دار ہے جس نے سرحدوں کو غیر محفوظ بنا دیا ہے۔ ١٨٦٤ء اور ١٨٦٥ء میں انبالہ اور پٹنہ میں چلنے والے مقدمات کے بعد تقریباً ایک درجن انتہائی فعال مجاہدین کو ”سزائے حبس دوام بہ عبور دریائے شور ”کے طور پر کالا پانی ( انڈمان )بھجوا یا گیا۔ ان پر الزام تھا کہ وہ ملکہ معظمہ کے خلاف جنگ کی سازشوں میں شریک تھے۔ اس کے بعد ١٨٦٨ء، ١٨٧٠ء اور ١٨٧١ء میں گرفتاریوں اور مقدمات کی ایک نئی لہر آئی اور را ج محل، مالدہ اور پٹنہ میں مقدمات کا سلسلہ شروع ہوا جس میں مزید کالے پانی کی سزائیں سنائی گئیں۔

    (The Muslim World Vol 2 Page no.7)

    ظالمانہ مقدمات کے تواتر اور پولیس کی بے رحمانہ تفتیشوں کے بعد حکومت مجاہد ین کو رسد کی فراہمی کا نظام درہم برہم کرنے میں کامیاب ہو گئی۔


    جاری ہے

    Qadianiyat par 4Th class. .قادیانیت پر چوتھی کلاس

    0 comments
    ہنٹر رپورٹ


    ٢٠ ستمبر١٨٧١ء کو عبداللہ نامی ایک پنجابی مسلمان نے کلکتہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نارمن کو قتل کر دیا۔ وائسرائے لارڈ میو کے کاغذات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مسلمان وہابی خیالات سے بالواسطہ طور پر متاثر تھا اور اس نے وہابیوں کے مرکز کے طور پر مشہور ایک مسجد سے دینی تعلیم حاصل کی تھی۔ جسٹس نارمن مجاہدین کے سخت خلاف تھا۔ اس نے غیر قانونی حراست کی تمام اپیلیں ١٨١٨ء کے ضابطہ IIIکے تحت مسترد کر دی تھیں اور پٹنہ کیس کی سزاؤں کے خلاف بھی اپیلیں سننے سے انکار کر دیا تھا۔ (لارڈ میو کو سرجارج کیمبل کاخط ١٢ اکتوبر ١٨٧١ء اور ٣٠ نومبر ١٨٧١ء کو اے آرگل کی یادداشت کی اینڈکس نمبر ٢۔ میو کاغذات کا بنڈل وہابی نمبر ٢٨۔ کیمبرج یونیورسٹی لائبریری لندن۔ حوالہ شدہ پی ہار ڈی۔ برطانوی ہند کے مسلمان۔کیمبرج ١٩٧٢ء)

    برطانوی حکومت نے مسلمانوں کے خلاف سختیاں کیں۔ ان کو اپنا اصل دشمن گردانتے ہوئے بڑی شدت سے دبانے کی کوشش کی۔ انہوں نے باغی مسلمانوں کی چلائی ہوئی جہادی تحریکوں کو ختم کرنے کے لیے تمام وحشیانہ حربے استعمال کیے۔(١٨٧١ء کو نومبر تا دسمبر میں ارسال کردہ خطوط نمبر ٣١٧، میو پیپر ز نمبر ٤١ بنڈل وہابی١١)

    ٣٠مئی ١٨٧١ء کو وائسرائے لارڈ میو کو جو کہ ڈزرائیلی حکومت کا آئرش سیکرٹری تھا۔ایک مقامی سول ملازم ڈبلیو۔ڈبلیو ہنٹر کو اس سلگتے مسئلے پر کہ ”مسلمان اپنے ایمان کی وجہ سے برطانوی حکومت کے خلاف بغاوت کے لیے مجبور ہیں ” ایک رپورٹ تیار کرنے کو کہا۔

    (London, Page no.199 Life of Sir William Wilson Hunter(

    ہنٹر نے حقیقت حال تک رسائی کے لیے تمام خفیہ سرکاری دستاویزات کی جانچ پڑتال کی۔ ہنٹر نے اپنی رپورٹ ١٨٧١ء میں ”ہندوستانی مسلمان۔ کیا وہ شعوری طور پر ملکہ کے خلاف بغاوت کے لیے مجبور ہیں ” کے عنوان سے شائع کی۔ اس نے اسلامی تعلیمات خصوصاً جہاد کا تصور،نزول مسیح و مہدی کے نظریات، جہادی تنظیم کو در پیش مسائل اور وہابی تصورات پر بحث کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ ”مسلمانوں کی موجودہ نسل اپنے مقاصد کی رُو سے موجودہ صورت حال (جیسی کہ ہے )کو قبول کرنے کی پابند ہے مگر قانون (قرآن ) اور پیغمبروں (کے تصورات )کو دونوں ہاتھوں سے یعنی وفاداری اور بغاوت کے لیے استعما ل کیا جا سکتا ہے اور ہندوستان کے مسلمان ہندوستان میں برطانوی راج کے لیے پہلے بھی خطرہ رہے ہیں اور آج بھی ہیں۔ اس دعوی کی کوئی پیش گوئی نہیں کرسکتا کہ یہ باغی اڈہ (شمالی مغربی سرحد ) جس کی پشت پناہی مغربی اطراف کے مسلمانوں کے جتھے کر رہے ہیں ،کسی کی رہنمائی میں قوت حاصل کرے گا۔ جو ایشیائی قوموں کو اکھٹا اور قابو کر کے ایک وسیع محاربہ کی شکل دے دے۔”

    اس کے علاوہ مزید لکھتا ہے :

    ”ہماری مسلمان رعایا سے کسی پُر جو ش وفاداری کی توقع رکھنا عبث ہے۔ تما م قرآن مسلمانوں کے بطور فاتح نہ کہ مفتوح کے طور پر تصورات سے لبریز ہے۔ مسلمانانِ ہند ہندوستان میں برطانوی راج کے لیے ہمیشہ کا خطرہ ہو سکتے ہیں ”

    The Indian Musalmans Calcutta 194

    مذہبی انتہا پسندی


    ١٨٥٨ء میں ملکہ وکٹوریہ کے اعلان میں یہ کہا گیا تھا کہ مذہبی عقائد کی تبلیغ کے معاملے میں برطانوی حکومت غیر جانبدار رہے گی۔ اس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے کئی مذہبی مہم جو ہندوستان کی مذہبی منڈی میں اپنے مال کے نمونے لے کر آ گئے۔”ہندوستانی مشرکین ” کو انجیل مقدس کا درس دینے والے عیسائی مبلغین برطانوی نوآبادیات کی اپنی پیدا وار تھے۔ہندوؤں کی مذہبی انتہا پسند تنظیموں آر یا سماج، برہمو سما ج اور دیو سماج نے اپنے نظریات کے احیا ء کے لیے پُر جوش طریقِ کار ایجاد کیے۔ سکھ، پارسی،جین مت اور بدھ مت والے نسبتاً کم جوش و خروش سے اپنے عقائد پھیلاتے رہے۔ صرف آزاد خیال اور دہریئے ایک آزاد معاشرے کے قیام کی وکالت اور مذہبی آزادی کی مذمت کرتے تھے۔مسلمانوں میں کئی فرقے اور ذیلی فرقے پھوٹ پڑے۔جن میں مادہ پرست،اہلِ حدیث،اہلِ قرآن (چکڑالوی)اور عدم تشدد پرست صوفی مشہور ہیں دو بڑے فرقے سنی اور شیعہ موجود تھے۔پوراہندوستانی معاشرہ کثیر تعداد ی چھوٹے چھوٹے مخالفانہ گروہوں میں بٹ گیا تھا جو ایک دوسرے کے سخت خلاف تھے۔اس فرقہ وارانہ لڑائی سے برطانوی سامراج کو ہندوستان میں اپنی حکومت کو مضبوط کرنے میں مدد ملی۔١٨٧٥ء میں مل شنکر نے جو کہ اپنے برہمنی نام ”سوامی دیانند ”سے مشہور تھا ہندوستانی انتہا پسند تنظیم ”آریا سماج ”کی بنیاد رکھی۔ وہ ایک متعصب ہندو تھا اور انتہا پسند ہندو مت کا شمالی ہندوستان میں ایک چلتا پھرتا معلم تھا۔اس نے بت پرستی،کم سن بچوں کی شادیوں اور چھوت چھات کی جدید روشن خیالی کے نا م پر مذمت کی اور ویدوں کی خالص تعلیمات پیش کیں۔

    آریہ سماجیوں کے خیال میں ایک ویدی معاشرے کی تشکیل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہندوستان میں اسلام کا وجود تھا۔ سوامی ١٨٨٣ء میں وفات پا گیا۔وہ بدنام زمانہ کتاب ”ستیا رتھ پرکاش ”کا مصنف تھا۔ جو تمام غیر ہندو مذاہب کے خلاف تھی۔ راجہ رام موہن رائے (١٨٣٣ء۔ ١٧٧٢ء )نے ویدی معاشرے کی قدیمی خوبصورتی کو واپس لانے کے لیے برہمو سماج کی بنیاد رکھی، وہ عیسائیت سے بہت زیادہ متاثر تھا۔ وہ ١٨٣٣ء میں انگلستان ایک سیاسی مقصد کے لیے گیا اور وہیں وفات پائی۔ اس تحریک نے اس وقت زور پکڑا جب ایک ہنگامی ہندو کیشب چندر سین (٨٤۔ ١٨٣٨ء ) نے بڑے فصیحانہ انداز میں یسوع مسیح کی توصیف کرتے ہوئے عیسائی مبلغین کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی۔ وہ ١٨٧٠ء میں انگلستان گیا جہاں اس کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ وہاں اس کے کئی لیکچر کرائے گئے جن میں اس نے اپنے آپ کو ”مسیح علیہ السلام کا اوتار” قرار دیا اور اپنے سماج کو ہندو مت کا مصفیٰ کلیسا کہا۔جگدیش چندربوش اور رابندر ناتھ ٹیگور وغیرہ برہمو سماجی تھے۔ پنڈت ایس این اگنی ہوتری نے ہندو مت کے احیا ء کے لیے دیو سماج تحریک کی بنیاد رکھی۔ رام کرشنا مشن، پرارتھنا سماج اور بال گنگا دھر تلک مشن کا مقصد ہی زندگی کے تمام شعبوں میں ہندوؤں کی بالا دستی کا قیام تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ تمام غیر ہندوؤں خصوصاً مسلمانوں کو ہندوستان سے نکال کر ایک ہندو معاشرے کا قیام عمل میں لایا جائے۔ تلک نے مرہٹہ رہنما شیوا جی، جو حضرت اورنگ زیب عالمگیر کا سخت مخالف تھا،کی تمام رسومات کو زندہ کیا اور جنوبی ہندوستان میں اس کے اعزاز میں کئی تقریبات منعقد کرائیں۔ عیسائی مبلغین نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور میں حد درجہ قوت و اثر حاصل کر لیا تھا۔ کمپنی کے میثاق ١٨١٣ء کی رو سے عیسائی مبلغین کی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ ایک لاٹ پادری تین ذیلی پادریوں کے ساتھ کلکتہ میں تعینات کیا گیا۔ اس کلیسائی ادارہ کے تمام اخراجات کی ذمہ دار”ایسٹ انڈیا کمپنی”تھی ہندوستان میں عیسائیت کے فروغ کی سرگرمیوں کو انگلستان کی ہر قسم کی حوصلہ افزائی حاصل تھی۔” ایسٹ انڈیا کمپنی ”کے بورڈ آف گورنر ز کے ایک رکن نے برطانوی دارالعلوم میں تقریر کرتے ہوئے کہا :

    ”پروردگار نے انگلستان کو ہندوستان کی وسیع و عریض سلطنت اس لیے عطا کی ہے کہ اس کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک مسیح کا پھریرا لہر ائے۔ہر ایک کو اپنی تمام قوت اس امر پر لگا دینی چاہیے کہ تمام ہندوستانیوں کو عیسائی بنانے کے عظیم کا م میں کسی بھی لحاظ سے کسی قسم کا تساہل یا تعطل پیدا نہ ہونے دے”۔

    Modern Religious Movements In India Page no.107

    ١٨١٣ء کے اسی میثاق کی رو سے اسی کلیسائی محکمے کے تمام اخراجات کمپنی کو ہونے ولے محاصل میں سے ادا کیے جانے تھے اور ١٩٤٧ء تک ایسا ہی ہوتا رہا۔ان مبلغین کو عیسائی تبلیغی سر گرمیوں کے حامیوں سے ملنے والے رضاکارانہ چندوں سے رقم ملتی رہی ١ ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور حکومت میں عیسائیت مکمل طور پر شہنشاہیت اور تجارت کے ساتھ نتھی کر دی گئی تھی۔سلطنت کے مفادات کے تحفظ کے لیے ”عیسائی تبلیغی مراکز ”مسلح دربان کا کام دیتے رہتے عیسائیت، تجارت اور نو آبادیات کی تثلیث نے سلطنت کے مقاصد کی ہمیشہ نگہبانی کی۔

    Brain Gardner, The East India Company London,1971,Page No.1

    ١٨٥٧ء کی جنگ آزادی کی ایک اہم وجہ چند جنونی عیسائی مبلغین کی شروع کردہ جارحانہ مہم بھی تھی۔ جنگ کے بعد اس مہم نے مختلف شکل اختیار کر لی۔ اس بات پر زیادہ زور دیا گیا کہ جن علاقوں میں تبلیغی مراکز بند ہو چکے تھے وہاں بھیجنے کے لیے مقامی آلہ کاروں کو خریدا جائے۔”کلیسائی تبلیغی مجلس لندن”نے ہندوستان میں مبلغین بھجوائے اور ان کی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے حکومت کی مدد حاصل کر لی (جان بیلی۔خدا کا بدلہ یا انگلستان کی ہندوستان میں مستقبل پر نظر رکھتے ہوئے ذمہ داری۔ لندن ١٨٥٧ء۔مذاہب ہندوستان۔ کلیسائے انگلستان کا سہ ماہی ریویو ٤٤ ١٨٥٨۔جان جپسپ۔ ہندوستان بغاوت نمبر ٦٢۔١٨٥٨ء )ہندوستان کے طول و عرض میں ٢١ مختلف عیسائی کلیساء کام کر رہے تھے۔ عیسائی آبادی کا بڑا حصہ رومن کیتھولک تھا۔ جن کی تعداد پانچ لاکھ کے قریب تھی۔اس کے بعد فرقہ معترضہ (ایک لاکھ بیس ہزار )، فرقہ اصبطاغی(٨١٠٠٠ )، کلیسائے انگلستانی کے پیرو کار (٤٩٠٠٠)تھے۔کئی چھوٹے گروہ جیسے امریکی، آرمینیائی، متبعین مجلس، کالو یانی، غیر مقلدین، اسقفیائی،آزاد،لو تھری،اصول پسند،شام کے یونانی، ویزلیائی مبلغین نے بھی ہندوستانیوں کو عیسائیت کا پرچار کیا۔انیسویں صدی کے اختتام تک برطانوی اور دیگر یور پیوں سمیت ہندوستان میں عیسائی آبادی تقریباً ٢٠ لاکھ کے قریب تھی۔ 


    جاری ہے