Thursday 3 September 2015

Qadianiyat par 4Th class. .قادیانیت پر چوتھی کلاس

0 comments
ہنٹر رپورٹ


٢٠ ستمبر١٨٧١ء کو عبداللہ نامی ایک پنجابی مسلمان نے کلکتہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نارمن کو قتل کر دیا۔ وائسرائے لارڈ میو کے کاغذات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مسلمان وہابی خیالات سے بالواسطہ طور پر متاثر تھا اور اس نے وہابیوں کے مرکز کے طور پر مشہور ایک مسجد سے دینی تعلیم حاصل کی تھی۔ جسٹس نارمن مجاہدین کے سخت خلاف تھا۔ اس نے غیر قانونی حراست کی تمام اپیلیں ١٨١٨ء کے ضابطہ IIIکے تحت مسترد کر دی تھیں اور پٹنہ کیس کی سزاؤں کے خلاف بھی اپیلیں سننے سے انکار کر دیا تھا۔ (لارڈ میو کو سرجارج کیمبل کاخط ١٢ اکتوبر ١٨٧١ء اور ٣٠ نومبر ١٨٧١ء کو اے آرگل کی یادداشت کی اینڈکس نمبر ٢۔ میو کاغذات کا بنڈل وہابی نمبر ٢٨۔ کیمبرج یونیورسٹی لائبریری لندن۔ حوالہ شدہ پی ہار ڈی۔ برطانوی ہند کے مسلمان۔کیمبرج ١٩٧٢ء)

برطانوی حکومت نے مسلمانوں کے خلاف سختیاں کیں۔ ان کو اپنا اصل دشمن گردانتے ہوئے بڑی شدت سے دبانے کی کوشش کی۔ انہوں نے باغی مسلمانوں کی چلائی ہوئی جہادی تحریکوں کو ختم کرنے کے لیے تمام وحشیانہ حربے استعمال کیے۔(١٨٧١ء کو نومبر تا دسمبر میں ارسال کردہ خطوط نمبر ٣١٧، میو پیپر ز نمبر ٤١ بنڈل وہابی١١)

٣٠مئی ١٨٧١ء کو وائسرائے لارڈ میو کو جو کہ ڈزرائیلی حکومت کا آئرش سیکرٹری تھا۔ایک مقامی سول ملازم ڈبلیو۔ڈبلیو ہنٹر کو اس سلگتے مسئلے پر کہ ”مسلمان اپنے ایمان کی وجہ سے برطانوی حکومت کے خلاف بغاوت کے لیے مجبور ہیں ” ایک رپورٹ تیار کرنے کو کہا۔

(London, Page no.199 Life of Sir William Wilson Hunter(

ہنٹر نے حقیقت حال تک رسائی کے لیے تمام خفیہ سرکاری دستاویزات کی جانچ پڑتال کی۔ ہنٹر نے اپنی رپورٹ ١٨٧١ء میں ”ہندوستانی مسلمان۔ کیا وہ شعوری طور پر ملکہ کے خلاف بغاوت کے لیے مجبور ہیں ” کے عنوان سے شائع کی۔ اس نے اسلامی تعلیمات خصوصاً جہاد کا تصور،نزول مسیح و مہدی کے نظریات، جہادی تنظیم کو در پیش مسائل اور وہابی تصورات پر بحث کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ ”مسلمانوں کی موجودہ نسل اپنے مقاصد کی رُو سے موجودہ صورت حال (جیسی کہ ہے )کو قبول کرنے کی پابند ہے مگر قانون (قرآن ) اور پیغمبروں (کے تصورات )کو دونوں ہاتھوں سے یعنی وفاداری اور بغاوت کے لیے استعما ل کیا جا سکتا ہے اور ہندوستان کے مسلمان ہندوستان میں برطانوی راج کے لیے پہلے بھی خطرہ رہے ہیں اور آج بھی ہیں۔ اس دعوی کی کوئی پیش گوئی نہیں کرسکتا کہ یہ باغی اڈہ (شمالی مغربی سرحد ) جس کی پشت پناہی مغربی اطراف کے مسلمانوں کے جتھے کر رہے ہیں ،کسی کی رہنمائی میں قوت حاصل کرے گا۔ جو ایشیائی قوموں کو اکھٹا اور قابو کر کے ایک وسیع محاربہ کی شکل دے دے۔”

اس کے علاوہ مزید لکھتا ہے :

”ہماری مسلمان رعایا سے کسی پُر جو ش وفاداری کی توقع رکھنا عبث ہے۔ تما م قرآن مسلمانوں کے بطور فاتح نہ کہ مفتوح کے طور پر تصورات سے لبریز ہے۔ مسلمانانِ ہند ہندوستان میں برطانوی راج کے لیے ہمیشہ کا خطرہ ہو سکتے ہیں ”

The Indian Musalmans Calcutta 194

مذہبی انتہا پسندی


١٨٥٨ء میں ملکہ وکٹوریہ کے اعلان میں یہ کہا گیا تھا کہ مذہبی عقائد کی تبلیغ کے معاملے میں برطانوی حکومت غیر جانبدار رہے گی۔ اس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے کئی مذہبی مہم جو ہندوستان کی مذہبی منڈی میں اپنے مال کے نمونے لے کر آ گئے۔”ہندوستانی مشرکین ” کو انجیل مقدس کا درس دینے والے عیسائی مبلغین برطانوی نوآبادیات کی اپنی پیدا وار تھے۔ہندوؤں کی مذہبی انتہا پسند تنظیموں آر یا سماج، برہمو سما ج اور دیو سماج نے اپنے نظریات کے احیا ء کے لیے پُر جوش طریقِ کار ایجاد کیے۔ سکھ، پارسی،جین مت اور بدھ مت والے نسبتاً کم جوش و خروش سے اپنے عقائد پھیلاتے رہے۔ صرف آزاد خیال اور دہریئے ایک آزاد معاشرے کے قیام کی وکالت اور مذہبی آزادی کی مذمت کرتے تھے۔مسلمانوں میں کئی فرقے اور ذیلی فرقے پھوٹ پڑے۔جن میں مادہ پرست،اہلِ حدیث،اہلِ قرآن (چکڑالوی)اور عدم تشدد پرست صوفی مشہور ہیں دو بڑے فرقے سنی اور شیعہ موجود تھے۔پوراہندوستانی معاشرہ کثیر تعداد ی چھوٹے چھوٹے مخالفانہ گروہوں میں بٹ گیا تھا جو ایک دوسرے کے سخت خلاف تھے۔اس فرقہ وارانہ لڑائی سے برطانوی سامراج کو ہندوستان میں اپنی حکومت کو مضبوط کرنے میں مدد ملی۔١٨٧٥ء میں مل شنکر نے جو کہ اپنے برہمنی نام ”سوامی دیانند ”سے مشہور تھا ہندوستانی انتہا پسند تنظیم ”آریا سماج ”کی بنیاد رکھی۔ وہ ایک متعصب ہندو تھا اور انتہا پسند ہندو مت کا شمالی ہندوستان میں ایک چلتا پھرتا معلم تھا۔اس نے بت پرستی،کم سن بچوں کی شادیوں اور چھوت چھات کی جدید روشن خیالی کے نا م پر مذمت کی اور ویدوں کی خالص تعلیمات پیش کیں۔

آریہ سماجیوں کے خیال میں ایک ویدی معاشرے کی تشکیل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہندوستان میں اسلام کا وجود تھا۔ سوامی ١٨٨٣ء میں وفات پا گیا۔وہ بدنام زمانہ کتاب ”ستیا رتھ پرکاش ”کا مصنف تھا۔ جو تمام غیر ہندو مذاہب کے خلاف تھی۔ راجہ رام موہن رائے (١٨٣٣ء۔ ١٧٧٢ء )نے ویدی معاشرے کی قدیمی خوبصورتی کو واپس لانے کے لیے برہمو سماج کی بنیاد رکھی، وہ عیسائیت سے بہت زیادہ متاثر تھا۔ وہ ١٨٣٣ء میں انگلستان ایک سیاسی مقصد کے لیے گیا اور وہیں وفات پائی۔ اس تحریک نے اس وقت زور پکڑا جب ایک ہنگامی ہندو کیشب چندر سین (٨٤۔ ١٨٣٨ء ) نے بڑے فصیحانہ انداز میں یسوع مسیح کی توصیف کرتے ہوئے عیسائی مبلغین کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی۔ وہ ١٨٧٠ء میں انگلستان گیا جہاں اس کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ وہاں اس کے کئی لیکچر کرائے گئے جن میں اس نے اپنے آپ کو ”مسیح علیہ السلام کا اوتار” قرار دیا اور اپنے سماج کو ہندو مت کا مصفیٰ کلیسا کہا۔جگدیش چندربوش اور رابندر ناتھ ٹیگور وغیرہ برہمو سماجی تھے۔ پنڈت ایس این اگنی ہوتری نے ہندو مت کے احیا ء کے لیے دیو سماج تحریک کی بنیاد رکھی۔ رام کرشنا مشن، پرارتھنا سماج اور بال گنگا دھر تلک مشن کا مقصد ہی زندگی کے تمام شعبوں میں ہندوؤں کی بالا دستی کا قیام تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ تمام غیر ہندوؤں خصوصاً مسلمانوں کو ہندوستان سے نکال کر ایک ہندو معاشرے کا قیام عمل میں لایا جائے۔ تلک نے مرہٹہ رہنما شیوا جی، جو حضرت اورنگ زیب عالمگیر کا سخت مخالف تھا،کی تمام رسومات کو زندہ کیا اور جنوبی ہندوستان میں اس کے اعزاز میں کئی تقریبات منعقد کرائیں۔ عیسائی مبلغین نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور میں حد درجہ قوت و اثر حاصل کر لیا تھا۔ کمپنی کے میثاق ١٨١٣ء کی رو سے عیسائی مبلغین کی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ ایک لاٹ پادری تین ذیلی پادریوں کے ساتھ کلکتہ میں تعینات کیا گیا۔ اس کلیسائی ادارہ کے تمام اخراجات کی ذمہ دار”ایسٹ انڈیا کمپنی”تھی ہندوستان میں عیسائیت کے فروغ کی سرگرمیوں کو انگلستان کی ہر قسم کی حوصلہ افزائی حاصل تھی۔” ایسٹ انڈیا کمپنی ”کے بورڈ آف گورنر ز کے ایک رکن نے برطانوی دارالعلوم میں تقریر کرتے ہوئے کہا :

”پروردگار نے انگلستان کو ہندوستان کی وسیع و عریض سلطنت اس لیے عطا کی ہے کہ اس کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک مسیح کا پھریرا لہر ائے۔ہر ایک کو اپنی تمام قوت اس امر پر لگا دینی چاہیے کہ تمام ہندوستانیوں کو عیسائی بنانے کے عظیم کا م میں کسی بھی لحاظ سے کسی قسم کا تساہل یا تعطل پیدا نہ ہونے دے”۔

Modern Religious Movements In India Page no.107

١٨١٣ء کے اسی میثاق کی رو سے اسی کلیسائی محکمے کے تمام اخراجات کمپنی کو ہونے ولے محاصل میں سے ادا کیے جانے تھے اور ١٩٤٧ء تک ایسا ہی ہوتا رہا۔ان مبلغین کو عیسائی تبلیغی سر گرمیوں کے حامیوں سے ملنے والے رضاکارانہ چندوں سے رقم ملتی رہی ١ ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور حکومت میں عیسائیت مکمل طور پر شہنشاہیت اور تجارت کے ساتھ نتھی کر دی گئی تھی۔سلطنت کے مفادات کے تحفظ کے لیے ”عیسائی تبلیغی مراکز ”مسلح دربان کا کام دیتے رہتے عیسائیت، تجارت اور نو آبادیات کی تثلیث نے سلطنت کے مقاصد کی ہمیشہ نگہبانی کی۔

Brain Gardner, The East India Company London,1971,Page No.1

١٨٥٧ء کی جنگ آزادی کی ایک اہم وجہ چند جنونی عیسائی مبلغین کی شروع کردہ جارحانہ مہم بھی تھی۔ جنگ کے بعد اس مہم نے مختلف شکل اختیار کر لی۔ اس بات پر زیادہ زور دیا گیا کہ جن علاقوں میں تبلیغی مراکز بند ہو چکے تھے وہاں بھیجنے کے لیے مقامی آلہ کاروں کو خریدا جائے۔”کلیسائی تبلیغی مجلس لندن”نے ہندوستان میں مبلغین بھجوائے اور ان کی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے حکومت کی مدد حاصل کر لی (جان بیلی۔خدا کا بدلہ یا انگلستان کی ہندوستان میں مستقبل پر نظر رکھتے ہوئے ذمہ داری۔ لندن ١٨٥٧ء۔مذاہب ہندوستان۔ کلیسائے انگلستان کا سہ ماہی ریویو ٤٤ ١٨٥٨۔جان جپسپ۔ ہندوستان بغاوت نمبر ٦٢۔١٨٥٨ء )ہندوستان کے طول و عرض میں ٢١ مختلف عیسائی کلیساء کام کر رہے تھے۔ عیسائی آبادی کا بڑا حصہ رومن کیتھولک تھا۔ جن کی تعداد پانچ لاکھ کے قریب تھی۔اس کے بعد فرقہ معترضہ (ایک لاکھ بیس ہزار )، فرقہ اصبطاغی(٨١٠٠٠ )، کلیسائے انگلستانی کے پیرو کار (٤٩٠٠٠)تھے۔کئی چھوٹے گروہ جیسے امریکی، آرمینیائی، متبعین مجلس، کالو یانی، غیر مقلدین، اسقفیائی،آزاد،لو تھری،اصول پسند،شام کے یونانی، ویزلیائی مبلغین نے بھی ہندوستانیوں کو عیسائیت کا پرچار کیا۔انیسویں صدی کے اختتام تک برطانوی اور دیگر یور پیوں سمیت ہندوستان میں عیسائی آبادی تقریباً ٢٠ لاکھ کے قریب تھی۔ 


جاری ہے

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔