علمِ حدیث، تاریخِ حدیث، موضوعِ حدیث، ضرورتِ حدیث
حدیث کی لغوی تعریف
حدیث کےمعنی بات اور گفتگو کے ہیں،علامہ جوہری صحاح میں لکھتے ہیں:
‘‘اَلْحَدِیْثُ الْکَلَامُ قَلِیْلُہُ وَکَثِیْرُہُ ’’۔
حدیث بات کو کہتے ہیں خواہ وہ مختصر ہو یا مفصل۔
حدیث کی اصطلاحی تعریف
حضورﷺ کےاقوال ،افعال اور تقریرات کے مجموعہ کو حدیث کہتے ہیں،اقوال سے مراد آپﷺ کی زبان مبارک سے نکلےہوئے کلمات ہیں،افعال سے مراد آپﷺ کے اعضاءسے ظاہر شدہ اعمال ہیں اور تقریر سے مراد: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنےکسی صحابی نے کچھ کیا یا کہااور آپ نے اس پر سکوت فرمایا نکیر نہ کی اور اس سے یہی سمجھا گیاکہ اس عمل یا قول کی حضورﷺ نے تصدیق فرمادی ہے تو اسی تصدیق کو ‘‘تقریر’’ confirmationکہتے ہیں اور آپ کی یہ تصدیق تقریری صورت کہلاتی ہے۔
حدیث کی حیثیت قرآن کریم میں
شریعتِ اسلامیہ کی اساس اور بنیاد قرآن اور سنتِ رسول اللہ ہے ؛چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ کو بحیثیتِ مطاع (یعنی جس کی اطاعت کی جائے) پیش کیا ہے، فرمانِ باری ہے:
(۱)‘‘یَاأَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا أَطِیْعُو اللہَ وَأَطِیْعُوالرَّسُوْلَ وَلَاتُبْطِلُوْا أَعْمَالَکُمْ’’۔
(محمد:۳۳)
اے ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرو۔
اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم کی طرح حضورﷺ کے اقوال، افعال اور تقریرات کی بھی اتباع کرنا ضروری ہے ،اللہ تعالیٰ نے مستقل طور سے اس کا حکم دیا ہے۔
(۲)نیز ارشاد خدا وندی ہے:‘‘وَأَنْزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِنَّاسِ مَانُزِّلَ إِلَیْھِمْ وَلَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ’’۔
(النحل:۴۴)
اور(اے پیغمبر!)ہم نے تم پر بھی یہ قرآن اس لیے نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اُن باتوں کی واضح تشریح کردو جو اُن کے لیے اتاری گئی ہیں اور تاکہ وہ غور وفکر سے کام لیں۔
اس آیت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیان کی جو ذمہ داری لی ہے اس کی تکمیل رسول اللہﷺ کریں گے، آپ کا بیان اللہ ہی کا بیان ہوگا اور یہ بات اسی وقت ممکن ہے کہ آپﷺ نے قرآن کی تبیین وتشریح وحی کے ذریعہ فرمائی ہو ورنہ اس کو اللہ کا بیان کیسے کہہ سکتے ہیں۔
(۳)ایک اور جگہ ارشاد ہے‘‘وَمَایَنْطِقُ عَنِ الْھَوَیo إِنْ ھُوَإِلَّاوَحْیٌ یُوْحَی‘‘۔
(النجم:۳،۴)
اور یہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے،یہ تو خالص وحی ہے جو ان کے پاس بھیجی جاتی ہے ۔
(۴)نیز اللہ تعالی کا ارشاد ہے:‘‘وَمَاآتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَانَھَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا’’۔
(الحشر:۷)
رسول تم کو جو کچھ دیں وہ لے لو اور جس چیز سے تم کو روک دیں رک جاؤ۔
ان دونوں آیتوں میں واضح طور پر حدیث کا مقام معلوم ہورہا ہے کہ اللہ تعالی نے حضور اکرم ﷺ کے ارشادات کو وحی الہٰی سے تعبیر فرمایا اور امت کو حکم دیا کہ حضور اکرم ﷺ جس بات کا حکم دیں اس کو اختیار کرو اور جس بات سے منع کریں اس سے رک جاؤ۔
احادیث میں حدیثِ رسولﷺ کی حیثیت
(۱)آپﷺ کی ارشاد ہے:"أَلَاإِنِّي أُوتِيتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ"۔
(ابوداؤد، باب فی لزوم السنۃ، حدیث نمبر:۳۹۸۸)
خبردار رہو کہ مجھے قرآن کے ساتھ اس کا مثل بھی دیا گیا ہے۔
حضرت زید بن ثابت ؓ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا :
(۲)حدیث کے حفظ اور یادداشت کی ترغیب دیتے ہوئے آپﷺ نے فرمایا:نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا فَحَفِظَهُ حَتَّى يُبَلِّغَهُ غَيْرَه۔
(ترمذی،بَاب مَا جَاءَ فِي الْحَثِّ عَلَى تَبْلِيغِ السَّمَاعِ،حدیث نمبر:۲۵۸۰ شاملہ،موقع الاسلام)
اللہ تعالی اس شخص کو تازگی بخشیں جس نے ہم سے کو ئی حدیث سنی اسے یاد رکھا؛ یہاں تک کہ اسے کسی دوسرے تک پہنچایا۔
(۳)ایک اور حدیث میں ہے:فَلْيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ
(مسلم، بَاب تَغْلِيظِ تَحْرِيمِ الدِّمَاءِ وَالْأَعْرَاضِ وَالْأَمْوَالِ،حدیث نمبر:۳۱۸۰،شاملہ، موقع الاسلام)
جو حاضر ہے وہ اسے غائب تک پہنچادے۔
خطبۂ حجۃ الوداع کے موقع پر آنحضرت ﷺ نے متنبہ فرمایا کہ آپ کی یہ حدیث آج صرف اسی اجتماع کے لیے نہیں یہ کل انسانوں کے لیے راہ ہدایت ہے جو آج موجود ہیں اور سن رہے ہیں وہ ان باتوں کو دوسروں تک پہنچادیں۔
علاوہ ازیں ایک حدیث میں ہے:
(۴)‘‘كان جبريل عليه السلام ينزل على رسول الله صلى الله عليه وسلم بالسنة كماينزل عليه بالقرآن، ويعلمه إياها كمايعلمه القرآن’’۔
(مراسیل ابوداؤد، باب فی البدع، حدیث نمبر:۵۰۷)
حضرت جبرئیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سنتوں کا علم لے کر ایسے ہی نازل ہوتے تھے جیسے قرآن آپﷺ پر لےکرنازل ہوتے تھےاور اس کو ایسے ہی سکھاتے تھے جیسے قرآن کو سکھاتے تھے۔
ان میں واضح طور پر یہ مضمون بیان کیا گیا ہے کہ حدیثیں بھی قرآن کی طرح وحی ہیں،
احکامِ اسلامیہ پر عمل کے لیےحدیث کی ضرورت
اسلامی احکامات پر عمل پیرا ہونے کے لیے اور قرآن کریم کو اچھی طرح سمجھنے کےلیےاحادیث کا علم ضروری ہے ، اس کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم میں اسی ۸۰/سے زیادہ جگہوں میں نماز کا حکم دیا گیا، کہیں ‘‘اَقِیْمُوْا الصَّلٰوۃ’’(نماز قائم کرو) کہا گیا ہے تو کہیں‘‘یُقِیْمُوْنَ الصَّلَوۃ’’ (نماز کو قائم کرتے ہیں)کہا گیا ہے؛ مگر سوال یہ ہے کہ نماز کس چیز کا نام ہے؟قیام،رکوع،سجدہ وغیرہ کس طرح کیا جاتا ہے،اس کی ترکیب کیا ہے ؟ قرآن کریم میں کہیں یہ بات بیان نہیں کی گئی ہے؛ البتہ قرآن میں نماز کے ارکان کا مختلف الفاظ سے مختلف جگہ تذکرہ آیا ہے، نبیٔ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازکے تمام ارکان کو جمع کرکے اس کوادا کرنے کا طریقہ بتایا ؛ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے فرائض، واجبات، سنن، مستحبات، آداب، مکروہات اور ممنوعات ہرایک کو تفصیل سے بیان کیا؛ اسی طرح نماز مسجد میں قائم کرنے کا حکم دیا ؛تاکہ نماز کا اہتمام ہو اور اذان وجماعت کا نظام بنایا، امام ومؤذن کے احکام بیان کئے اور پانچوں نمازوں کے اوقات متعین کئے اور ان اوقات کے اوّل وآخر کو بیان کیا؛ غرض تقریباً دوہزار حدیثیں ‘‘یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃ’’ کی تفسیر کرتی ہیں ان دوہزار احادیث کو اگر ‘‘یُقِیْمُوْنَ الصّلٰوۃ’’ کے ساتھ نہ لکھا جائے تو اقامتِ صلوٰۃ کی حقیقت سمجھ میں نہیں آسکتی، اور صرف نماز ہی نہیں؛ بلکہ اسلام کے تمام تفصیلی احکامات کا علم احادیث ہی سے مکمل ہوتا ہے۔
حدیث کےمعنی بات اور گفتگو کے ہیں،علامہ جوہری صحاح میں لکھتے ہیں:
‘‘اَلْحَدِیْثُ الْکَلَامُ قَلِیْلُہُ وَکَثِیْرُہُ ’’۔
حدیث بات کو کہتے ہیں خواہ وہ مختصر ہو یا مفصل۔
حدیث کی اصطلاحی تعریف
حضورﷺ کےاقوال ،افعال اور تقریرات کے مجموعہ کو حدیث کہتے ہیں،اقوال سے مراد آپﷺ کی زبان مبارک سے نکلےہوئے کلمات ہیں،افعال سے مراد آپﷺ کے اعضاءسے ظاہر شدہ اعمال ہیں اور تقریر سے مراد: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنےکسی صحابی نے کچھ کیا یا کہااور آپ نے اس پر سکوت فرمایا نکیر نہ کی اور اس سے یہی سمجھا گیاکہ اس عمل یا قول کی حضورﷺ نے تصدیق فرمادی ہے تو اسی تصدیق کو ‘‘تقریر’’ confirmationکہتے ہیں اور آپ کی یہ تصدیق تقریری صورت کہلاتی ہے۔
حدیث کی حیثیت قرآن کریم میں
شریعتِ اسلامیہ کی اساس اور بنیاد قرآن اور سنتِ رسول اللہ ہے ؛چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ کو بحیثیتِ مطاع (یعنی جس کی اطاعت کی جائے) پیش کیا ہے، فرمانِ باری ہے:
(۱)‘‘یَاأَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا أَطِیْعُو اللہَ وَأَطِیْعُوالرَّسُوْلَ وَلَاتُبْطِلُوْا أَعْمَالَکُمْ’’۔
(محمد:۳۳)
اے ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرو۔
اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم کی طرح حضورﷺ کے اقوال، افعال اور تقریرات کی بھی اتباع کرنا ضروری ہے ،اللہ تعالیٰ نے مستقل طور سے اس کا حکم دیا ہے۔
(۲)نیز ارشاد خدا وندی ہے:‘‘وَأَنْزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِنَّاسِ مَانُزِّلَ إِلَیْھِمْ وَلَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ’’۔
(النحل:۴۴)
اور(اے پیغمبر!)ہم نے تم پر بھی یہ قرآن اس لیے نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اُن باتوں کی واضح تشریح کردو جو اُن کے لیے اتاری گئی ہیں اور تاکہ وہ غور وفکر سے کام لیں۔
اس آیت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیان کی جو ذمہ داری لی ہے اس کی تکمیل رسول اللہﷺ کریں گے، آپ کا بیان اللہ ہی کا بیان ہوگا اور یہ بات اسی وقت ممکن ہے کہ آپﷺ نے قرآن کی تبیین وتشریح وحی کے ذریعہ فرمائی ہو ورنہ اس کو اللہ کا بیان کیسے کہہ سکتے ہیں۔
(۳)ایک اور جگہ ارشاد ہے‘‘وَمَایَنْطِقُ عَنِ الْھَوَیo إِنْ ھُوَإِلَّاوَحْیٌ یُوْحَی‘‘۔
(النجم:۳،۴)
اور یہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے،یہ تو خالص وحی ہے جو ان کے پاس بھیجی جاتی ہے ۔
(۴)نیز اللہ تعالی کا ارشاد ہے:‘‘وَمَاآتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَانَھَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا’’۔
(الحشر:۷)
رسول تم کو جو کچھ دیں وہ لے لو اور جس چیز سے تم کو روک دیں رک جاؤ۔
ان دونوں آیتوں میں واضح طور پر حدیث کا مقام معلوم ہورہا ہے کہ اللہ تعالی نے حضور اکرم ﷺ کے ارشادات کو وحی الہٰی سے تعبیر فرمایا اور امت کو حکم دیا کہ حضور اکرم ﷺ جس بات کا حکم دیں اس کو اختیار کرو اور جس بات سے منع کریں اس سے رک جاؤ۔
احادیث میں حدیثِ رسولﷺ کی حیثیت
(۱)آپﷺ کی ارشاد ہے:"أَلَاإِنِّي أُوتِيتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ"۔
(ابوداؤد، باب فی لزوم السنۃ، حدیث نمبر:۳۹۸۸)
خبردار رہو کہ مجھے قرآن کے ساتھ اس کا مثل بھی دیا گیا ہے۔
حضرت زید بن ثابت ؓ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا :
(۲)حدیث کے حفظ اور یادداشت کی ترغیب دیتے ہوئے آپﷺ نے فرمایا:نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا فَحَفِظَهُ حَتَّى يُبَلِّغَهُ غَيْرَه۔
(ترمذی،بَاب مَا جَاءَ فِي الْحَثِّ عَلَى تَبْلِيغِ السَّمَاعِ،حدیث نمبر:۲۵۸۰ شاملہ،موقع الاسلام)
اللہ تعالی اس شخص کو تازگی بخشیں جس نے ہم سے کو ئی حدیث سنی اسے یاد رکھا؛ یہاں تک کہ اسے کسی دوسرے تک پہنچایا۔
(۳)ایک اور حدیث میں ہے:فَلْيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ
(مسلم، بَاب تَغْلِيظِ تَحْرِيمِ الدِّمَاءِ وَالْأَعْرَاضِ وَالْأَمْوَالِ،حدیث نمبر:۳۱۸۰،شاملہ، موقع الاسلام)
جو حاضر ہے وہ اسے غائب تک پہنچادے۔
خطبۂ حجۃ الوداع کے موقع پر آنحضرت ﷺ نے متنبہ فرمایا کہ آپ کی یہ حدیث آج صرف اسی اجتماع کے لیے نہیں یہ کل انسانوں کے لیے راہ ہدایت ہے جو آج موجود ہیں اور سن رہے ہیں وہ ان باتوں کو دوسروں تک پہنچادیں۔
علاوہ ازیں ایک حدیث میں ہے:
(۴)‘‘كان جبريل عليه السلام ينزل على رسول الله صلى الله عليه وسلم بالسنة كماينزل عليه بالقرآن، ويعلمه إياها كمايعلمه القرآن’’۔
(مراسیل ابوداؤد، باب فی البدع، حدیث نمبر:۵۰۷)
حضرت جبرئیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سنتوں کا علم لے کر ایسے ہی نازل ہوتے تھے جیسے قرآن آپﷺ پر لےکرنازل ہوتے تھےاور اس کو ایسے ہی سکھاتے تھے جیسے قرآن کو سکھاتے تھے۔
ان میں واضح طور پر یہ مضمون بیان کیا گیا ہے کہ حدیثیں بھی قرآن کی طرح وحی ہیں،
احکامِ اسلامیہ پر عمل کے لیےحدیث کی ضرورت
اسلامی احکامات پر عمل پیرا ہونے کے لیے اور قرآن کریم کو اچھی طرح سمجھنے کےلیےاحادیث کا علم ضروری ہے ، اس کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم میں اسی ۸۰/سے زیادہ جگہوں میں نماز کا حکم دیا گیا، کہیں ‘‘اَقِیْمُوْا الصَّلٰوۃ’’(نماز قائم کرو) کہا گیا ہے تو کہیں‘‘یُقِیْمُوْنَ الصَّلَوۃ’’ (نماز کو قائم کرتے ہیں)کہا گیا ہے؛ مگر سوال یہ ہے کہ نماز کس چیز کا نام ہے؟قیام،رکوع،سجدہ وغیرہ کس طرح کیا جاتا ہے،اس کی ترکیب کیا ہے ؟ قرآن کریم میں کہیں یہ بات بیان نہیں کی گئی ہے؛ البتہ قرآن میں نماز کے ارکان کا مختلف الفاظ سے مختلف جگہ تذکرہ آیا ہے، نبیٔ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازکے تمام ارکان کو جمع کرکے اس کوادا کرنے کا طریقہ بتایا ؛ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے فرائض، واجبات، سنن، مستحبات، آداب، مکروہات اور ممنوعات ہرایک کو تفصیل سے بیان کیا؛ اسی طرح نماز مسجد میں قائم کرنے کا حکم دیا ؛تاکہ نماز کا اہتمام ہو اور اذان وجماعت کا نظام بنایا، امام ومؤذن کے احکام بیان کئے اور پانچوں نمازوں کے اوقات متعین کئے اور ان اوقات کے اوّل وآخر کو بیان کیا؛ غرض تقریباً دوہزار حدیثیں ‘‘یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃ’’ کی تفسیر کرتی ہیں ان دوہزار احادیث کو اگر ‘‘یُقِیْمُوْنَ الصّلٰوۃ’’ کے ساتھ نہ لکھا جائے تو اقامتِ صلوٰۃ کی حقیقت سمجھ میں نہیں آسکتی، اور صرف نماز ہی نہیں؛ بلکہ اسلام کے تمام تفصیلی احکامات کا علم احادیث ہی سے مکمل ہوتا ہے۔
حدیث پڑھنے کا فائدہ
حدیث پڑھنے والا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ایک نورانی سلسلہ قائم ہوجاتا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ بار بار درود شریف پڑھنے کی توفیق ملتی ہے، جو سعادتِ دارین کا باعث ہے جس کے بے شمار فوائد ہیں، اس طرح علم حدیث کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ اس سے زندگی میں نبوی طریقوں پر عمل پیرا ہونا آسان ہوجاتا ہے جس کا اللہ نے قرآن میں ‘‘اَطِیْعُواالرَّسُوْلَ’’(رسول کی اطاعت کرو)کے ذریعہ حکم دیا ہے، جب کسی ذاتِ بابرکت کے حالات کا عرفان ہوتا ہے تو اس کی تعلیمات پر چلنا اور احکامات کو بجالاناآسان ہوجاتا ہے،حدیث پڑھنے اور اس پر عمل کرنے والا حضور ﷺ کی اس دعا میں شامل ہوجاتا ہے: اللہ اس بندہ کو آسودہ حال رکھے جس نے میری بات(حدیث) سن کر یاد کیا پھر اسے اسی طرح دوسروں تک پہونچایا۔
تدوینِ حدیث
حدیث کی عظمت وفضیلت اور زندگی کے ہرشعبہ میں اس کی ضرورت کے پیشِ نظر حدیث کی حفاظت وصیانت اور کتابت کا اہتمام زمانۂ رسالت ہی سے کیا گیا؛ چنانچہ احادیث کی تحریر سے قطعِ نظرصحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے علم حدیث کے اصول اور حفظ وضبط کے لیے اللہ کی عطا کردہ غیرمعمولی حافظہ کی تیزی اور ذہن کی سلامتی کا سہارا لیا۔
حفاظتِ حدیث کے طریقے
عہدِ رسالت اور عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں حفاظتِ حدیث کے لیے تین طریقے (حفظِ روایت، تعامل اور تحریر وکتابت) اپنائے گئے تھے جو یہاں ذکر کئے جاتے ہیں۔
حفظِ روایت
حفاظتِ حدیث کا پہلا طریقہ احادیث کو یاد کرنا ہے اور یہ طریقہ اس دور کے لحاظ سے انتہائی قابل اعتماد تھا، اہلِ عرب کو اللہ تعالیٰ نے غیرمعمولی حافظے عطا فرمائے تھے، وہ صرف اپنے ہی نہیں بلکہ اپنے گھوڑوں تک کے نسب نامے ازبر یاد کرلیا کرتے تھے، ایک ایک شخص کو ہزاروں اشعار حفظ ہوتے تھے ،یہی نہیں بلکہ؛یہ حضرات بسااوقات کسی بات کو صرف ایک بار سن کر یادیکھ کر پوری طرح یاد کرلیتے تھے، تاریخ میں اس کی بے شمار مثالیں ہیں، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے متعلق مشہور ہے کہ ان کے سامنے عمر بن ابی ربیعہ شاعر آیا اور ستر اشعار کا ایک طویل قصیدہ پڑھ گیا، شاعر کے جانے کے بعد ایک شعر کے متعلق گفتگو چلی، ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مصرعہ اس نے یوں پڑھا تھا، جو مخاطب تھا اس نے پوچھا کہ تم کو پہلی دفعہ میں کیا پورا مصرعہ یاد رہ گیا؟ بولے کہو تو پورے ستر شعر سنادوں اور سنادیا۔
علماء اسلام کا خیال ہے کہ علاوہ اس کے کہ عرب کا حافظہ قدرتی طور پر غیرمعمولی تھا یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ قرآن مجید کے متعلق جس نے ‘‘وَإِنَّالَہُ لَحَافِظُوْنَ’’ کا اعلان کیا تھا اسی نے قرآن کی عملی شکل یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی حفاظت جن کے سپرد کی تھی ان کے حافظوں کو غیبی تائیدوں کے ذریعہ سے بھی کچھ غیرمعمولی طور پر قوی تر کردیا تھا، وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کو محفوظ کرنااپنے لیے راہِ نجات سمجھتےتھے، خاص طور پر جب کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ان کے سامنے آچکا تھا:
‘‘نَضَّرَ اللَّهُ عَبْدًا سَمِعَ مَقَالَتِي فحفظھا ووعاھا واداھا کماسمع’’۔
(ترمذی، باب ماجاء فی الحث علی تبلیغ السماع، حدیث نمبر:۲۵۲۸۔ ابن ماجہ، باب من بلغ علی، حدیث نمبر:۲۲۶۔ مسنداحمد، حدیث جبیر بن مطعم، حدیث نمبر:۱۶۷۸۴۔ مسند شافعی، فدب حامل فقہ غیرفقیہ، حدیث نمبر:۱۱۱۵)
اللہ اس بندہ کو آسودہ حال رکھے جس نے میری بات(حدیث) سن کر یاد کیا پھر اسے اسی طرح دوسروں تک پہونچایا۔
طریقۂ تعامل
حفاظتِ حدیث کا ایک اور طریقہ جو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے اختیار کیا تھا وہ تعامل تھا ؛یعنی صحابۂ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال پر بجنسھا عمل کرکے اسے یاد کرتے تھے، ترمذی شریف اور دیگر حدیث کی کتابوں میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ انھوں نے کوئی عمل کیا اور اس کے بعد فرمایا: ‘‘ھٰکَذَا رَأَیْتُ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّیَ اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ’’ بلاشبہ یہ طریقہ بھی نہایت قابلِ اعتماد ہے اس لیے کہ انسان جس بات پر خود عمل پیرا ہوتا ہے تو وہ ذہن میں اچھی طرح راسخ ہوجاتی ہے۔
طریقۂ کتابت
حدیث کی حفاظت کتابت وتحریر کے ذریعہ سے بھی کی گئی ہے، تاریخی طور پر کتابتِ حدیث کو چار مراحل پر تقسیم کیا جاتا ہے:
(۱)متفرق طور سے احادیث کو قلمبند کرنا۔
(۲)کسی ایک شخصی صحیفہ میں احادیث کو جمع کرنا جس کی حیثیت ذاتی یاد داشت کی ہو۔
(۳)احادیث کو کتابی صورت میں بغیر تبویب(ابواب) کے جمع کرنا۔
(۴)احادیث کو کتابی شکل میں تبویب (ابواب)کے ساتھ جمع کرنا۔
عہدِرسالت اور عہدِ صحابہ میں کتابت کی پہلی دوقسمیں اچھی طرح رائج ہوچکی تھیں، منکرینِ حدیث عہدِرسالت میں کتابتِ حدیث کو تسلیم نہیں کرتے اور مسلم وغیرہ کی اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں جو ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘لَاتَکْتُبُوْا عَنِّیْ وَمَنْ کتب عنی غَیْرَالْقُرْآن فَلْیَمْحُہٗ’’ منکرینِ حدیث کا یہ کہنا ہے کہ حضورﷺ کا کتابتِ حدیث سے منع فرمانا اس بات کی دلیل ہے کہ اس دور میں حدیثیں نہیں لکھی گئیں؛ نیزاس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ احادیث حجت نہیں؛ ورنہ آپ انھیں اہتمام کے ساتھ قلمبند فرماتے؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کتابتِ حدیث کی یہ ممانعت ابتداء اسلام میں تھی۔
ذیل میں ہم کتابتِ حدیث سے ممانعت کی وجوہ اور اس کے متعلق اعتراضات کے جوابات پیش کررہے ہیں،کاتبین کی سہولت کے باوجود عمومی طور پر حدیث کی کتابت اور تدوین کی جانب توجہ نہ دینے کے درجِ ذیل اسباب ہیں:
(۱)اپنے فطری قوتِ حافظہ کی حفاظت مقصود تھی؛ کیونکہ قیدِ تحریر میں آجانے کے بعد یادداشت کے بجائے نوشتہ پر اعتماد ہوجاتا۔
(۲)قرآن کریم کے لفظ اور معنی دونوں کی حفاظت مقدم اور ضروری تھی اس لیے لکھنے کا اہتمام کیا گیا ،جب کہ حدیث کی روایت بالمعنی بھی جائز تھی؛ اس لیے حدیث کے نہ لکھے جانے میں کوئی نقصان نہیں تھا۔
(۳)عام مسلمانوں کے اعتبار سے یہ اندیشہ تھا کہ قرآن اور غیرقرآن یعنی حدیث ایک ہی چمڑے یاہڈی پر لکھنے کی وجہ سے خلط ملط ہوسکتے ہیں؛ اس لیے احتیاطی طور پر رسول اللہﷺنے قرآن کریم کے علاوہ احادیث نبویہ کو لکھنے سے منع فرمایا؛ چنانچہ حضرت ابوسعید خدریؓ اور حضرت ابوہریرہؓ سے مروی حدیث جس میں کتابتِ حدیث سے ممانعت فرمائی گئی اسی مصلحت پر مبنی ہے۔
(۴)ابتداءِ اسلام میں تحریرِ حدیث کی ممانعت تھی پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عوارضات کے ختم ہونے کے بعد تحریرِ حدیث کی اجازت مرحمت فرمائی جس کے متعلق درجِ ذیل احادیث سے تائید ہوتی ہے:
(۱)حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص فرماتے ہیں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنتا تھا اسے محفوظ رکھنے کی غرض سے لکھ لیا کرتا تھا ،قریش کے لوگوں نے مجھے منع کیا کہ تم ہربات رسول اللہﷺ سے لکھ لیا کرتے ہو؛ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان ہیں ،ان پر بھی خوشی اور غصہ دونوں حالتیں طاری ہوتی ہیں؛ چنانچہ میں لکھنے سے رُک گیا اور رسول اللہﷺ کے پاس جاکر یہ بات میں نے عرض کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگشتِ مبارک سے اپنے دہنِ مبارک کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:
‘‘اكْتُبْ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَايَخْرُجُ مِنْهُ إِلَّاحَقٌّ’’۔
(ابوداؤد،بَاب فِي كِتَابِ الْعِلْمِ حدیث نمبر:۳۱۶۱)
تم لکھتے رہو؛ کیونکہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، میرے منہ سے حق بات ہی کا صدور ہوتا ہے۔
(۲)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں مجھ سے زیادہ حدیثوں کا جامع کوئی نہیں ہے سوائے عبداللہ بن عمرو کے؛ کیونکہ وہ لکھتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا۔
(بخاری شریف، کتاب العلم، باب کتابۃ العلم:۱/۲۲)
(۳)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے منقول ہے کہ ایک انصاری شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے حافظہ کی کمزوری کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘اسْتَعِنْ بِيَمِينِكَ’’ (یعنی اسے لکھ لو)۔
(ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي الرُّخْصَةِ فِيهِ، حدیث نمبر:۲۵۹۰)
اس قسم کی احادیث اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ کتابتِ حدیث کی ممانعت کسی امرِعارض کی بناپر تھی اور جب وہ عارض مرتفع ہوگیا تواس کی اجازت؛ بلکہ حکم دیا گیا؛ اسی لیے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ کے دور میں حدیث کے کئی مجموعے (جو ذاتی نوعیت کے تھے) تیار ہوچکے تھے، جیسے صحیفۂ صادقہ، صحیفۂ علی، کتاب الصدقہ، صحفِ انس بن مالک، صحیفۂ سمرہ بن جندب، صحیفۂ سعد بن عبادہ اور صحیفۂ ہمام بن منبہ رضی اللہ عنہم، یہ صحیفے اس بات کی وضاحت کے لیے کافی ہیں کہ عہدِ رسالت اور عہدِ صحابہ میں کتابتِ حدیث کا طریقہ خوب اچھی طرح رائج ہوچکا تھا؛ لیکن اتنی بات ضروری ہے کہ خلفائے ثلاثہ کے دور میں قرآن کی طرح تدوین واشاعتِ حدیث کا اہتمام نہیں ہوا؛ لیکن حضورﷺ کی زندگی عہدِ صحابہ میں بجائے ایک نسخہ کے ہزاروں نسخوں کی صورت میں موجود ہوچکی تھی اس اعتبار سے تدوینِ حدیث کی ایک صورت خود صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگی تھی۔
مدوّنِ اوّل
سب سے پہلے حدیث کی تدوین اور اس کو کتابی شکل میں جمع کرنے کا حکومت کی جانب سےحکم حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ(۱۰۱ھ) نے دیا ہے، آپ کے مبارک دور میں احادیث کی باضابطہ تدوین کی تحریک پیدا ہوئی ہے، اس لیے کہ اب قرآن کریم سے احادیث کے اختلاط والتباس کا اندیشہ نہ تھا، صحیح بخاری میں ہے۔
(۱)َكَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ إِلَى أَبِي بَكْرِ بْنِ حَزْمٍ انْظُرْ مَا كَانَ مِنْ حَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاكْتُبْهُ فَإِنِّي خِفْتُ دُرُوسَ الْعِلْمِ وَذَهَابَ الْعُلَمَاءِ..الخ
(بخاری،باب کیف یقبض العلم،۱۷۵/۱)
حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ابوبکر بن حزم کو لکھا کہ آنحضرتﷺ کی احادیث پر نظر رکھیں اورانہیں لکھ لیں؛کیونکہ مجھے علم کے مٹ جانے اور علماء کے اٹھ جانے کا ڈر ہے
الغرض اس طرح تدوینِ حدیث کے اس اہم کام کا آغاز ہوا جس کے نتیجہ میں پہلی ہجری کے آخر میں حدیث کی بہت سی کتابیں وجود میں آگئی تھیں، جیسے: کتب ابی بکر، رسالہ سالم بن عبداللہ فی الصدقات، دفاتر الزھری، کتاب السنن لمکحول، ابواب الشعبی۔
یہ حدیث کی کتابوں میں تبویب کی ابتداء تھی، دوسری صدی ہجری میں تدوینِ حدیث کا یہ کام نہایت تیزی اور قوت کے ساتھ شروع ہوا؛ چنانچہ اس دور میں حدیث کی لکھی گئی کتابوں کی تعداد بیس سے بھی زیادہ ہے جن میں سے چند مشہور کتابیں یہ ہیں:
کتاب الاثار لابی حنیفہ، المؤطا للامام مالک، جامع معمربن راشد، جامع سفیان الثوری، السنن لابن جریج، السنن لوکیع بن الجراح اور کتاب الزہد لعبداللہ بن المبارک، وغیرہ۔
تدوینِ حدیث کا کام تیسری صدی ہجری میں اپنے شباب کو پہونچ گیا جس کے نتیجہ میں اسانید طویل ہوگئیں، ایک حدیث کو متعدد طرق سے روایت کیا گیا؛ نیزشیوعِ علم کی بنا پر فن حدیث پر لکھی گئی کتابوں کو نئی تبویب اور نئے انداز سے ترتیب دیا گیا اس طرح حدیث کی کتابوں کی بیس سے زیادہ قسمیں ہوگئیں پھر اسماء الرجال کے علم نے باقاعدہ صورت اختیار کرلی اور اس پر بھی متعدد کتابیں لکھی گئیں؛ الغرض اسی دور میں صحاحِ ستہ کی بھی تالیف ہوئی جس سے آج تک امت مستفید ہورہی ہے۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ حدیث کی حفاظت وصیانت اور کتابت کا آغاز زمانۂ رسالت ہی سے ہوگیا تھا اور حدیث کی حفاظت کے لیے حفظِ روایت، طریقۂ تعامل اور تحریر سے کام لیا گیا،اور تیسری صدی ہجری تک حدیثوں کوپورے طور پرمدون کردیا گیا۔
سنت اور حدیث میں فرق
سنت کا لفظ عمل متوارث پر آتا ہے اس میں نسخ کا کوئی احتمال نہیں رہتا،حدیث کبھی ناسخ ہوتی ہےکبھی منسوخ ؛مگر سنت کبھی منسوخ نہیں ہوتی، سنت ہے ہی وہ جس میں توارث ہواور تسلسلِ تعامل ہو،حدیث کبھی ضعیف بھی ہوتی ہے کبھی صحیح، یہ صحت وضعف کا فرق ایک علمی مرتبہ ہے،ایک علمی درجہ کی بات ہے، بخلاف سنت کے کہ اس میں ہمیشہ عمل نمایاں رہتا ہے.
(اٰثار الحدیث:۶۲)
حدیث پڑھنے والا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ایک نورانی سلسلہ قائم ہوجاتا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ بار بار درود شریف پڑھنے کی توفیق ملتی ہے، جو سعادتِ دارین کا باعث ہے جس کے بے شمار فوائد ہیں، اس طرح علم حدیث کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ اس سے زندگی میں نبوی طریقوں پر عمل پیرا ہونا آسان ہوجاتا ہے جس کا اللہ نے قرآن میں ‘‘اَطِیْعُواالرَّسُوْلَ’’(رسول کی اطاعت کرو)کے ذریعہ حکم دیا ہے، جب کسی ذاتِ بابرکت کے حالات کا عرفان ہوتا ہے تو اس کی تعلیمات پر چلنا اور احکامات کو بجالاناآسان ہوجاتا ہے،حدیث پڑھنے اور اس پر عمل کرنے والا حضور ﷺ کی اس دعا میں شامل ہوجاتا ہے: اللہ اس بندہ کو آسودہ حال رکھے جس نے میری بات(حدیث) سن کر یاد کیا پھر اسے اسی طرح دوسروں تک پہونچایا۔
تدوینِ حدیث
حدیث کی عظمت وفضیلت اور زندگی کے ہرشعبہ میں اس کی ضرورت کے پیشِ نظر حدیث کی حفاظت وصیانت اور کتابت کا اہتمام زمانۂ رسالت ہی سے کیا گیا؛ چنانچہ احادیث کی تحریر سے قطعِ نظرصحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے علم حدیث کے اصول اور حفظ وضبط کے لیے اللہ کی عطا کردہ غیرمعمولی حافظہ کی تیزی اور ذہن کی سلامتی کا سہارا لیا۔
حفاظتِ حدیث کے طریقے
عہدِ رسالت اور عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں حفاظتِ حدیث کے لیے تین طریقے (حفظِ روایت، تعامل اور تحریر وکتابت) اپنائے گئے تھے جو یہاں ذکر کئے جاتے ہیں۔
حفظِ روایت
حفاظتِ حدیث کا پہلا طریقہ احادیث کو یاد کرنا ہے اور یہ طریقہ اس دور کے لحاظ سے انتہائی قابل اعتماد تھا، اہلِ عرب کو اللہ تعالیٰ نے غیرمعمولی حافظے عطا فرمائے تھے، وہ صرف اپنے ہی نہیں بلکہ اپنے گھوڑوں تک کے نسب نامے ازبر یاد کرلیا کرتے تھے، ایک ایک شخص کو ہزاروں اشعار حفظ ہوتے تھے ،یہی نہیں بلکہ؛یہ حضرات بسااوقات کسی بات کو صرف ایک بار سن کر یادیکھ کر پوری طرح یاد کرلیتے تھے، تاریخ میں اس کی بے شمار مثالیں ہیں، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے متعلق مشہور ہے کہ ان کے سامنے عمر بن ابی ربیعہ شاعر آیا اور ستر اشعار کا ایک طویل قصیدہ پڑھ گیا، شاعر کے جانے کے بعد ایک شعر کے متعلق گفتگو چلی، ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مصرعہ اس نے یوں پڑھا تھا، جو مخاطب تھا اس نے پوچھا کہ تم کو پہلی دفعہ میں کیا پورا مصرعہ یاد رہ گیا؟ بولے کہو تو پورے ستر شعر سنادوں اور سنادیا۔
علماء اسلام کا خیال ہے کہ علاوہ اس کے کہ عرب کا حافظہ قدرتی طور پر غیرمعمولی تھا یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ قرآن مجید کے متعلق جس نے ‘‘وَإِنَّالَہُ لَحَافِظُوْنَ’’ کا اعلان کیا تھا اسی نے قرآن کی عملی شکل یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی حفاظت جن کے سپرد کی تھی ان کے حافظوں کو غیبی تائیدوں کے ذریعہ سے بھی کچھ غیرمعمولی طور پر قوی تر کردیا تھا، وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کو محفوظ کرنااپنے لیے راہِ نجات سمجھتےتھے، خاص طور پر جب کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ان کے سامنے آچکا تھا:
‘‘نَضَّرَ اللَّهُ عَبْدًا سَمِعَ مَقَالَتِي فحفظھا ووعاھا واداھا کماسمع’’۔
(ترمذی، باب ماجاء فی الحث علی تبلیغ السماع، حدیث نمبر:۲۵۲۸۔ ابن ماجہ، باب من بلغ علی، حدیث نمبر:۲۲۶۔ مسنداحمد، حدیث جبیر بن مطعم، حدیث نمبر:۱۶۷۸۴۔ مسند شافعی، فدب حامل فقہ غیرفقیہ، حدیث نمبر:۱۱۱۵)
اللہ اس بندہ کو آسودہ حال رکھے جس نے میری بات(حدیث) سن کر یاد کیا پھر اسے اسی طرح دوسروں تک پہونچایا۔
طریقۂ تعامل
حفاظتِ حدیث کا ایک اور طریقہ جو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے اختیار کیا تھا وہ تعامل تھا ؛یعنی صحابۂ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال پر بجنسھا عمل کرکے اسے یاد کرتے تھے، ترمذی شریف اور دیگر حدیث کی کتابوں میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ انھوں نے کوئی عمل کیا اور اس کے بعد فرمایا: ‘‘ھٰکَذَا رَأَیْتُ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّیَ اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ’’ بلاشبہ یہ طریقہ بھی نہایت قابلِ اعتماد ہے اس لیے کہ انسان جس بات پر خود عمل پیرا ہوتا ہے تو وہ ذہن میں اچھی طرح راسخ ہوجاتی ہے۔
طریقۂ کتابت
حدیث کی حفاظت کتابت وتحریر کے ذریعہ سے بھی کی گئی ہے، تاریخی طور پر کتابتِ حدیث کو چار مراحل پر تقسیم کیا جاتا ہے:
(۱)متفرق طور سے احادیث کو قلمبند کرنا۔
(۲)کسی ایک شخصی صحیفہ میں احادیث کو جمع کرنا جس کی حیثیت ذاتی یاد داشت کی ہو۔
(۳)احادیث کو کتابی صورت میں بغیر تبویب(ابواب) کے جمع کرنا۔
(۴)احادیث کو کتابی شکل میں تبویب (ابواب)کے ساتھ جمع کرنا۔
عہدِرسالت اور عہدِ صحابہ میں کتابت کی پہلی دوقسمیں اچھی طرح رائج ہوچکی تھیں، منکرینِ حدیث عہدِرسالت میں کتابتِ حدیث کو تسلیم نہیں کرتے اور مسلم وغیرہ کی اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں جو ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘لَاتَکْتُبُوْا عَنِّیْ وَمَنْ کتب عنی غَیْرَالْقُرْآن فَلْیَمْحُہٗ’’ منکرینِ حدیث کا یہ کہنا ہے کہ حضورﷺ کا کتابتِ حدیث سے منع فرمانا اس بات کی دلیل ہے کہ اس دور میں حدیثیں نہیں لکھی گئیں؛ نیزاس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ احادیث حجت نہیں؛ ورنہ آپ انھیں اہتمام کے ساتھ قلمبند فرماتے؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کتابتِ حدیث کی یہ ممانعت ابتداء اسلام میں تھی۔
ذیل میں ہم کتابتِ حدیث سے ممانعت کی وجوہ اور اس کے متعلق اعتراضات کے جوابات پیش کررہے ہیں،کاتبین کی سہولت کے باوجود عمومی طور پر حدیث کی کتابت اور تدوین کی جانب توجہ نہ دینے کے درجِ ذیل اسباب ہیں:
(۱)اپنے فطری قوتِ حافظہ کی حفاظت مقصود تھی؛ کیونکہ قیدِ تحریر میں آجانے کے بعد یادداشت کے بجائے نوشتہ پر اعتماد ہوجاتا۔
(۲)قرآن کریم کے لفظ اور معنی دونوں کی حفاظت مقدم اور ضروری تھی اس لیے لکھنے کا اہتمام کیا گیا ،جب کہ حدیث کی روایت بالمعنی بھی جائز تھی؛ اس لیے حدیث کے نہ لکھے جانے میں کوئی نقصان نہیں تھا۔
(۳)عام مسلمانوں کے اعتبار سے یہ اندیشہ تھا کہ قرآن اور غیرقرآن یعنی حدیث ایک ہی چمڑے یاہڈی پر لکھنے کی وجہ سے خلط ملط ہوسکتے ہیں؛ اس لیے احتیاطی طور پر رسول اللہﷺنے قرآن کریم کے علاوہ احادیث نبویہ کو لکھنے سے منع فرمایا؛ چنانچہ حضرت ابوسعید خدریؓ اور حضرت ابوہریرہؓ سے مروی حدیث جس میں کتابتِ حدیث سے ممانعت فرمائی گئی اسی مصلحت پر مبنی ہے۔
(۴)ابتداءِ اسلام میں تحریرِ حدیث کی ممانعت تھی پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عوارضات کے ختم ہونے کے بعد تحریرِ حدیث کی اجازت مرحمت فرمائی جس کے متعلق درجِ ذیل احادیث سے تائید ہوتی ہے:
(۱)حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص فرماتے ہیں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنتا تھا اسے محفوظ رکھنے کی غرض سے لکھ لیا کرتا تھا ،قریش کے لوگوں نے مجھے منع کیا کہ تم ہربات رسول اللہﷺ سے لکھ لیا کرتے ہو؛ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان ہیں ،ان پر بھی خوشی اور غصہ دونوں حالتیں طاری ہوتی ہیں؛ چنانچہ میں لکھنے سے رُک گیا اور رسول اللہﷺ کے پاس جاکر یہ بات میں نے عرض کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگشتِ مبارک سے اپنے دہنِ مبارک کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:
‘‘اكْتُبْ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَايَخْرُجُ مِنْهُ إِلَّاحَقٌّ’’۔
(ابوداؤد،بَاب فِي كِتَابِ الْعِلْمِ حدیث نمبر:۳۱۶۱)
تم لکھتے رہو؛ کیونکہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، میرے منہ سے حق بات ہی کا صدور ہوتا ہے۔
(۲)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں مجھ سے زیادہ حدیثوں کا جامع کوئی نہیں ہے سوائے عبداللہ بن عمرو کے؛ کیونکہ وہ لکھتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا۔
(بخاری شریف، کتاب العلم، باب کتابۃ العلم:۱/۲۲)
(۳)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے منقول ہے کہ ایک انصاری شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے حافظہ کی کمزوری کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘اسْتَعِنْ بِيَمِينِكَ’’ (یعنی اسے لکھ لو)۔
(ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي الرُّخْصَةِ فِيهِ، حدیث نمبر:۲۵۹۰)
اس قسم کی احادیث اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ کتابتِ حدیث کی ممانعت کسی امرِعارض کی بناپر تھی اور جب وہ عارض مرتفع ہوگیا تواس کی اجازت؛ بلکہ حکم دیا گیا؛ اسی لیے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ کے دور میں حدیث کے کئی مجموعے (جو ذاتی نوعیت کے تھے) تیار ہوچکے تھے، جیسے صحیفۂ صادقہ، صحیفۂ علی، کتاب الصدقہ، صحفِ انس بن مالک، صحیفۂ سمرہ بن جندب، صحیفۂ سعد بن عبادہ اور صحیفۂ ہمام بن منبہ رضی اللہ عنہم، یہ صحیفے اس بات کی وضاحت کے لیے کافی ہیں کہ عہدِ رسالت اور عہدِ صحابہ میں کتابتِ حدیث کا طریقہ خوب اچھی طرح رائج ہوچکا تھا؛ لیکن اتنی بات ضروری ہے کہ خلفائے ثلاثہ کے دور میں قرآن کی طرح تدوین واشاعتِ حدیث کا اہتمام نہیں ہوا؛ لیکن حضورﷺ کی زندگی عہدِ صحابہ میں بجائے ایک نسخہ کے ہزاروں نسخوں کی صورت میں موجود ہوچکی تھی اس اعتبار سے تدوینِ حدیث کی ایک صورت خود صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگی تھی۔
مدوّنِ اوّل
سب سے پہلے حدیث کی تدوین اور اس کو کتابی شکل میں جمع کرنے کا حکومت کی جانب سےحکم حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ(۱۰۱ھ) نے دیا ہے، آپ کے مبارک دور میں احادیث کی باضابطہ تدوین کی تحریک پیدا ہوئی ہے، اس لیے کہ اب قرآن کریم سے احادیث کے اختلاط والتباس کا اندیشہ نہ تھا، صحیح بخاری میں ہے۔
(۱)َكَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ إِلَى أَبِي بَكْرِ بْنِ حَزْمٍ انْظُرْ مَا كَانَ مِنْ حَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاكْتُبْهُ فَإِنِّي خِفْتُ دُرُوسَ الْعِلْمِ وَذَهَابَ الْعُلَمَاءِ..الخ
(بخاری،باب کیف یقبض العلم،۱۷۵/۱)
حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ابوبکر بن حزم کو لکھا کہ آنحضرتﷺ کی احادیث پر نظر رکھیں اورانہیں لکھ لیں؛کیونکہ مجھے علم کے مٹ جانے اور علماء کے اٹھ جانے کا ڈر ہے
الغرض اس طرح تدوینِ حدیث کے اس اہم کام کا آغاز ہوا جس کے نتیجہ میں پہلی ہجری کے آخر میں حدیث کی بہت سی کتابیں وجود میں آگئی تھیں، جیسے: کتب ابی بکر، رسالہ سالم بن عبداللہ فی الصدقات، دفاتر الزھری، کتاب السنن لمکحول، ابواب الشعبی۔
یہ حدیث کی کتابوں میں تبویب کی ابتداء تھی، دوسری صدی ہجری میں تدوینِ حدیث کا یہ کام نہایت تیزی اور قوت کے ساتھ شروع ہوا؛ چنانچہ اس دور میں حدیث کی لکھی گئی کتابوں کی تعداد بیس سے بھی زیادہ ہے جن میں سے چند مشہور کتابیں یہ ہیں:
کتاب الاثار لابی حنیفہ، المؤطا للامام مالک، جامع معمربن راشد، جامع سفیان الثوری، السنن لابن جریج، السنن لوکیع بن الجراح اور کتاب الزہد لعبداللہ بن المبارک، وغیرہ۔
تدوینِ حدیث کا کام تیسری صدی ہجری میں اپنے شباب کو پہونچ گیا جس کے نتیجہ میں اسانید طویل ہوگئیں، ایک حدیث کو متعدد طرق سے روایت کیا گیا؛ نیزشیوعِ علم کی بنا پر فن حدیث پر لکھی گئی کتابوں کو نئی تبویب اور نئے انداز سے ترتیب دیا گیا اس طرح حدیث کی کتابوں کی بیس سے زیادہ قسمیں ہوگئیں پھر اسماء الرجال کے علم نے باقاعدہ صورت اختیار کرلی اور اس پر بھی متعدد کتابیں لکھی گئیں؛ الغرض اسی دور میں صحاحِ ستہ کی بھی تالیف ہوئی جس سے آج تک امت مستفید ہورہی ہے۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ حدیث کی حفاظت وصیانت اور کتابت کا آغاز زمانۂ رسالت ہی سے ہوگیا تھا اور حدیث کی حفاظت کے لیے حفظِ روایت، طریقۂ تعامل اور تحریر سے کام لیا گیا،اور تیسری صدی ہجری تک حدیثوں کوپورے طور پرمدون کردیا گیا۔
سنت اور حدیث میں فرق
سنت کا لفظ عمل متوارث پر آتا ہے اس میں نسخ کا کوئی احتمال نہیں رہتا،حدیث کبھی ناسخ ہوتی ہےکبھی منسوخ ؛مگر سنت کبھی منسوخ نہیں ہوتی، سنت ہے ہی وہ جس میں توارث ہواور تسلسلِ تعامل ہو،حدیث کبھی ضعیف بھی ہوتی ہے کبھی صحیح، یہ صحت وضعف کا فرق ایک علمی مرتبہ ہے،ایک علمی درجہ کی بات ہے، بخلاف سنت کے کہ اس میں ہمیشہ عمل نمایاں رہتا ہے.
(اٰثار الحدیث:۶۲)
حدیث میں درجہ بندی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
فتوحات کی کثرت کی بنا پر جب مختلف قبیلوں اور دور دراز علاقوں میں اسلام پھیلنے لگا تو حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم مختلف جگہوں میں قیام پذیر ہوگئے، اس طرح مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ علم حدیث کے حامل کبارِ صحابہ اس دنیا سے پردہ فرمانے لگے جس کے نتیجہ میں علمِ حدیث کے حاملین کی کمی ہونے لگی، دھیرے دھیرے حق کے خلاف باطل سرابھارنے لگا ،لوگ اپنے اپنے مقاصد کے لیے حدیثیں اپنی طرف سے بناکرحضور اکرم ﷺ کی طرف اس کی نسبت کرنے لگے،مثلاً بددین لوگوں نے اپنے عقائد کے تائید میں،سیاسی گروہ سے تعلق رکھنے والوں نے اپنے پیشوا کی فضیلت اور مخالفین کی مذمت میں،بادشاہوں کو خوش کرنے کی لیےاورغیر محتاط مقررین اپنی تقریر میں رنگ جمانے کے لیے حدیثیں گڑھنےلگے،تو ان نازک حالات کے پیشِ نظر علماءِ وقت نے حدیث کی تدوین نیز اسے کتابی شکل میں لانے کی ضرورت کو محسوس کیا؛ چنانچہ علماء اور طالبینِ حدیث اس کام کے لیے کمربستہ ہوگئے، انہوں نے حدیث کی حفاظت کی اہمیت کے پیش نظر دوردراز کے متعدد اسفار کئے، اس وقت محدثین کرام علمِ حدیث کی خدمت کو شب بیداری سے افضل سمجھتے تھے اور انہوں نے اپنی عمر عزیز کا بیشتر حصہ اس اہم کام کے لیے صرف کردیا،اور من گھڑت روایتیں پیش کرنے والے راویوں کی حقیقت کو کھول کر رکھ دیا،صحیح اور موضوع روایتوں کو الگ الگ کردیا،صحیح اور ضعیف احادیث کی پہچان کے لیے اصول مقرر کیے،جس کو حدیث کا علم کہتے ہیں ،ان علوم کو جانے بغیر کوئی شخص احادیث میں کلام نہیں کرسکتا۔
موجودہ زمانے میں احادیث پرصحیح یا ضعیف کا حکم لگانا
موجودہ زمانے میں کسی حدیث کو علم حدیث میں مہارت کے بغیرصحیح یا ضعیف ہونے کا حکم نہیں لگایا جاسکتا ،اس لیے کہ کتابوں میں نقل کرنے سے پہلے ائمہ جرح وتعدیل راویوں کی پوری چھان بین کرتےتھے، ان کی صفات باوثوق ذریعے سے معلوم کرتے،اور علم حدیث کے تمام شرائط پر اس راوی اورروایت کو پرکھا اورجانچا جاتا تھا،اس کے بعد حدیث کا درجہ متعین کیا جاتا تھا،الغرض!ماہرین علم حدیث نے مجموعی طور پر جس حدیث کو ضعیف یا صحیح لکھا ہے ،موجودہ زمانہ میں اسی حدیث کو ضعیف یا صحیح کہا جاسکتا ہے-
البتہ جن احادیث کے بارے میں صحت وضعف کا پتہ نہ چل سکے اور باوجود تلاش وجستجو کے کسی کی کوئی تصریح اس حدیث کے متعلق نے مل سکے تو پھر کتب اسماء رجال سے ہر راوی کے متعلق جملہ آراء کو جمع کیا جائے اور معتدل وحقیقت پسندانہ تبصرہ کرنے والوں کی رائے کو اہمیت دی جائے اور اس کی روشنی میں کسی حدیث کے بارے میں صحت وضعف کا فیصلہ کیا جائے ؛یہی محتاط طریقہ ہے،بلا تحقیق وجستجو کے کسی حدیث پر حکم لگانا نہایت غلط طریقہ ہے۔
علوم حدیث
مجموعی طور پر علم حدیث کی درج ذیل قسمیں بیان کی جاتی ہیں۔
۱۔ نقل حدیث کی کیفیت و صورت ۔ نیز یہ کہ وہ کس کا فعل وتقریر ہے ۔
۲۔نقل حدیث کے شرائط۔ ساتھ ہی یہ بھی کہ نقل کی کیا کیفیت رہی ۔
۳۔ اقسام حدیث باعتبار سند و متن ۔
۴۔احکام اقسام حدیث ۔
۵۔احوال راویان حدیث ۔
۶۔ شرائط راویان حدیث ۔
۷۔ مصنفات حدیث ۔
۸۔اصطلاحات فن ۔
راویوں کی تعداد کے اعتبار سے حدیث کی قسمیں
حدیث نقل کرنے والے کو راوی کہتے ہیں،اس لحاظ سے حدیث کی چار قسمیں ہیں،متواتر،مشہور،غریب،عزیز۔
متواتر:وہ حدیث ہے جس کو رسول اللہ ﷺ سے آج تک اتنی بڑی جماعت نقل کرتی آئی ہو کہ عادتاً ان کا جھوٹ پر متفق ہوجانا ناقابل تصور ہو۔
مشہور:وہ حد یث ہے جس کو ہر زمانے میں تین یا اس سے زیادہ راویوں نے نقل کیا ہو،اگر سلسلہ سند میں کہیں بھی راویوں کی تعداد کسی زمانے میں تین سے کم ہوگئی ہو تو خبر مشہور باقی نہیں رہے گی۔
عزیز:وہ حدیث ہے جس کی روایت کرنے والے کسی زمانے میں دو سے کم نہ ہوں۔
غریب:وہ حدیث ہے جس کے سلسلہ سند میں کسی زمانے میں بھی راوی کی تعداد صرف ایک رہ گئی ہو،حدیث غریب کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ غیر معتبر ہوتی ہے؛ بلکہ حدیث غریب کبھی صحیح کبھی حسن اور کبھی ضعیف کے درجے کی ہوتی ہے۔
مقبول حدیث کی پہچان اور اس کی قسمیں
مقبول یعنی وہ حدیث جس کی رسول اللہ ﷺ کی طرف نسبت کا درست ہونا راجح ہو،اس کی چار قسمیں ہیں،صحیح لذاتہ،صحیح لغیرہ،حسن لذاتہ،حسن لغیرہ۔
صحیح لذاتہ:وہ حدیث ہےجس کو عادل اور قوی الحفظ راویوں نے اس طرح نقل کیا ہو کہ سند میں کہیں انقطاع نہ ہو اور وہ علت اور شذوذ سے محفوظ ہو۔
(عادل سے مراد جو گناہوں اور دنائت کی باتوں سے بچتا ہو،قوی الحفظ وہ ہے جو سنی ہوئی بات کو بغیر کمی بیشی کے محفوظ رکھ سکتا ہواصطلاح میں اس کو ضبط کہتے ہیں،علت روایت میں پائی جانے والی ایسی پوشیدہ کمزوری کو کہتے ہیں جس پر اہل فن ہی واقف ہوسکیں،شذوذ کا مطلب یہ ہے کہ راوی نے سند یا حدیث کے مضمون میں اپنے سے بہتر راوی کی مخالفت کی ہو)۔
صحیح لغیرہ:وہ حدیث ہےجس کا راوی ضبط میں تھوڑا کمزور ہو؛لیکن دوسری کئی سندوں سے منقول ہونے کی وجہ سے صحیح کے درجے میں آجائے۔
حسن لذاتہ:وہ حدیث ہے جس کا راوی عادل ہو؛ لیکن ضبط میں کچھ کم ہواور اس میں شذوذ و علت پائی جائے۔
حسن لغیرہ:وہ حدیث ہے جس کی سند میں کوئی راوی عدل یا ضبط کے اعتبار سے کمزور ہو ؛لیکن کثرت طرق کی وجہ سے اس کی تلافی ہوجائے۔
ضعیف حدیث کی پہچان اور اس کی قسمیں
حدیث ضعیف:وہ حدیث ہے جس کی سند میں اتصال نہ ہو یا راوی عادل نہ ہو یا راوی کا حافظہ بہتر اور قابل اعتماد نہ ہو،حدیث ضعیف کی بہت قسمیں ہیں،بنیادی طور پر دو اسباب کی وجہ سے حدیث ضعیف کہلاتی ہے(۱)سند میں کسی مقام پرراوی کا چھوٹ جانا(۲)حدیث کے راویوں میں جن اوصاف کا پایاجانا ضروری ہے وہ نہ پائے جائیں۔
چند اصطلاحات ِحدیث
حضورﷺ سے جو چیز منقول ہوا سے‘‘حدیث مرفوع’’اور جو صحابی سے منقول ہو اسے ‘‘حدیث موقوف’’ اور جو تابعی سے منقول ہواسے‘‘حدیث مقطوع’’ کہتے ہیں ، حدیث کے ناقل کو ‘‘راوی’’اور حدیث کو‘‘روایت’’ کہتے ہیں اور ناقلین کے نام کے مجموعہ کو‘‘سند’’ اور اصل مضمون کو ‘‘متن’’ کہتے ہیں۔
کتب احادیث کی چند قسمیں
صحیح:وہ کتب حدیث ہیں جن میں مؤلف نے صحیح احادیث کے نقل کرنے کا اہتمام کیا ہو،جیسے مؤطا امام مالک ، بخاری،مسلم،ترمذی،ابوداؤد،نسائی،ابن ماجہ،صحیح ابن خزیمہ اور صحیح ابن حبان،ان کتابوں میں مؤلفین نے اپنی دانست میں صحیح وحسن روایات کو نقل کرنے کا اہتمام کیا ہے اور اگر کہیں کسی مصلحت سے قصداً ضعیف روایت نقل کی ہیں تو ان کا ضعف بھی ظاہر کردیا ہے۔
جامع:وہ کتابیں جن میں آٹھ قسم کی مضامین ہوں ‘‘عقائد، احکام، رقاق، آداب، تفسیر، سیر،مناقب،فتن’’بخاری اور ترمذی بحیثیت جامع زیادہ ممتاز ہیں۔
سنن:وہ کتب جن میں فقہی ترتیب سے روایات جمع کی گئی ہوں،جیسے ابوداؤد اور ترمذی وغیرہ۔
مصنف:ایسی کتابیں جو فقہی ترتیب پر مرتب کی جاتی ہیں؛ مگر ان میں احادیث مرفوعہ کے ساتھ صحابہ وتابعین کے فتاویٰ بھی مذکور ہوں ،جیسے مصنف عبدالرزاق اور مصنف ابن ابی شیبہ۔
مسند: وہ کتابیں ہیں جن میں ہر صحابی کی مرویات کو ایک جگہ جمع کیا گیا ہو جیسے مسند احمد بن حنبل وغیرہ۔
معجم:جس میں ایک استاذ کی مرویات کو راوی نے جمع کیا ہو جیسے طبرانی کی معجم وغیرہ۔( حدیث کا یہ ایک مختصر تعارف تھا اس عنوان کے تحت تمام تفصیلات آگےملاحظہ فرمائیں)
================================================
فتوحات کی کثرت کی بنا پر جب مختلف قبیلوں اور دور دراز علاقوں میں اسلام پھیلنے لگا تو حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم مختلف جگہوں میں قیام پذیر ہوگئے، اس طرح مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ علم حدیث کے حامل کبارِ صحابہ اس دنیا سے پردہ فرمانے لگے جس کے نتیجہ میں علمِ حدیث کے حاملین کی کمی ہونے لگی، دھیرے دھیرے حق کے خلاف باطل سرابھارنے لگا ،لوگ اپنے اپنے مقاصد کے لیے حدیثیں اپنی طرف سے بناکرحضور اکرم ﷺ کی طرف اس کی نسبت کرنے لگے،مثلاً بددین لوگوں نے اپنے عقائد کے تائید میں،سیاسی گروہ سے تعلق رکھنے والوں نے اپنے پیشوا کی فضیلت اور مخالفین کی مذمت میں،بادشاہوں کو خوش کرنے کی لیےاورغیر محتاط مقررین اپنی تقریر میں رنگ جمانے کے لیے حدیثیں گڑھنےلگے،تو ان نازک حالات کے پیشِ نظر علماءِ وقت نے حدیث کی تدوین نیز اسے کتابی شکل میں لانے کی ضرورت کو محسوس کیا؛ چنانچہ علماء اور طالبینِ حدیث اس کام کے لیے کمربستہ ہوگئے، انہوں نے حدیث کی حفاظت کی اہمیت کے پیش نظر دوردراز کے متعدد اسفار کئے، اس وقت محدثین کرام علمِ حدیث کی خدمت کو شب بیداری سے افضل سمجھتے تھے اور انہوں نے اپنی عمر عزیز کا بیشتر حصہ اس اہم کام کے لیے صرف کردیا،اور من گھڑت روایتیں پیش کرنے والے راویوں کی حقیقت کو کھول کر رکھ دیا،صحیح اور موضوع روایتوں کو الگ الگ کردیا،صحیح اور ضعیف احادیث کی پہچان کے لیے اصول مقرر کیے،جس کو حدیث کا علم کہتے ہیں ،ان علوم کو جانے بغیر کوئی شخص احادیث میں کلام نہیں کرسکتا۔
موجودہ زمانے میں احادیث پرصحیح یا ضعیف کا حکم لگانا
موجودہ زمانے میں کسی حدیث کو علم حدیث میں مہارت کے بغیرصحیح یا ضعیف ہونے کا حکم نہیں لگایا جاسکتا ،اس لیے کہ کتابوں میں نقل کرنے سے پہلے ائمہ جرح وتعدیل راویوں کی پوری چھان بین کرتےتھے، ان کی صفات باوثوق ذریعے سے معلوم کرتے،اور علم حدیث کے تمام شرائط پر اس راوی اورروایت کو پرکھا اورجانچا جاتا تھا،اس کے بعد حدیث کا درجہ متعین کیا جاتا تھا،الغرض!ماہرین علم حدیث نے مجموعی طور پر جس حدیث کو ضعیف یا صحیح لکھا ہے ،موجودہ زمانہ میں اسی حدیث کو ضعیف یا صحیح کہا جاسکتا ہے-
البتہ جن احادیث کے بارے میں صحت وضعف کا پتہ نہ چل سکے اور باوجود تلاش وجستجو کے کسی کی کوئی تصریح اس حدیث کے متعلق نے مل سکے تو پھر کتب اسماء رجال سے ہر راوی کے متعلق جملہ آراء کو جمع کیا جائے اور معتدل وحقیقت پسندانہ تبصرہ کرنے والوں کی رائے کو اہمیت دی جائے اور اس کی روشنی میں کسی حدیث کے بارے میں صحت وضعف کا فیصلہ کیا جائے ؛یہی محتاط طریقہ ہے،بلا تحقیق وجستجو کے کسی حدیث پر حکم لگانا نہایت غلط طریقہ ہے۔
علوم حدیث
مجموعی طور پر علم حدیث کی درج ذیل قسمیں بیان کی جاتی ہیں۔
۱۔ نقل حدیث کی کیفیت و صورت ۔ نیز یہ کہ وہ کس کا فعل وتقریر ہے ۔
۲۔نقل حدیث کے شرائط۔ ساتھ ہی یہ بھی کہ نقل کی کیا کیفیت رہی ۔
۳۔ اقسام حدیث باعتبار سند و متن ۔
۴۔احکام اقسام حدیث ۔
۵۔احوال راویان حدیث ۔
۶۔ شرائط راویان حدیث ۔
۷۔ مصنفات حدیث ۔
۸۔اصطلاحات فن ۔
راویوں کی تعداد کے اعتبار سے حدیث کی قسمیں
حدیث نقل کرنے والے کو راوی کہتے ہیں،اس لحاظ سے حدیث کی چار قسمیں ہیں،متواتر،مشہور،غریب،عزیز۔
متواتر:وہ حدیث ہے جس کو رسول اللہ ﷺ سے آج تک اتنی بڑی جماعت نقل کرتی آئی ہو کہ عادتاً ان کا جھوٹ پر متفق ہوجانا ناقابل تصور ہو۔
مشہور:وہ حد یث ہے جس کو ہر زمانے میں تین یا اس سے زیادہ راویوں نے نقل کیا ہو،اگر سلسلہ سند میں کہیں بھی راویوں کی تعداد کسی زمانے میں تین سے کم ہوگئی ہو تو خبر مشہور باقی نہیں رہے گی۔
عزیز:وہ حدیث ہے جس کی روایت کرنے والے کسی زمانے میں دو سے کم نہ ہوں۔
غریب:وہ حدیث ہے جس کے سلسلہ سند میں کسی زمانے میں بھی راوی کی تعداد صرف ایک رہ گئی ہو،حدیث غریب کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ غیر معتبر ہوتی ہے؛ بلکہ حدیث غریب کبھی صحیح کبھی حسن اور کبھی ضعیف کے درجے کی ہوتی ہے۔
مقبول حدیث کی پہچان اور اس کی قسمیں
مقبول یعنی وہ حدیث جس کی رسول اللہ ﷺ کی طرف نسبت کا درست ہونا راجح ہو،اس کی چار قسمیں ہیں،صحیح لذاتہ،صحیح لغیرہ،حسن لذاتہ،حسن لغیرہ۔
صحیح لذاتہ:وہ حدیث ہےجس کو عادل اور قوی الحفظ راویوں نے اس طرح نقل کیا ہو کہ سند میں کہیں انقطاع نہ ہو اور وہ علت اور شذوذ سے محفوظ ہو۔
(عادل سے مراد جو گناہوں اور دنائت کی باتوں سے بچتا ہو،قوی الحفظ وہ ہے جو سنی ہوئی بات کو بغیر کمی بیشی کے محفوظ رکھ سکتا ہواصطلاح میں اس کو ضبط کہتے ہیں،علت روایت میں پائی جانے والی ایسی پوشیدہ کمزوری کو کہتے ہیں جس پر اہل فن ہی واقف ہوسکیں،شذوذ کا مطلب یہ ہے کہ راوی نے سند یا حدیث کے مضمون میں اپنے سے بہتر راوی کی مخالفت کی ہو)۔
صحیح لغیرہ:وہ حدیث ہےجس کا راوی ضبط میں تھوڑا کمزور ہو؛لیکن دوسری کئی سندوں سے منقول ہونے کی وجہ سے صحیح کے درجے میں آجائے۔
حسن لذاتہ:وہ حدیث ہے جس کا راوی عادل ہو؛ لیکن ضبط میں کچھ کم ہواور اس میں شذوذ و علت پائی جائے۔
حسن لغیرہ:وہ حدیث ہے جس کی سند میں کوئی راوی عدل یا ضبط کے اعتبار سے کمزور ہو ؛لیکن کثرت طرق کی وجہ سے اس کی تلافی ہوجائے۔
ضعیف حدیث کی پہچان اور اس کی قسمیں
حدیث ضعیف:وہ حدیث ہے جس کی سند میں اتصال نہ ہو یا راوی عادل نہ ہو یا راوی کا حافظہ بہتر اور قابل اعتماد نہ ہو،حدیث ضعیف کی بہت قسمیں ہیں،بنیادی طور پر دو اسباب کی وجہ سے حدیث ضعیف کہلاتی ہے(۱)سند میں کسی مقام پرراوی کا چھوٹ جانا(۲)حدیث کے راویوں میں جن اوصاف کا پایاجانا ضروری ہے وہ نہ پائے جائیں۔
چند اصطلاحات ِحدیث
حضورﷺ سے جو چیز منقول ہوا سے‘‘حدیث مرفوع’’اور جو صحابی سے منقول ہو اسے ‘‘حدیث موقوف’’ اور جو تابعی سے منقول ہواسے‘‘حدیث مقطوع’’ کہتے ہیں ، حدیث کے ناقل کو ‘‘راوی’’اور حدیث کو‘‘روایت’’ کہتے ہیں اور ناقلین کے نام کے مجموعہ کو‘‘سند’’ اور اصل مضمون کو ‘‘متن’’ کہتے ہیں۔
کتب احادیث کی چند قسمیں
صحیح:وہ کتب حدیث ہیں جن میں مؤلف نے صحیح احادیث کے نقل کرنے کا اہتمام کیا ہو،جیسے مؤطا امام مالک ، بخاری،مسلم،ترمذی،ابوداؤد،نسائی،ابن ماجہ،صحیح ابن خزیمہ اور صحیح ابن حبان،ان کتابوں میں مؤلفین نے اپنی دانست میں صحیح وحسن روایات کو نقل کرنے کا اہتمام کیا ہے اور اگر کہیں کسی مصلحت سے قصداً ضعیف روایت نقل کی ہیں تو ان کا ضعف بھی ظاہر کردیا ہے۔
جامع:وہ کتابیں جن میں آٹھ قسم کی مضامین ہوں ‘‘عقائد، احکام، رقاق، آداب، تفسیر، سیر،مناقب،فتن’’بخاری اور ترمذی بحیثیت جامع زیادہ ممتاز ہیں۔
سنن:وہ کتب جن میں فقہی ترتیب سے روایات جمع کی گئی ہوں،جیسے ابوداؤد اور ترمذی وغیرہ۔
مصنف:ایسی کتابیں جو فقہی ترتیب پر مرتب کی جاتی ہیں؛ مگر ان میں احادیث مرفوعہ کے ساتھ صحابہ وتابعین کے فتاویٰ بھی مذکور ہوں ،جیسے مصنف عبدالرزاق اور مصنف ابن ابی شیبہ۔
مسند: وہ کتابیں ہیں جن میں ہر صحابی کی مرویات کو ایک جگہ جمع کیا گیا ہو جیسے مسند احمد بن حنبل وغیرہ۔
معجم:جس میں ایک استاذ کی مرویات کو راوی نے جمع کیا ہو جیسے طبرانی کی معجم وغیرہ۔( حدیث کا یہ ایک مختصر تعارف تھا اس عنوان کے تحت تمام تفصیلات آگےملاحظہ فرمائیں)
================================================
حدیث وسنت.
حدیث کے بارے میں کسی خاص موضوع پر بحث(Discussion)کرنے سے پہلے یہ جاننا چاہیے کہ حدیث کسے کہتے ہیں اور اس سے کیا مراد ہے،اس کے لفظی معنی کیا ہیں،دور اول میں اس سے کیا مراد لی جاتی تھی،دور آخر میں اس کے اصطلاحی معنی کیا رہے ہیں اور علومِ اسلامی میں حدیث کو ہر دور میں کیا اہمیت حاصل رہی ہے؟
حدیث کی اہمیت
قانونِ اسلامی کے مآخذ کی حیثیت سے لفظِ حدیث علمی حلقوں میں محتاج تعارف نہیں، اسلام میں اسے ہمیشہ اساسی اہمیت حاصل رہی ہے اور اس موضوع پر دور قدیم اور دور جدیدمیں خاصا کام ہوا ہے، کام کی وسعت اور تالیفات کی کثرت پتہ دیتی ہے کہ علومِ اسلامی میں حدیث کی طرف ہی رجوع کیا جاتا ہے اور فقہ کی سند حدیث سے ہی لی جاتی ہے اور حق یہ ہے کہ اسے جانے بغیر اسلام کا کوئی موضوع مکمل نہیں ہوتا۔
حدیث سے مراد
حضورؐ کی تعلیمات (قولی،فعلی اور تقریری)از روئے بیان کے ہوں تو حدیث ہے اور از روئے عمل کے ہوں تو سنت کہلاتی ہیں۔
(تقریری:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنےکسی صحابی نے کچھ کیا یا کہااور آپ نے اس پرسکوت فرمایا نکیر نہ کی اور اس سے یہی سمجھا گیاکہ اس عمل یا قول کی حضورﷺ نے تصدیق فرمادی ہے تواسی تصدیق کو "تقریر" confirmationکہتے ہیں اور آپ کی یہ تصدیق تقریری صورت کہلاتی ہے،یہ تقریری حدیث ہے)
حدیث میں بیان کی نسبت غالب ہے اور سنت میں عمل کی نسبت غالب ہے، صحابہ کرامؓ جب اس طریق کی نشاندہی کرتے تھے جس پر حضور اکرمﷺ نے انہیں قائم کیا تو کہتے تھے:
"سَنَّ رَسُولُ اللَّهِﷺ"۔
(ترمذی، بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الْوِتْرَ لَيْسَ بِحَتْمٍ،حدیث نمبر:۴۱۵)
ترجمہ: حضورؐ نے اس امر کو ہمارے لیے راہ عمل بنایا ہے۔
اور جب وہ حضورﷺ کی بات کو نقل کرتے تو کہتے تھے :
"حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"۔
(بخاری، بَاب رَفْعِ الْأَمَانَةِ،حدیث نمبر:۶۰۱۶)
حضورؐ نے اسے ہمارے لیے بیان کیا۔
پس حدیث حضور اکرمﷺ کی تعلیمات کا بیان ہوا،سنت میں نسبت عمل اور حدیث میں نسبت بیان ممتاز رہی۔
(تنویرالحوالک:۱/۴")
حدیث وقدیم کا فرق
عربی میں لفظ حدیث قدیم کے مقابلہ میں بھی ہے،قدیم پُرانے کو کہتے ہیں، اسلامی عقیدے میں قرآن پاک کلام الہٰی ہے جو اللہ تعالی کی صفت ہے اور کلام قدیم ہے یہ مخلوقCREATEDنہیں،لیکن حضور اکرمﷺ کا کلام حدیث ہے قدیم نہیں، آپﷺ بھی اللہ کے بندے اور اس کی مخلوق ہیں، آپ کی ذات حادث ہے قدیم نہیں،ذات قدیم کا کلام قدیم ہوگا اور ذات حادث کے کلام کو حدیث کہتے ہیں، قرآن پاک کا غیر مخلوق ہونا اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے،سو ضروری تھا کہ علم اسلامی کا دوسرا سر چشمہ حدیث کہلائے، تاکہ کلامِ خالق اور کلام ِمخلوق میں اصولی فرق عنوان میں بھی باقی رہے۔
حافظ شمس الدین البخاری لکھتے ہیں:
"والحدیث لغۃ ضد القدیم واصطلاحا ما اضیف الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم قولا لہ اوفعلا اوتقریرا اوصنعۃ حتی الحرکات والسکنات"۔
(فتح المغيث شرح ألفية الحديث:۱/۱۰،شاملہ،الناشر: دارالكتب العلمية،لبنان)
اور حدیث لغت میں لفظ قدیم کی ضد ہے اور اصطلاحاً اس سے ہروہ بات مراد ہے جسے حضورﷺ کی طرف نسبت کیا گیا ہو، قول سے یافعل سے یا اس کی توثیق سے یا صورت سے؛ یہاں تک کہ حرکات وسکنات سے۔
مسلمان کلام قدیم اور کلام حدیث دونوں پر ایمان رکھتے ہیں اور دونوں کو دین میں حجت اور سند سمجھتے ہیں، ان دونوں ماخذوں کی اصل اللہ رب العزت کی ذات ہے، حضور اکرمﷺ نے اللہ تعالی کے نام سے جو کتاب پیش کی وہ قرآن کریم اور کلام قدیم ہے اور اللہ تعالی کی جس ہدایت کو آپ نے اپنے الفاظ یا عمل سے ظاہر فرمایا اسے حدیث کہتے ہیں۔
لفظ حدیث کی قرآنی اصل
اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺپرقرآنی احکام کی تشکیل کے لیے جوراہیں کھولیں، حضور اکرمﷺ نے انہیں امت کے لیے بیان فرمادیا، قرآن کریم آپ کے اس بیان کولفظ حدیث سے پیش کرتا ہے:
"وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ"۔
(الضحٰی:۱۱)
ترجمہ:سو آپ اپنے رب کی نعمت کو آگے بیان کریں۔
اس بیان کرنے کو قرآن کریم نے "حدّث "کے لفظ سے پیش کیا ہے، حدیث کی یہی قرآنی اصل ہے ۔
(تفصیل کے لیے دیکھیے:علامہ عثمانی کی فتح الملہم)
قرآن کریم نے اس ہدایت ربانی اور نعمت یزدانی کے آگے پہنچانے کو "فَحَدِّثْ"کے لفظ سے بیان کیا ہے، جس کے معنی ہیں TRANSMIT IT TO OTHERS آپ اسے دوسروں سے بیان کریں،اس سے واضح ہوتا ہے کہ حضور اکرمﷺ کو تلاوت اور تعلیمِ قرآن کے ساتھ ساتھ حدیث بیان کرنے کا بھی حکم ہوا تھا، ارشاد ہوا کہ جو نعمت اللہ تعالی نے آپ پر کھولی ہے، اسے آپ آگے روایت فرمادیں،شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی یہاں لکھتے ہیں :شاید آپ کے ارشاد وغیرہ کو جو حدیث کہا جاتا ہے وہ اسی لفظ"فَحَدِّثْ"سے لیا گیا ہو۔
(فتح الملہم، مقدمہ الحدیث والخبر والاثر:۱/۵)
لفظ حدیث قبل از اسلام
حدیث کے معنی بات کے ہیں او ران معنی میں یہ لفظ قبل از اسلام عام استعمال ہوتا تھا؛ بلکہ اب تک یہ لفظ اپنے لغوی معنی میں بھی شائع اور رائج ہے؛ لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ یہ لفظ انہی باتوں کے مناسب رہا ہے جن کی یاد باقی رہنے کے لائق سمجھی جائے،آئی اور گئی بات اس لفظ کا مورد نہیں رہی ؛یہی وجہ ہے کہ پیغمبروں کی باتوں کو اس لفظ سے خاص مناسبت رہی ہے، ان کی باتیں باقیات اور آئندہ یاد رکھنے کے لائق ہوتی ہیں، قرآن کریم نے پہلے پیغمبروں کی باتوں کو بھی اسی نام سے ذکر کیا ہے ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس فرشتے مہمانوں کی صورت میں آئے اور قوم لوط پر عذاب لانے کی خبر دی،قرآن کریم حضرت ابراہیمؑ کے مہمانوں کی اس بات کو ان الفاظ میں نقل کرتا ہے:
"ہَلْ اَتٰکَ حَدِیْثُ ضَیْفِ اِبْرٰہِیْمَ الْمُکْرَمِیْنَ"۔
(الذاریات:۲۴)
ترجمہ:کیا پہنچی تجھ کو حدیث(بات)ابراہیم کے مہمانوں کی جوعزت والے تھے۔
قرآن کریم کے الفاظ"ہَلْ اَتٰکَ حَدِيثُ" (الغاشیہ:۱)"ترجمہ:کیا تیرے پاس پہنچی ہے بات" میں یہ ارشاد بھی پایا جاتا ہے کہ حدیث پہلوں سے پچھلوں کو پہنچنی چاہیے اور جو باتیں اس لائق ہوں کہ پہلوں سےپچھلوں کو پہنچیں، لفظ حدیث ان کے لیے مناسب رہنمائی کرتا ہے،قرآن کریم حضرت موسی علیہ السلام کی بات بھی یوں نقل کرتا ہے:
"ہَلْ اَتٰکَ حَدِیْثُ مُوْسٰى"۔
(النازعات:۱۵)
ترجمہ:کیا پہنچی تجھ کو حدیث(بات) موسی علیہ السلام کی۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی فرمایا کہ آپ اپنے پروردگار کے احسانات کو بیان کرتے رہیں۔
(الضحٰی:۱۱)
حدیث کے بارے میں کسی خاص موضوع پر بحث(Discussion)کرنے سے پہلے یہ جاننا چاہیے کہ حدیث کسے کہتے ہیں اور اس سے کیا مراد ہے،اس کے لفظی معنی کیا ہیں،دور اول میں اس سے کیا مراد لی جاتی تھی،دور آخر میں اس کے اصطلاحی معنی کیا رہے ہیں اور علومِ اسلامی میں حدیث کو ہر دور میں کیا اہمیت حاصل رہی ہے؟
حدیث کی اہمیت
قانونِ اسلامی کے مآخذ کی حیثیت سے لفظِ حدیث علمی حلقوں میں محتاج تعارف نہیں، اسلام میں اسے ہمیشہ اساسی اہمیت حاصل رہی ہے اور اس موضوع پر دور قدیم اور دور جدیدمیں خاصا کام ہوا ہے، کام کی وسعت اور تالیفات کی کثرت پتہ دیتی ہے کہ علومِ اسلامی میں حدیث کی طرف ہی رجوع کیا جاتا ہے اور فقہ کی سند حدیث سے ہی لی جاتی ہے اور حق یہ ہے کہ اسے جانے بغیر اسلام کا کوئی موضوع مکمل نہیں ہوتا۔
حدیث سے مراد
حضورؐ کی تعلیمات (قولی،فعلی اور تقریری)از روئے بیان کے ہوں تو حدیث ہے اور از روئے عمل کے ہوں تو سنت کہلاتی ہیں۔
(تقریری:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنےکسی صحابی نے کچھ کیا یا کہااور آپ نے اس پرسکوت فرمایا نکیر نہ کی اور اس سے یہی سمجھا گیاکہ اس عمل یا قول کی حضورﷺ نے تصدیق فرمادی ہے تواسی تصدیق کو "تقریر" confirmationکہتے ہیں اور آپ کی یہ تصدیق تقریری صورت کہلاتی ہے،یہ تقریری حدیث ہے)
حدیث میں بیان کی نسبت غالب ہے اور سنت میں عمل کی نسبت غالب ہے، صحابہ کرامؓ جب اس طریق کی نشاندہی کرتے تھے جس پر حضور اکرمﷺ نے انہیں قائم کیا تو کہتے تھے:
"سَنَّ رَسُولُ اللَّهِﷺ"۔
(ترمذی، بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الْوِتْرَ لَيْسَ بِحَتْمٍ،حدیث نمبر:۴۱۵)
ترجمہ: حضورؐ نے اس امر کو ہمارے لیے راہ عمل بنایا ہے۔
اور جب وہ حضورﷺ کی بات کو نقل کرتے تو کہتے تھے :
"حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"۔
(بخاری، بَاب رَفْعِ الْأَمَانَةِ،حدیث نمبر:۶۰۱۶)
حضورؐ نے اسے ہمارے لیے بیان کیا۔
پس حدیث حضور اکرمﷺ کی تعلیمات کا بیان ہوا،سنت میں نسبت عمل اور حدیث میں نسبت بیان ممتاز رہی۔
(تنویرالحوالک:۱/۴")
حدیث وقدیم کا فرق
عربی میں لفظ حدیث قدیم کے مقابلہ میں بھی ہے،قدیم پُرانے کو کہتے ہیں، اسلامی عقیدے میں قرآن پاک کلام الہٰی ہے جو اللہ تعالی کی صفت ہے اور کلام قدیم ہے یہ مخلوقCREATEDنہیں،لیکن حضور اکرمﷺ کا کلام حدیث ہے قدیم نہیں، آپﷺ بھی اللہ کے بندے اور اس کی مخلوق ہیں، آپ کی ذات حادث ہے قدیم نہیں،ذات قدیم کا کلام قدیم ہوگا اور ذات حادث کے کلام کو حدیث کہتے ہیں، قرآن پاک کا غیر مخلوق ہونا اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے،سو ضروری تھا کہ علم اسلامی کا دوسرا سر چشمہ حدیث کہلائے، تاکہ کلامِ خالق اور کلام ِمخلوق میں اصولی فرق عنوان میں بھی باقی رہے۔
حافظ شمس الدین البخاری لکھتے ہیں:
"والحدیث لغۃ ضد القدیم واصطلاحا ما اضیف الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم قولا لہ اوفعلا اوتقریرا اوصنعۃ حتی الحرکات والسکنات"۔
(فتح المغيث شرح ألفية الحديث:۱/۱۰،شاملہ،الناشر: دارالكتب العلمية،لبنان)
اور حدیث لغت میں لفظ قدیم کی ضد ہے اور اصطلاحاً اس سے ہروہ بات مراد ہے جسے حضورﷺ کی طرف نسبت کیا گیا ہو، قول سے یافعل سے یا اس کی توثیق سے یا صورت سے؛ یہاں تک کہ حرکات وسکنات سے۔
مسلمان کلام قدیم اور کلام حدیث دونوں پر ایمان رکھتے ہیں اور دونوں کو دین میں حجت اور سند سمجھتے ہیں، ان دونوں ماخذوں کی اصل اللہ رب العزت کی ذات ہے، حضور اکرمﷺ نے اللہ تعالی کے نام سے جو کتاب پیش کی وہ قرآن کریم اور کلام قدیم ہے اور اللہ تعالی کی جس ہدایت کو آپ نے اپنے الفاظ یا عمل سے ظاہر فرمایا اسے حدیث کہتے ہیں۔
لفظ حدیث کی قرآنی اصل
اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺپرقرآنی احکام کی تشکیل کے لیے جوراہیں کھولیں، حضور اکرمﷺ نے انہیں امت کے لیے بیان فرمادیا، قرآن کریم آپ کے اس بیان کولفظ حدیث سے پیش کرتا ہے:
"وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ"۔
(الضحٰی:۱۱)
ترجمہ:سو آپ اپنے رب کی نعمت کو آگے بیان کریں۔
اس بیان کرنے کو قرآن کریم نے "حدّث "کے لفظ سے پیش کیا ہے، حدیث کی یہی قرآنی اصل ہے ۔
(تفصیل کے لیے دیکھیے:علامہ عثمانی کی فتح الملہم)
قرآن کریم نے اس ہدایت ربانی اور نعمت یزدانی کے آگے پہنچانے کو "فَحَدِّثْ"کے لفظ سے بیان کیا ہے، جس کے معنی ہیں TRANSMIT IT TO OTHERS آپ اسے دوسروں سے بیان کریں،اس سے واضح ہوتا ہے کہ حضور اکرمﷺ کو تلاوت اور تعلیمِ قرآن کے ساتھ ساتھ حدیث بیان کرنے کا بھی حکم ہوا تھا، ارشاد ہوا کہ جو نعمت اللہ تعالی نے آپ پر کھولی ہے، اسے آپ آگے روایت فرمادیں،شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی یہاں لکھتے ہیں :شاید آپ کے ارشاد وغیرہ کو جو حدیث کہا جاتا ہے وہ اسی لفظ"فَحَدِّثْ"سے لیا گیا ہو۔
(فتح الملہم، مقدمہ الحدیث والخبر والاثر:۱/۵)
لفظ حدیث قبل از اسلام
حدیث کے معنی بات کے ہیں او ران معنی میں یہ لفظ قبل از اسلام عام استعمال ہوتا تھا؛ بلکہ اب تک یہ لفظ اپنے لغوی معنی میں بھی شائع اور رائج ہے؛ لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ یہ لفظ انہی باتوں کے مناسب رہا ہے جن کی یاد باقی رہنے کے لائق سمجھی جائے،آئی اور گئی بات اس لفظ کا مورد نہیں رہی ؛یہی وجہ ہے کہ پیغمبروں کی باتوں کو اس لفظ سے خاص مناسبت رہی ہے، ان کی باتیں باقیات اور آئندہ یاد رکھنے کے لائق ہوتی ہیں، قرآن کریم نے پہلے پیغمبروں کی باتوں کو بھی اسی نام سے ذکر کیا ہے ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس فرشتے مہمانوں کی صورت میں آئے اور قوم لوط پر عذاب لانے کی خبر دی،قرآن کریم حضرت ابراہیمؑ کے مہمانوں کی اس بات کو ان الفاظ میں نقل کرتا ہے:
"ہَلْ اَتٰکَ حَدِیْثُ ضَیْفِ اِبْرٰہِیْمَ الْمُکْرَمِیْنَ"۔
(الذاریات:۲۴)
ترجمہ:کیا پہنچی تجھ کو حدیث(بات)ابراہیم کے مہمانوں کی جوعزت والے تھے۔
قرآن کریم کے الفاظ"ہَلْ اَتٰکَ حَدِيثُ" (الغاشیہ:۱)"ترجمہ:کیا تیرے پاس پہنچی ہے بات" میں یہ ارشاد بھی پایا جاتا ہے کہ حدیث پہلوں سے پچھلوں کو پہنچنی چاہیے اور جو باتیں اس لائق ہوں کہ پہلوں سےپچھلوں کو پہنچیں، لفظ حدیث ان کے لیے مناسب رہنمائی کرتا ہے،قرآن کریم حضرت موسی علیہ السلام کی بات بھی یوں نقل کرتا ہے:
"ہَلْ اَتٰکَ حَدِیْثُ مُوْسٰى"۔
(النازعات:۱۵)
ترجمہ:کیا پہنچی تجھ کو حدیث(بات) موسی علیہ السلام کی۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی فرمایا کہ آپ اپنے پروردگار کے احسانات کو بیان کرتے رہیں۔
(الضحٰی:۱۱)
دور اول میں حدیث سے مراد
اسلام کے پہلے دور میں حدیث کا لفظ حضورﷺ کی تعلیمات کے لیے عام استعمال ہوتا تھا، قرآن کریم کے ساتھ ساتھ حدیث کے الفاظ بھی دینی سر چشمہ ہدایت کے طور پر عام رائج تھے۔
(۱)آنحضرتﷺ نے خود بھی اپنی تعلیمات کے لیے لفظ حدیث استعمال فرمایا۔
(۲)آپ کے سامنے بھی یہ الفاظ ان معنوں میں استعمال ہوتے رہے۔
(۳)صحابہ کرام بھی اسے ان معنوں میں استعمال کرتے رہے۔
(۴)تابعین اور ائمہ مجتہدین کے ہاں بھی اس لفظ کا استعمال عام رہا اور ان تمام امور پر قرن اول کی قوی شہادتیں موجود ہیں، اس سے پتہ چلتا ہے کہ حدیث سر چشمہ ہدایت کے طور پر کسی دور متاخر کی ایجاد نہیں، یہ لفظ اسلام کے دور اول میں اپنی اسی دینی دلالت کے ساتھ پوری طرح شائع اور موجود رہا ہے۔
لفظ حدیث حضورﷺ کی زبان مبارک میں
(۱)آنحضرتﷺ نے ایک دفعہ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے فرمایا:
"لَقَدْ ظَنَنْتُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ أَنْ لَا يَسْأَلُنِي عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ أَحَدٌ أَوَّلُ مِنْكَ لِمَا رَأَيْتُ مِنْ حِرْصِكَ عَلَى الْحَدِيث"۔
(بخاری،بَاب الْحِرْصِ عَلَى الْحَدِيثِ،حدیث نمبر:۹۷، شاملہ،موقع الاسلام)
ترجمہ:اے ابو ہریرہؓ بے شک میرا گمان یہی تھا کہ کوئی شخص تم سے پہلے مجھے اس حدیث کے بارے میں نہ پوچھے گا؛ کیونکہ تمہاری حدیث کی طرف رغبت کو میں جانتا تھا۔
اس حدیث میں حضورﷺ نے اپنے ارشاد کو لفظ حدیث سے بیان فرمایاہے، آپ کا انداز بیان بتلارہا ہے کہ ان دنوں یہ لفظ اپنے ان معنوں میں عام استعمال ہوتا تھا،حضرت ابو ھریرہؓ کی طلب اور حرص بھی یہ بتلاتی ہےکہ حدیث ان دنوں قانون اسلامی کے ماخذ اوردین کا سر چشمۂ علم ہونے کی حیثیت سےمسلم تھی اور صحابہ کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ پوری محنت سےاس کی حفاظت کی جائے، اسے اچھی طرح سمجھا جائے اور یاد رکھا جائے، حدیث کی یہ اہمیت پیش نظر نہ ہوتی تو صحابہ حدیث کی طلب اور اسے یاد رکھنے کی فکر میں یہ اندازاختیار نہ کرتے۔
(۲)حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا :
"نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا فَحَفِظَهُ حَتَّى يُبَلِّغَهُ غَيْرَه"۔
(ترمذی،بَاب مَا جَاءَ فِي الْحَثِّ عَلَى تَبْلِيغِ السَّمَاعِ،حدیث نمبر:۲۵۸۰ شاملہ،موقع الاسلام)
ترجمہ:اللہ تعالی اس شخص کو تازگی بخشیں جس نے ہم سے کو ئی حدیث سنی اسے یاد رکھا؛ یہاں تک کہ اسے کسی دوسرے تک پہنچایا۔
اس ارشاد میں بھی حضورﷺ نے اپنی بات کو لفظ حدیث سے ذکر فرمایا ہے اور اس کی حفاظت کرنے اور اسے آگے پہنچانے کی ترغیب دی ہے ۔
(۳)حضور اکرمﷺ نے یہ بھی فرمایا :
" مَنْ حَدَّثَ عَنِّي بِحَدِيثٍ يُرَى أَنَّهُ كَذِبٌ فَهُوَ أَحَدُ الْكَاذِبِينَ"۔
(مسلم،بَاب وُجُوبِ الرِّوَايَةِ عَنْ الثِّقَات،حدیث نمبر:۱، شاملہ،موقع الاسلام)
ترجمہ:جس نے میرے نام سے کوئی حدیث روایت کی اور اسے پتہ ہو کہ یہ جھوٹ ہے (یعنی وہ بات میں نے نہ کہی ہو)تو وہ ایک جھوٹ بولنے والا آدمی ہے۔
اس روایت میں بھی حضورﷺ نے اپنی بات کولفظ حدیث سے ذکر فرمایا اور یہ بھی بتلایا کہ کوئی شخص گو خود مجھ پر کوئی جھوٹ باندھے لیکن کسی شخص کے باندھے جھوٹ (موضوع روایت)کو میرے نام سے روایت کرے تو اسے اس لیے نظر انداز نہ کیا جائے گا کہ دروغ بر گردن راوی؛بلکہ وہ بھی جھوٹ باندھنے والوں میں سے ایک شمار ہوگا اور اسے وہی گناہ ہوگا جو مجھ پر جھوٹ باندھنے کا گناہ ہے، جولوگ اس جھوٹ کو آگے لے جائیں وہ سب کاذبین (جھوٹے)شمار ہوں گے؛ بہر حال اس روایت میں حضورﷺ نے اپنی بات کوجوآگے بیان ہوگی لفظ حدیث سے ذکر کیا ہے۔
لفظ حدیث حضورؐ کے سامنے صحابہؓ کی زبان سے
(۱)حضرت ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ ایک خاتون حضور اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے عرض کی:
"ذَهَبَ الرِّجَالُ بِحَدِيثِكَ فَاجْعَلْ لَنَا مِنْ نَفْسِكَ يَوْمًا نَأْتِيكَ فِيهِ تُعَلِّمُنَا مِمَّا عَلَّمَكَ اللَّه"۔
(بخاری،بَاب تَعْلِيمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمَّتَهُ مِنْ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ،حدیث نمبر:۶۷۶۶،شاملہ،موقع الاسلام)
ترجمہ:مرد تو آپ کی حدیثیں لے جاتے ہیں،آپ ہمارے لیے بھی کوئی دن مقرر فرمادیں ہم آپ کے پاس اس دن آیا کریں اور اللہ تعالی نے جو آپ کو بتلایا ہے آپ ہمیں بھی پڑھادیا کریں۔
اس روایت سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ اس وقت حضورﷺ کی تعلیمات اور آپ کے ارشادات کو حدیث کہا جاتا تھا،وہاں یہ بھی معلوم ہوا کہ حدیث کا سر چشمہ اللہ کی ذات ہے، آپ جو کچھ فرماتے اللہ تعالی کے بتلانے سے بتلاتے اور یہ بات صحابہ کرام کے ہاں تسلیم شدہ تھی، حضورﷺ حدیث میں وہی رہنمائی پیش فرماتے، جو اللہ تعالی کی طرف سے آپ کے قلب میں القاء کی جاتی، حدیث میں بھی ربانی ہدایت divine lement شامل تھی۔
(۲)حضرت ابو ھریرہ ؓ نے حضور اکرمﷺ کے سامنے عرض کیا:
"إِنِّي أَسْمَعُ مِنْكَ حَدِيثًا كَثِيرًا أَنْسَاهُ قَالَ ابْسُطْ رِدَاءَكَ فَبَسَطْتُهُ قَالَ فَغَرَفَ بِيَدَيْهِ ثُمَّ قَالَ ضُمَّهُ فَضَمَمْتُهُ فَمَا نَسِيتُ شَيْئًا بَعْدَهُ "۔
(بخاری،بَاب حِفْظِ الْعِلْمِ،حدیث نمبر:۱۱۶، شاملہ،موقع الاسلام)
ترجمہ:میں آپ سے بہت حدیثیں سنتا ہوں جنہیں بھول جاتا ہوں،اس پر آپ نے فرمایا: اپنی چادر پھیلاؤ میں نے پھیلادی،آپ نے ہاتھوں سے اس میں کوئی چیز ڈالی اور فرمایا اسے لپیٹ لو، میں نے اسے لپیٹ لیا اس کے بعد میں کبھی نہیں بھولا۔
ان روایات میں حضور پاکﷺ کے ارشادات کے لیے صریح طور پر حدیث کا لفظ ملتا ہے۔
(۳)ام المؤمنین حضرت ام حبیبہ ؓ کہتی ہیں کہ ہم حضورﷺ کی باتیں آپس میں کرتی تھیں اسے آپ نے حدیث سے ذکر کیا اورحضورﷺکےسامنے بھی اسے اسی طرح بیان کیا:
"إِنَّا قَدْ تَحَدَّثْنَا أَنَّكَ نَاكِحٌ دُرَّةَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعَلَى أُمِّ سَلَمَةَ لَوْ لَمْ أَنْكِحْ أُمَّ سَلَمَةَ مَا حَلَّتْ لِي إِنَّ أَبَاهَا أَخِي مِنْ الرَّضَاعَةِ "۔
ترجمہ:ہم آپس میں باتیں کررہی تھیں کہ آپ ابو سلمہ کی بیٹی درہ سے نکاح کرنے والے ہیں، حضورﷺ نے فرمایا:کیامیں اس سے اس کے باوجود نکاح کرسکتا ہوں کہ (ان کی ماں) ام سلمہ میرے نکاح میں پہلے ہی سے موجود ہے؟اگرمیں ام سلمہؓ سے نکاح نہ کیے ہوتاجب بھی وہ(درہ) میرے لیے حلال نہیں تھی ؛کیونکہ اس کےوالد( ابو سلمہ) میرے رضاعی بھائی تھے، (یعنی اس جہت سے درہ میری بھتیجی ٹھہرتی ہے اور اس سے نکاح نہیں ہوسکتا ہے)۔
ذخیرۂ حدیث میں اس قسم کی متعدد روایات ملتی ہیں،ان سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام حضورﷺ کے سامنے آپ کے ارشادات کو حدیث کہتے تھے، انہیں یاد رکھتے انہیں آگے روایت کرتے اور آپﷺ کے بعد بھی آپ کی تعلیمات اور آپ کی روایات کو حدیث ہی کہتے رہے اوراس کی روایت میں پوری فکر او راحتیاط کی تلقین کرتے رہے۔
لفظ حدیث حضورﷺ کے بعد صحابہؓ کی زبان سے
حضرت انس بن مالک ؓ (۹۳ھ)روایت حدیث میں اپنے زیادہ محتاط ہونے کی وجہ بیان فرماتے ہیں:
"إِنَّهُ لَيَمْنَعُنِي أَنْ أُحَدِّثَكُمْ حَدِيثًا كَثِيرًا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ تَعَمَّدَ عَلَيَّ كَذِبًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ"۔
(بخاری،بَاب إِثْمِ مَنْ كَذَبَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،حدیث نمبر:۱۰۵،شاملہ، مواقع الاسلام)
ترجمہ:یہ بات مجھے زیادہ حدیثیں بیان کرنے سے روکتی ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا تھا: جس نے مجھ پر کوئی جھوٹ باندھا اسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔
اسلام کے پہلے دور میں حدیث کا لفظ حضورﷺ کی تعلیمات کے لیے عام استعمال ہوتا تھا، قرآن کریم کے ساتھ ساتھ حدیث کے الفاظ بھی دینی سر چشمہ ہدایت کے طور پر عام رائج تھے۔
(۱)آنحضرتﷺ نے خود بھی اپنی تعلیمات کے لیے لفظ حدیث استعمال فرمایا۔
(۲)آپ کے سامنے بھی یہ الفاظ ان معنوں میں استعمال ہوتے رہے۔
(۳)صحابہ کرام بھی اسے ان معنوں میں استعمال کرتے رہے۔
(۴)تابعین اور ائمہ مجتہدین کے ہاں بھی اس لفظ کا استعمال عام رہا اور ان تمام امور پر قرن اول کی قوی شہادتیں موجود ہیں، اس سے پتہ چلتا ہے کہ حدیث سر چشمہ ہدایت کے طور پر کسی دور متاخر کی ایجاد نہیں، یہ لفظ اسلام کے دور اول میں اپنی اسی دینی دلالت کے ساتھ پوری طرح شائع اور موجود رہا ہے۔
لفظ حدیث حضورﷺ کی زبان مبارک میں
(۱)آنحضرتﷺ نے ایک دفعہ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے فرمایا:
"لَقَدْ ظَنَنْتُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ أَنْ لَا يَسْأَلُنِي عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ أَحَدٌ أَوَّلُ مِنْكَ لِمَا رَأَيْتُ مِنْ حِرْصِكَ عَلَى الْحَدِيث"۔
(بخاری،بَاب الْحِرْصِ عَلَى الْحَدِيثِ،حدیث نمبر:۹۷، شاملہ،موقع الاسلام)
ترجمہ:اے ابو ہریرہؓ بے شک میرا گمان یہی تھا کہ کوئی شخص تم سے پہلے مجھے اس حدیث کے بارے میں نہ پوچھے گا؛ کیونکہ تمہاری حدیث کی طرف رغبت کو میں جانتا تھا۔
اس حدیث میں حضورﷺ نے اپنے ارشاد کو لفظ حدیث سے بیان فرمایاہے، آپ کا انداز بیان بتلارہا ہے کہ ان دنوں یہ لفظ اپنے ان معنوں میں عام استعمال ہوتا تھا،حضرت ابو ھریرہؓ کی طلب اور حرص بھی یہ بتلاتی ہےکہ حدیث ان دنوں قانون اسلامی کے ماخذ اوردین کا سر چشمۂ علم ہونے کی حیثیت سےمسلم تھی اور صحابہ کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ پوری محنت سےاس کی حفاظت کی جائے، اسے اچھی طرح سمجھا جائے اور یاد رکھا جائے، حدیث کی یہ اہمیت پیش نظر نہ ہوتی تو صحابہ حدیث کی طلب اور اسے یاد رکھنے کی فکر میں یہ اندازاختیار نہ کرتے۔
(۲)حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا :
"نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا فَحَفِظَهُ حَتَّى يُبَلِّغَهُ غَيْرَه"۔
(ترمذی،بَاب مَا جَاءَ فِي الْحَثِّ عَلَى تَبْلِيغِ السَّمَاعِ،حدیث نمبر:۲۵۸۰ شاملہ،موقع الاسلام)
ترجمہ:اللہ تعالی اس شخص کو تازگی بخشیں جس نے ہم سے کو ئی حدیث سنی اسے یاد رکھا؛ یہاں تک کہ اسے کسی دوسرے تک پہنچایا۔
اس ارشاد میں بھی حضورﷺ نے اپنی بات کو لفظ حدیث سے ذکر فرمایا ہے اور اس کی حفاظت کرنے اور اسے آگے پہنچانے کی ترغیب دی ہے ۔
(۳)حضور اکرمﷺ نے یہ بھی فرمایا :
" مَنْ حَدَّثَ عَنِّي بِحَدِيثٍ يُرَى أَنَّهُ كَذِبٌ فَهُوَ أَحَدُ الْكَاذِبِينَ"۔
(مسلم،بَاب وُجُوبِ الرِّوَايَةِ عَنْ الثِّقَات،حدیث نمبر:۱، شاملہ،موقع الاسلام)
ترجمہ:جس نے میرے نام سے کوئی حدیث روایت کی اور اسے پتہ ہو کہ یہ جھوٹ ہے (یعنی وہ بات میں نے نہ کہی ہو)تو وہ ایک جھوٹ بولنے والا آدمی ہے۔
اس روایت میں بھی حضورﷺ نے اپنی بات کولفظ حدیث سے ذکر فرمایا اور یہ بھی بتلایا کہ کوئی شخص گو خود مجھ پر کوئی جھوٹ باندھے لیکن کسی شخص کے باندھے جھوٹ (موضوع روایت)کو میرے نام سے روایت کرے تو اسے اس لیے نظر انداز نہ کیا جائے گا کہ دروغ بر گردن راوی؛بلکہ وہ بھی جھوٹ باندھنے والوں میں سے ایک شمار ہوگا اور اسے وہی گناہ ہوگا جو مجھ پر جھوٹ باندھنے کا گناہ ہے، جولوگ اس جھوٹ کو آگے لے جائیں وہ سب کاذبین (جھوٹے)شمار ہوں گے؛ بہر حال اس روایت میں حضورﷺ نے اپنی بات کوجوآگے بیان ہوگی لفظ حدیث سے ذکر کیا ہے۔
لفظ حدیث حضورؐ کے سامنے صحابہؓ کی زبان سے
(۱)حضرت ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ ایک خاتون حضور اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے عرض کی:
"ذَهَبَ الرِّجَالُ بِحَدِيثِكَ فَاجْعَلْ لَنَا مِنْ نَفْسِكَ يَوْمًا نَأْتِيكَ فِيهِ تُعَلِّمُنَا مِمَّا عَلَّمَكَ اللَّه"۔
(بخاری،بَاب تَعْلِيمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمَّتَهُ مِنْ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ،حدیث نمبر:۶۷۶۶،شاملہ،موقع الاسلام)
ترجمہ:مرد تو آپ کی حدیثیں لے جاتے ہیں،آپ ہمارے لیے بھی کوئی دن مقرر فرمادیں ہم آپ کے پاس اس دن آیا کریں اور اللہ تعالی نے جو آپ کو بتلایا ہے آپ ہمیں بھی پڑھادیا کریں۔
اس روایت سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ اس وقت حضورﷺ کی تعلیمات اور آپ کے ارشادات کو حدیث کہا جاتا تھا،وہاں یہ بھی معلوم ہوا کہ حدیث کا سر چشمہ اللہ کی ذات ہے، آپ جو کچھ فرماتے اللہ تعالی کے بتلانے سے بتلاتے اور یہ بات صحابہ کرام کے ہاں تسلیم شدہ تھی، حضورﷺ حدیث میں وہی رہنمائی پیش فرماتے، جو اللہ تعالی کی طرف سے آپ کے قلب میں القاء کی جاتی، حدیث میں بھی ربانی ہدایت divine lement شامل تھی۔
(۲)حضرت ابو ھریرہ ؓ نے حضور اکرمﷺ کے سامنے عرض کیا:
"إِنِّي أَسْمَعُ مِنْكَ حَدِيثًا كَثِيرًا أَنْسَاهُ قَالَ ابْسُطْ رِدَاءَكَ فَبَسَطْتُهُ قَالَ فَغَرَفَ بِيَدَيْهِ ثُمَّ قَالَ ضُمَّهُ فَضَمَمْتُهُ فَمَا نَسِيتُ شَيْئًا بَعْدَهُ "۔
(بخاری،بَاب حِفْظِ الْعِلْمِ،حدیث نمبر:۱۱۶، شاملہ،موقع الاسلام)
ترجمہ:میں آپ سے بہت حدیثیں سنتا ہوں جنہیں بھول جاتا ہوں،اس پر آپ نے فرمایا: اپنی چادر پھیلاؤ میں نے پھیلادی،آپ نے ہاتھوں سے اس میں کوئی چیز ڈالی اور فرمایا اسے لپیٹ لو، میں نے اسے لپیٹ لیا اس کے بعد میں کبھی نہیں بھولا۔
ان روایات میں حضور پاکﷺ کے ارشادات کے لیے صریح طور پر حدیث کا لفظ ملتا ہے۔
(۳)ام المؤمنین حضرت ام حبیبہ ؓ کہتی ہیں کہ ہم حضورﷺ کی باتیں آپس میں کرتی تھیں اسے آپ نے حدیث سے ذکر کیا اورحضورﷺکےسامنے بھی اسے اسی طرح بیان کیا:
"إِنَّا قَدْ تَحَدَّثْنَا أَنَّكَ نَاكِحٌ دُرَّةَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعَلَى أُمِّ سَلَمَةَ لَوْ لَمْ أَنْكِحْ أُمَّ سَلَمَةَ مَا حَلَّتْ لِي إِنَّ أَبَاهَا أَخِي مِنْ الرَّضَاعَةِ "۔
ترجمہ:ہم آپس میں باتیں کررہی تھیں کہ آپ ابو سلمہ کی بیٹی درہ سے نکاح کرنے والے ہیں، حضورﷺ نے فرمایا:کیامیں اس سے اس کے باوجود نکاح کرسکتا ہوں کہ (ان کی ماں) ام سلمہ میرے نکاح میں پہلے ہی سے موجود ہے؟اگرمیں ام سلمہؓ سے نکاح نہ کیے ہوتاجب بھی وہ(درہ) میرے لیے حلال نہیں تھی ؛کیونکہ اس کےوالد( ابو سلمہ) میرے رضاعی بھائی تھے، (یعنی اس جہت سے درہ میری بھتیجی ٹھہرتی ہے اور اس سے نکاح نہیں ہوسکتا ہے)۔
ذخیرۂ حدیث میں اس قسم کی متعدد روایات ملتی ہیں،ان سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام حضورﷺ کے سامنے آپ کے ارشادات کو حدیث کہتے تھے، انہیں یاد رکھتے انہیں آگے روایت کرتے اور آپﷺ کے بعد بھی آپ کی تعلیمات اور آپ کی روایات کو حدیث ہی کہتے رہے اوراس کی روایت میں پوری فکر او راحتیاط کی تلقین کرتے رہے۔
لفظ حدیث حضورﷺ کے بعد صحابہؓ کی زبان سے
حضرت انس بن مالک ؓ (۹۳ھ)روایت حدیث میں اپنے زیادہ محتاط ہونے کی وجہ بیان فرماتے ہیں:
"إِنَّهُ لَيَمْنَعُنِي أَنْ أُحَدِّثَكُمْ حَدِيثًا كَثِيرًا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ تَعَمَّدَ عَلَيَّ كَذِبًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ"۔
(بخاری،بَاب إِثْمِ مَنْ كَذَبَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،حدیث نمبر:۱۰۵،شاملہ، مواقع الاسلام)
ترجمہ:یہ بات مجھے زیادہ حدیثیں بیان کرنے سے روکتی ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا تھا: جس نے مجھ پر کوئی جھوٹ باندھا اسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔
دور آخر میں لفظ حدیث سے مراد
جب علم حدیث کتابوں اور تحریرات میں مدون ہوگیا تو اسے زبانی یاد رکھنے اور اس کی نقل وروایت میں اس محنت کی ضرورت نہ رہی جو اس علم کی باقاعدہ تدوین سے پہلے دینی اور علمی نقطۂ نظر سے بہت ضروری تھی ؛لیکن اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ زبانی نقل وروایت کی اصولی حیثیت باقی نہ رہی تھی ؛بلکہ یہ حقیقت ہے کہ یہ تحریرات حدیث اپنے پورے تحفظ کے ساتھ ساتھ زندہ استادوں سے زندہ شاگردوں تک منتقل ہوتی تھیں اور دین قیم کا علمی ذخیرہ بیان وروایت کی پوری شان اور حفظ وضبط کے پورے اہتمام کے ساتھ آگے بڑھتا رہا ہے؛لیکن حالات کی اس فطری گردش اور تحریرات حدیث کی اس اصولی سہولت نے محض زبانی یادداشت کو پیچھے چھوڑ دیا اور پھر ایک ایسا دور آیا کہ حدیث سے مراد یہی تحریرات،حدیث documentary evidenceمراد لی جانے لگیں اور پھر اسلامی قانونی بحثوں legal decisionsمیں یہی تحریرات بطور حجت وسند کافی سمجھی جانے لگیں اور یہ ضرورت نہ رہی کہ ان کے ساتھ زبانی تحدیث کا پہلو بھی شامل رہے یہ دور آخر کی اصطلاح ہے کہ حدیث سے حدیث کے علاوہ تحریرات حدیث بھی مراد لی جانے لگیں، حدیث کا دور اول اور دور آخر کا یہ تعارف آپ کے سامنے ہے۔
اصطلاح میں ایک فرق
ملحوظ رہے کہ "علماء اصول فقہ" حدیث کو حضورﷺ کے اقوال، افعال اور آپ کی تقریرمیں محدود سمجھتے ہیں،آپ کے ان حالات کو جو شریعت اور قانون کا عنوان نہیں بنتے(جیسے آپ کا حلیہ مبارک،ولادت اور وفات کے واقعات"وغیرہا من الامورالغیر الاختیاریۃ") حدیث کے تحت داخل نہیں کرتے؛ لیکن یہ صرف علماءاصول کا موقف ہے، محدثین کے ہاں یہ سب امور بھی حدیث کے تحت داخل ہیں اور وہ انہیں باقاعدہ روایت کرتے ہیں، علامہ طاہر بن صالح الجزائری نے "توجیہ النظر فی اصول الاثر"میں اس پرتنبیہ کی ہے۔
چند اور متقارب الفاظ
ابتدائی دور میں حدیث کے لیے اثر اور خبر کے الفاظ بھی لے آتے تھے؛ لیکن بعد میں ان میں بھی کچھ فرق کیا جانے لگا، بعض علماء حضورﷺ کی بات کے لیے حدیث کا لفظ اور صحابہ کی بات کے لیے اثر کا لفظ استعمال کرتے تھے، امام غزالیؒ نے احیاء علوم الدین میں یہی طریق اختیار کیا ہے؛ لیکن امام طحاوی شرح معانی الآثار اور مشکل الآثار میں اثر کا لفظ آنحضرتﷺ کی تعلیمات اور صحابہ کی روایات کے لیے بھی برابر استعمال کرتے تھے، علامہ نووی لکھتے ہیں کہ جمہور علماء کے نزدیک حدیث اور اثر میں کوئی فرق نہیں ہے۔
(شرح مسلم النووی:۱/۹۳)
لفظ سنت کا استعمال
حدیث اپنے عمل کے پہلو سے سنت sunnath کہلاتی ہےاور یہ اطلاق ہر مکتب ِفکرمیں عام رہا ہے، سنت کے لفظی معنی راہ عمل کے ہیں اسے واضحہ(شاہراہ)بھی کہا گیا ہے۔
"أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ سُنَّتْ لَكُمْ السُّنَنُ وَفُرِضَتْ لَكُمْ الْفَرَائِضُ وَتُرِكْتُمْ عَلَى الْوَاضِحَةِ"۔
(مؤطاامام مالک، باب ماجاء في الرجم، حدیث نمبر:۱۲۹۷،شاملہ،موقع الاسلام)
حضورﷺ نے اپنے طریق عمل کے لیے خود بھی لفظ سنت استعمال کیا ہے۔
حضورﷺ کی زبان مبارک سے
(۱)حضرت انس بن مالکؓ(۹۳ھ)کہتے ہیں کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا :
"اَصُوْمُ وَأُفْطِرُ وَأُصَلِّي وَأَرْقُدُ وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي"۔
(بخاری،بَاب التَّرْغِيبِ فِي النِّكَاحِ، حدیث نمبر:۴۶۷۵،شاملہ،موقع الاسلام)
ترجمہ:میں روزے رکھتا اور چھوڑتا بھی ہوں،تہجد بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور نکاح بھی کیے ہیں، جو میری سنت سے منہ پھیرے وہ مجھ سے نہیں۔
اس حدیث میں آپﷺ نے اپنے طریق کو سنت کے لفظ سے بیان فرمایا ہے اور یہ بھی بتلایا ہے کہ سنت اس لیے ہے کہ امت کے لیے نمونہ ہو اور وہ اسے سند سمجھیں، جو آپ کے طریقے سے منہ پھیرے اور اسے اپنے لیے سند نہ سمجھے وہ آپ کی جماعت میں سے نہیں ہے۔
(۲)ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ:
"اَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ إِلَى عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ فَجَاءَهُ فَقَالَ يَا عُثْمَانُ أَرَغِبْتَ عَنْ سُنَّتِي قَالَ لَا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلَكِنْ سُنَّتَكَ أَطْلُبُ قَالَ فَإِنِّي أَنَامُ وَأُصَلِّي وَأَصُومُ وَأُفْطِرُ،الخ"۔
(ابو داؤد،بَاب مَا يُؤْمَرُ بِهِ مِنْ الْقَصْدِ فِي الصَّلَاةِ،حدیث نمبر:۱۱۶۲،شاملہ،موقع الاسلام)
ترجمہ:نبیﷺ نے کسی کو حضرت عثمان بن مظعون کو بلانے کے لیے بھیجا، حضرت عثمانؓ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ نے کہا اے عثمان! کیا تم میری سنت سے ہٹنا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا: نہیں! خدا کی قسم اے اللہ کے رسول ؛بلکہ میں آپ کی سنت کا طلب گار ہوں، آپ نے فرمایا:میں سوتا بھی ہوں اور نماز کے لیے جاگتا ہوں،روزے بھی رکھتا ہوں اور انہیں چھوڑتا بھی ہوں ۔
حضور اکرمﷺ نے حضرت بلال بن حارث رضی اللہ عنہ کو فرمایا:
"مَنْ أَحْيَا سُنَّةً مِنْ سُنَّتِي قَدْأُمِيتَتْ بَعْدِي فَإِنَّ لَهُ مِنْ الْأَجْرِ مِثْلَ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا وَمَنْ ابْتَدَعَ بِدْعَةَ ضَلَالَةٍ لَاتُرْضِي اللَّهَ وَرَسُولَهُ كَانَ عَلَيْهِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ عَمِلَ بِهَا لَايَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أَوْزَارِ النَّاسِ شَيْئًا"۔
(ترمذی،بَاب مَا جَاءَ فِي الْأَخْذِ بِالسُّنَّةِ وَاجْتِنَابِ الْبِدَعِ،حدیث نمبر:۲۶۰۱،شاملہ،موقع الاسلام)
ترجمہ:جس نے میری کوئی سنت زندہ کی جو میرے بعد چھوڑدی گئی ہو تو اسے ان تمام لوگوں کے برابر اجر ملے گا جو اس پر عمل کریں گے بغیر اس کے کہ عمل کرنے والوں کے اجر میں کوئی کمی ہو اورجس نے کوئی غلط راہ نکالی جس پر اللہ اور اس کے رسول کی رضا مندی موجود نہیں تو اسے ان تمام لوگوں کے گناہوں کا بوجھ ہوگا جو اس پر عمل کریں گے بغیر اس کے کہ ان کے بوجھ میں کمی آئے۔
اس حدیث میں دین کی فروعی باتوں کو بھی سنت کہا ہے اور انہیں زندہ رکھنے کی تلقین کی ہے،دین اسلام ایک زندہ مذہب ہے اور اس کے اصول ہمیشہ زندہ رہنے چاہئیں، ان پر کبھی موت نہیں آسکتی، اسلام کا تاریخ کے ہر دور میں قائم وباقی رہنا ضروری ہے اور یہی اس کی مسلسل زندگی ہے ایک فرع دب گئی تو دوسری ضرور زندہ ہوگی یہ نہیں ہوسکتا کہ اصول کی تمام کڑیاں ایک ایک کرکے ٹوٹتی جائیں، ہاں! یہ ہوسکتا ہے کہ ایک فرع دبنے لگے اور اس پر عمل ترک ہوجائے ؛لیکن اسے پھر سے زندہ کرنے کا اسلام میں پورا اہتمام کیا جائے گا، حضورﷺ کی ہدایت اسے پھر سے زندہ کرنے کی ایک بڑی بشارت ہے، ناممکن ہے کہ کل مسلمان کسی سنت سے ناآشنا رہیں، امام شافعیؒ فرماتے ہیں:
"فنعلم أن المسلمين كلهم لا يجهلون سنة"۔
(کتاب الام:۷/۳۰۵،شاملہ،موقع یعسوب)
ترجمہ:ہم یقینی طور پر جانتے ہیں کہ سارے کے سارے مسلمان کبھی بھی سنت سے ناآشنا نہیں رہ سکتے۔
سنت کی نسبت دوسرے صحابہؓ کی طرف
آپﷺکو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے ایک عمل کی اطلاع ملی،آپ نے اسے ان الفاظ میں پروانۂ منظوری دیا:
"إن ابن مسعود سن لكم سنة فاستنوا بها"۔
(مصنف عبدالزاق:۲/۲۲۹،شاملہ،موقع یعسوب)
ترجمہ:بیشک ابن مسعودؓ نے تمہارے لیے ایک سنت قائم کی ہے، تم اس پر چلو۔
ایک دفعہ حضرت معاذ بن جبلؓ کے ایک عمل کے بارے میں فرمایا:
"إِنَّ مُعَاذًا قَدْ سَنَّ لَكُمْ سُنَّةً كَذَلِكَ فَافْعَلُوا"۔
(ابو داؤد،بَاب كَيْفَ الْأَذَانُ،حدیث نمبر:۴۲۶شاملہ،موقع الاسلام)
ترجمہ:بےشک معاذ نے تمہارے لیے ایک سنت قائم کردی ہے، اسی طرح تم اس پر عمل کرو۔
اس قسم کی روایات میں آنحضرتﷺ نے صحیح طور پر لفظ سنت دوسرے صحابہ کے لیےاستعمال کیا ہے؛ پھر صحابہ کرامؓ بھی اکابر صحابہ کے عمل وفیصلےپر سنت کا لفظ بولتے تھے۔
لفظ سنت کا استعمال صحابہؓ کی زبان سے
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ آنحضرتﷺ کے طور وطریق اور قول وعمل کو اپنے لیے سنت اور راہ عمل سمجھتے تھے، ان کے ہاں حضورﷺ کی پیروی صرف ان کے امیر سلطنت ہونے کی حیثیت سے ہوتی تو حضورﷺ کے بعد آپ کے طریق کو اپنے لیے سند اورسنت نہ سمجھتے،صحابہ نے تو اکابر صحابہ کرام کے عمل کے لیے بھی لفظ سنت استعمال کیا ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ کی شخصیتوں سے کون واقف نہیں،حضرت عمرؓ نے کوفہ میں چھاؤنی قائم کی تو وہاں عام آبادی نے بھی جگہ پائی؛ پھر آپﷺنے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کو وہاں معلم بناکر بھیجا اور آپ نے وہاں ایک عظیم درسگاہ قائم کی؛ پھر حضرت علی ؓبھی اپنے عہد خلافت میں وہاں جاکر آباد ہوئے، ان دونوں کہ ہاں لفظ سنت انہی معنوں میں رائج اور مستعمل تھا۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ایک موقع پر فرماتے ہیں :
"وَلَوْأَنَّكُمْ صَلَّيْتُمْ فِي بُيُوتِكُمْ كَمَا يُصَلِّي هَذَا الْمُتَخَلِّفُ فِي بَيْتِهِ لَتَرَكْتُمْ سُنَّةَ نَبِيِّكُمْ وَلَوْتَرَكْتُمْ سُنَّةَ نَبِيِّكُمْ لَضَلَلْتُمْ"۔
(مسلم،بَاب صَلَاةِ الْجَمَاعَةِ مِنْ سُنَنِ الْهُدَى،حدیث نمبر:۱۰۴۶،شاملہ،موقع الاسلام)
ترجمہ:اور اگر تم اپنے گھروں میں نماز پڑھ لیا کروجیسا کہ یہ پیچھے رہ جانے والا کررہا ہے تو تم اپنے نبی کی سنت چھوڑدوگے اور اگر تم نے اپنے نبی کی سنت چھوڑدی تو تم گمراہ ہوجاؤگے۔
حضرت ابوبکرؓ وحضرت عمرؓ کے عمل کے لیے سنت کا لفظ
حصین بن المنذرابو ساسان کہتے ہیں کہ جب ولید کو حد مارنے کے لیے حضرت عثمان ؓ کے پاس لایا گیا تو وہاں میں موجود تھا، آپؓ نے حضرت علی مرتضیؓ کو حکم دیا کہ ولید کو کوڑے لگائیں، انہوں نے اپنے بیٹے حضرت حسن سے کہا کہ وہ کوڑے لگائیں؛انہوں نے عذر کیا تو پھر آپ ؓنے عبداللہ بن جعفرؓ سے کہا کہ وہ ولید پر حد جاری کریں، حضرت عبداللہ بن جعفرؓ کوڑے لگاتے جاتے تھے اور حضرت علی گنتے جاتے تھے جب چالیس ہوئے تو حضرت علی ؓ نے فرمایا بس !یہیں تک اور فرمایا:
"جَلَدَ النَّبِيُّﷺ أَرْبَعِينَ وَجَلَدَ أَبُو بَكْرٍ أَرْبَعِينَ وَعُمَرُ ثَمَانِينَ وَكُلٌّ سُنَّةٌ"۔
(مسلم،بَاب حَدِّ الْخَمْرِ،حدیث نمبر:۳۲۲۰،شاملہ،موقع الاسلام)
ترجمہ:آنحضرتﷺ نے (شراب پینے والے پر)چالیس کوڑوں کا حکم فرمایا، حضرت ابوبکرؓ بھی چالیس کوڑوں کا ہی حکم دیتے رہے،حضرت عمرؓ نے اسی کوڑوں کا حکم دیا اور ان میں سے ہرایک حکم سنت شمار ہوگا۔
اس روایت میں جہاں اس بات کی شہادت ملتی ہے کہ حضرت عثمانؓ کے عہد خلافت تک حضرت علی ؓ خلفاءثلٰثہ کے ساتھ امور سلطنت میں برابر شریک رہتے تھے اور حضرت عمرؓ کے عمل کو سنت تک کا درجہ دیتے تھے وہاں اس بات کی بھی پوری تائید ملتی ہے کہ لفظ سنت اس دورمیں اکابر صحابہ کے عمل تک کو بھی شامل تھا۔
خلفائے راشدین کے عمل کے لیے سنت کا لفظ
آنحضرتﷺ نے اپنی زبان مبارک سے بھی خلفائے راشدین کے عمل پر لفظ سنت کا اطلاق فرمایا ہے،حضرت عرباض بن ساریہؓ(۷۵ھ) کی روایت میں حضور اکرمﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ:
"فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْكُمْ فَعَلَيْهِ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ"۔
(ترمذی،بَاب مَا جَاءَ فِي الْأَخْذِ بِالسُّنَّةِ وَاجْتِنَابِ الْبِدَعِ،حدیث نمبر:۲۶۰۰،شاملہ،موقع الاسلام)
ترجمہ:سو جو تم میں سے یہ زمانہ پائے اسے لازم ہے کہ میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑے۔
امت میں خلفائے راشدین کے عمل کے لیے سنت کا لفظ عام شائع وذائع ہے اور امت اپنے قانونی ابواب میں ہمیشہ سے سند تسلیم کرتی آئی ہے۔
سنت اور حدیث میں فرق
سنت کا لفظ ایسے عمل متوارث پر بھی بولا جاتا ہے جس میں نسخ کا کوئی احتمال نہ ہو،حدیث کبھی ناسخ ہوتی ہےکبھی منسوخ؛ مگرسنت کبھی منسوخ نہیں ہوتی، سنت ہے ہی وہ جس میں توارث ہواور تسلسلِ تعامل ہو،حدیث کبھی ضعیف بھی ہوتی ہے کبھی صحیح، یہ صحت وضعف کا فرق ایک علمی مرتبہ ہے،ایک علمی درجہ کی بات ہے، بخلاف سنت کے کہ اس میں ہمیشہ عمل نمایاں رہتا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے مسلک کے لحاظ سے اپنی نسبت ہمیشہ سنت کی طرف کی ہےاور اہل سنت کہلاتے ہیں، حدیث کی طرف جن کی نسبت ہوئی اس سے ان کا محض ایک علمی تعارف ہوتا رہتا ہے اور اس سے مراد محدثین سمجھے گئے ہیں، مسلکاً یہ حضرات اہلسنت شمار ہوتے تھے۔
جب علم حدیث کتابوں اور تحریرات میں مدون ہوگیا تو اسے زبانی یاد رکھنے اور اس کی نقل وروایت میں اس محنت کی ضرورت نہ رہی جو اس علم کی باقاعدہ تدوین سے پہلے دینی اور علمی نقطۂ نظر سے بہت ضروری تھی ؛لیکن اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ زبانی نقل وروایت کی اصولی حیثیت باقی نہ رہی تھی ؛بلکہ یہ حقیقت ہے کہ یہ تحریرات حدیث اپنے پورے تحفظ کے ساتھ ساتھ زندہ استادوں سے زندہ شاگردوں تک منتقل ہوتی تھیں اور دین قیم کا علمی ذخیرہ بیان وروایت کی پوری شان اور حفظ وضبط کے پورے اہتمام کے ساتھ آگے بڑھتا رہا ہے؛لیکن حالات کی اس فطری گردش اور تحریرات حدیث کی اس اصولی سہولت نے محض زبانی یادداشت کو پیچھے چھوڑ دیا اور پھر ایک ایسا دور آیا کہ حدیث سے مراد یہی تحریرات،حدیث documentary evidenceمراد لی جانے لگیں اور پھر اسلامی قانونی بحثوں legal decisionsمیں یہی تحریرات بطور حجت وسند کافی سمجھی جانے لگیں اور یہ ضرورت نہ رہی کہ ان کے ساتھ زبانی تحدیث کا پہلو بھی شامل رہے یہ دور آخر کی اصطلاح ہے کہ حدیث سے حدیث کے علاوہ تحریرات حدیث بھی مراد لی جانے لگیں، حدیث کا دور اول اور دور آخر کا یہ تعارف آپ کے سامنے ہے۔
اصطلاح میں ایک فرق
ملحوظ رہے کہ "علماء اصول فقہ" حدیث کو حضورﷺ کے اقوال، افعال اور آپ کی تقریرمیں محدود سمجھتے ہیں،آپ کے ان حالات کو جو شریعت اور قانون کا عنوان نہیں بنتے(جیسے آپ کا حلیہ مبارک،ولادت اور وفات کے واقعات"وغیرہا من الامورالغیر الاختیاریۃ") حدیث کے تحت داخل نہیں کرتے؛ لیکن یہ صرف علماءاصول کا موقف ہے، محدثین کے ہاں یہ سب امور بھی حدیث کے تحت داخل ہیں اور وہ انہیں باقاعدہ روایت کرتے ہیں، علامہ طاہر بن صالح الجزائری نے "توجیہ النظر فی اصول الاثر"میں اس پرتنبیہ کی ہے۔
چند اور متقارب الفاظ
ابتدائی دور میں حدیث کے لیے اثر اور خبر کے الفاظ بھی لے آتے تھے؛ لیکن بعد میں ان میں بھی کچھ فرق کیا جانے لگا، بعض علماء حضورﷺ کی بات کے لیے حدیث کا لفظ اور صحابہ کی بات کے لیے اثر کا لفظ استعمال کرتے تھے، امام غزالیؒ نے احیاء علوم الدین میں یہی طریق اختیار کیا ہے؛ لیکن امام طحاوی شرح معانی الآثار اور مشکل الآثار میں اثر کا لفظ آنحضرتﷺ کی تعلیمات اور صحابہ کی روایات کے لیے بھی برابر استعمال کرتے تھے، علامہ نووی لکھتے ہیں کہ جمہور علماء کے نزدیک حدیث اور اثر میں کوئی فرق نہیں ہے۔
(شرح مسلم النووی:۱/۹۳)
لفظ سنت کا استعمال
حدیث اپنے عمل کے پہلو سے سنت sunnath کہلاتی ہےاور یہ اطلاق ہر مکتب ِفکرمیں عام رہا ہے، سنت کے لفظی معنی راہ عمل کے ہیں اسے واضحہ(شاہراہ)بھی کہا گیا ہے۔
"أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ سُنَّتْ لَكُمْ السُّنَنُ وَفُرِضَتْ لَكُمْ الْفَرَائِضُ وَتُرِكْتُمْ عَلَى الْوَاضِحَةِ"۔
(مؤطاامام مالک، باب ماجاء في الرجم، حدیث نمبر:۱۲۹۷،شاملہ،موقع الاسلام)
حضورﷺ نے اپنے طریق عمل کے لیے خود بھی لفظ سنت استعمال کیا ہے۔
حضورﷺ کی زبان مبارک سے
(۱)حضرت انس بن مالکؓ(۹۳ھ)کہتے ہیں کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا :
"اَصُوْمُ وَأُفْطِرُ وَأُصَلِّي وَأَرْقُدُ وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي"۔
(بخاری،بَاب التَّرْغِيبِ فِي النِّكَاحِ، حدیث نمبر:۴۶۷۵،شاملہ،موقع الاسلام)
ترجمہ:میں روزے رکھتا اور چھوڑتا بھی ہوں،تہجد بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور نکاح بھی کیے ہیں، جو میری سنت سے منہ پھیرے وہ مجھ سے نہیں۔
اس حدیث میں آپﷺ نے اپنے طریق کو سنت کے لفظ سے بیان فرمایا ہے اور یہ بھی بتلایا ہے کہ سنت اس لیے ہے کہ امت کے لیے نمونہ ہو اور وہ اسے سند سمجھیں، جو آپ کے طریقے سے منہ پھیرے اور اسے اپنے لیے سند نہ سمجھے وہ آپ کی جماعت میں سے نہیں ہے۔
(۲)ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ:
"اَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ إِلَى عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ فَجَاءَهُ فَقَالَ يَا عُثْمَانُ أَرَغِبْتَ عَنْ سُنَّتِي قَالَ لَا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلَكِنْ سُنَّتَكَ أَطْلُبُ قَالَ فَإِنِّي أَنَامُ وَأُصَلِّي وَأَصُومُ وَأُفْطِرُ،الخ"۔
(ابو داؤد،بَاب مَا يُؤْمَرُ بِهِ مِنْ الْقَصْدِ فِي الصَّلَاةِ،حدیث نمبر:۱۱۶۲،شاملہ،موقع الاسلام)
ترجمہ:نبیﷺ نے کسی کو حضرت عثمان بن مظعون کو بلانے کے لیے بھیجا، حضرت عثمانؓ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ نے کہا اے عثمان! کیا تم میری سنت سے ہٹنا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا: نہیں! خدا کی قسم اے اللہ کے رسول ؛بلکہ میں آپ کی سنت کا طلب گار ہوں، آپ نے فرمایا:میں سوتا بھی ہوں اور نماز کے لیے جاگتا ہوں،روزے بھی رکھتا ہوں اور انہیں چھوڑتا بھی ہوں ۔
حضور اکرمﷺ نے حضرت بلال بن حارث رضی اللہ عنہ کو فرمایا:
"مَنْ أَحْيَا سُنَّةً مِنْ سُنَّتِي قَدْأُمِيتَتْ بَعْدِي فَإِنَّ لَهُ مِنْ الْأَجْرِ مِثْلَ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا وَمَنْ ابْتَدَعَ بِدْعَةَ ضَلَالَةٍ لَاتُرْضِي اللَّهَ وَرَسُولَهُ كَانَ عَلَيْهِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ عَمِلَ بِهَا لَايَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أَوْزَارِ النَّاسِ شَيْئًا"۔
(ترمذی،بَاب مَا جَاءَ فِي الْأَخْذِ بِالسُّنَّةِ وَاجْتِنَابِ الْبِدَعِ،حدیث نمبر:۲۶۰۱،شاملہ،موقع الاسلام)
ترجمہ:جس نے میری کوئی سنت زندہ کی جو میرے بعد چھوڑدی گئی ہو تو اسے ان تمام لوگوں کے برابر اجر ملے گا جو اس پر عمل کریں گے بغیر اس کے کہ عمل کرنے والوں کے اجر میں کوئی کمی ہو اورجس نے کوئی غلط راہ نکالی جس پر اللہ اور اس کے رسول کی رضا مندی موجود نہیں تو اسے ان تمام لوگوں کے گناہوں کا بوجھ ہوگا جو اس پر عمل کریں گے بغیر اس کے کہ ان کے بوجھ میں کمی آئے۔
اس حدیث میں دین کی فروعی باتوں کو بھی سنت کہا ہے اور انہیں زندہ رکھنے کی تلقین کی ہے،دین اسلام ایک زندہ مذہب ہے اور اس کے اصول ہمیشہ زندہ رہنے چاہئیں، ان پر کبھی موت نہیں آسکتی، اسلام کا تاریخ کے ہر دور میں قائم وباقی رہنا ضروری ہے اور یہی اس کی مسلسل زندگی ہے ایک فرع دب گئی تو دوسری ضرور زندہ ہوگی یہ نہیں ہوسکتا کہ اصول کی تمام کڑیاں ایک ایک کرکے ٹوٹتی جائیں، ہاں! یہ ہوسکتا ہے کہ ایک فرع دبنے لگے اور اس پر عمل ترک ہوجائے ؛لیکن اسے پھر سے زندہ کرنے کا اسلام میں پورا اہتمام کیا جائے گا، حضورﷺ کی ہدایت اسے پھر سے زندہ کرنے کی ایک بڑی بشارت ہے، ناممکن ہے کہ کل مسلمان کسی سنت سے ناآشنا رہیں، امام شافعیؒ فرماتے ہیں:
"فنعلم أن المسلمين كلهم لا يجهلون سنة"۔
(کتاب الام:۷/۳۰۵،شاملہ،موقع یعسوب)
ترجمہ:ہم یقینی طور پر جانتے ہیں کہ سارے کے سارے مسلمان کبھی بھی سنت سے ناآشنا نہیں رہ سکتے۔
سنت کی نسبت دوسرے صحابہؓ کی طرف
آپﷺکو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے ایک عمل کی اطلاع ملی،آپ نے اسے ان الفاظ میں پروانۂ منظوری دیا:
"إن ابن مسعود سن لكم سنة فاستنوا بها"۔
(مصنف عبدالزاق:۲/۲۲۹،شاملہ،موقع یعسوب)
ترجمہ:بیشک ابن مسعودؓ نے تمہارے لیے ایک سنت قائم کی ہے، تم اس پر چلو۔
ایک دفعہ حضرت معاذ بن جبلؓ کے ایک عمل کے بارے میں فرمایا:
"إِنَّ مُعَاذًا قَدْ سَنَّ لَكُمْ سُنَّةً كَذَلِكَ فَافْعَلُوا"۔
(ابو داؤد،بَاب كَيْفَ الْأَذَانُ،حدیث نمبر:۴۲۶شاملہ،موقع الاسلام)
ترجمہ:بےشک معاذ نے تمہارے لیے ایک سنت قائم کردی ہے، اسی طرح تم اس پر عمل کرو۔
اس قسم کی روایات میں آنحضرتﷺ نے صحیح طور پر لفظ سنت دوسرے صحابہ کے لیےاستعمال کیا ہے؛ پھر صحابہ کرامؓ بھی اکابر صحابہ کے عمل وفیصلےپر سنت کا لفظ بولتے تھے۔
لفظ سنت کا استعمال صحابہؓ کی زبان سے
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ آنحضرتﷺ کے طور وطریق اور قول وعمل کو اپنے لیے سنت اور راہ عمل سمجھتے تھے، ان کے ہاں حضورﷺ کی پیروی صرف ان کے امیر سلطنت ہونے کی حیثیت سے ہوتی تو حضورﷺ کے بعد آپ کے طریق کو اپنے لیے سند اورسنت نہ سمجھتے،صحابہ نے تو اکابر صحابہ کرام کے عمل کے لیے بھی لفظ سنت استعمال کیا ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ کی شخصیتوں سے کون واقف نہیں،حضرت عمرؓ نے کوفہ میں چھاؤنی قائم کی تو وہاں عام آبادی نے بھی جگہ پائی؛ پھر آپﷺنے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کو وہاں معلم بناکر بھیجا اور آپ نے وہاں ایک عظیم درسگاہ قائم کی؛ پھر حضرت علی ؓبھی اپنے عہد خلافت میں وہاں جاکر آباد ہوئے، ان دونوں کہ ہاں لفظ سنت انہی معنوں میں رائج اور مستعمل تھا۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ایک موقع پر فرماتے ہیں :
"وَلَوْأَنَّكُمْ صَلَّيْتُمْ فِي بُيُوتِكُمْ كَمَا يُصَلِّي هَذَا الْمُتَخَلِّفُ فِي بَيْتِهِ لَتَرَكْتُمْ سُنَّةَ نَبِيِّكُمْ وَلَوْتَرَكْتُمْ سُنَّةَ نَبِيِّكُمْ لَضَلَلْتُمْ"۔
(مسلم،بَاب صَلَاةِ الْجَمَاعَةِ مِنْ سُنَنِ الْهُدَى،حدیث نمبر:۱۰۴۶،شاملہ،موقع الاسلام)
ترجمہ:اور اگر تم اپنے گھروں میں نماز پڑھ لیا کروجیسا کہ یہ پیچھے رہ جانے والا کررہا ہے تو تم اپنے نبی کی سنت چھوڑدوگے اور اگر تم نے اپنے نبی کی سنت چھوڑدی تو تم گمراہ ہوجاؤگے۔
حضرت ابوبکرؓ وحضرت عمرؓ کے عمل کے لیے سنت کا لفظ
حصین بن المنذرابو ساسان کہتے ہیں کہ جب ولید کو حد مارنے کے لیے حضرت عثمان ؓ کے پاس لایا گیا تو وہاں میں موجود تھا، آپؓ نے حضرت علی مرتضیؓ کو حکم دیا کہ ولید کو کوڑے لگائیں، انہوں نے اپنے بیٹے حضرت حسن سے کہا کہ وہ کوڑے لگائیں؛انہوں نے عذر کیا تو پھر آپ ؓنے عبداللہ بن جعفرؓ سے کہا کہ وہ ولید پر حد جاری کریں، حضرت عبداللہ بن جعفرؓ کوڑے لگاتے جاتے تھے اور حضرت علی گنتے جاتے تھے جب چالیس ہوئے تو حضرت علی ؓ نے فرمایا بس !یہیں تک اور فرمایا:
"جَلَدَ النَّبِيُّﷺ أَرْبَعِينَ وَجَلَدَ أَبُو بَكْرٍ أَرْبَعِينَ وَعُمَرُ ثَمَانِينَ وَكُلٌّ سُنَّةٌ"۔
(مسلم،بَاب حَدِّ الْخَمْرِ،حدیث نمبر:۳۲۲۰،شاملہ،موقع الاسلام)
ترجمہ:آنحضرتﷺ نے (شراب پینے والے پر)چالیس کوڑوں کا حکم فرمایا، حضرت ابوبکرؓ بھی چالیس کوڑوں کا ہی حکم دیتے رہے،حضرت عمرؓ نے اسی کوڑوں کا حکم دیا اور ان میں سے ہرایک حکم سنت شمار ہوگا۔
اس روایت میں جہاں اس بات کی شہادت ملتی ہے کہ حضرت عثمانؓ کے عہد خلافت تک حضرت علی ؓ خلفاءثلٰثہ کے ساتھ امور سلطنت میں برابر شریک رہتے تھے اور حضرت عمرؓ کے عمل کو سنت تک کا درجہ دیتے تھے وہاں اس بات کی بھی پوری تائید ملتی ہے کہ لفظ سنت اس دورمیں اکابر صحابہ کے عمل تک کو بھی شامل تھا۔
خلفائے راشدین کے عمل کے لیے سنت کا لفظ
آنحضرتﷺ نے اپنی زبان مبارک سے بھی خلفائے راشدین کے عمل پر لفظ سنت کا اطلاق فرمایا ہے،حضرت عرباض بن ساریہؓ(۷۵ھ) کی روایت میں حضور اکرمﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ:
"فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْكُمْ فَعَلَيْهِ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ"۔
(ترمذی،بَاب مَا جَاءَ فِي الْأَخْذِ بِالسُّنَّةِ وَاجْتِنَابِ الْبِدَعِ،حدیث نمبر:۲۶۰۰،شاملہ،موقع الاسلام)
ترجمہ:سو جو تم میں سے یہ زمانہ پائے اسے لازم ہے کہ میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑے۔
امت میں خلفائے راشدین کے عمل کے لیے سنت کا لفظ عام شائع وذائع ہے اور امت اپنے قانونی ابواب میں ہمیشہ سے سند تسلیم کرتی آئی ہے۔
سنت اور حدیث میں فرق
سنت کا لفظ ایسے عمل متوارث پر بھی بولا جاتا ہے جس میں نسخ کا کوئی احتمال نہ ہو،حدیث کبھی ناسخ ہوتی ہےکبھی منسوخ؛ مگرسنت کبھی منسوخ نہیں ہوتی، سنت ہے ہی وہ جس میں توارث ہواور تسلسلِ تعامل ہو،حدیث کبھی ضعیف بھی ہوتی ہے کبھی صحیح، یہ صحت وضعف کا فرق ایک علمی مرتبہ ہے،ایک علمی درجہ کی بات ہے، بخلاف سنت کے کہ اس میں ہمیشہ عمل نمایاں رہتا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے مسلک کے لحاظ سے اپنی نسبت ہمیشہ سنت کی طرف کی ہےاور اہل سنت کہلاتے ہیں، حدیث کی طرف جن کی نسبت ہوئی اس سے ان کا محض ایک علمی تعارف ہوتا رہتا ہے اور اس سے مراد محدثین سمجھے گئے ہیں، مسلکاً یہ حضرات اہلسنت شمار ہوتے تھے۔
تاریخِ حدیث
ماخذ علمی ہونے کی حیثیت سے
تاریخ حدیث سے مراد آنحضرتﷺ اور آپ کے اصحاب کرام کی تعلیمات اور ان کی نقل وروایت پر بحث نہیں نہ ان کی تدوین اور ان کے قواعد زیر بحث ہیں، بلکہ صرف یہ بتلانا ہے کہ ماخذ علمی ہونے کی حیثیت سے اس کی تاریخ کب سے چلی آرہی ہے، حدیث آنحضرتﷺ کے الفاظ میں ہو یا اعمال میں یا آپ کے اصحاب میں، جہاں تک اسے پیچھے لایا جاسکے وہیں سے حدیث کی تاریخ شروع ہوتی ہے،قبل اس کے کہ ہم حضورﷺ کی نسبت سے بات شروع کریں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے امم سابقہ میں اس کی تلاش کریں کہ کیا ان ادوار میں بھی کتاب ِالہٰی کے ساتھ ساتھ کوئی اور ماخذ علمی کار فرما رہا ہے، سو یہاں حدیث سے مراد تحریرات ِحدیث اس فن کا نہیں یہ تو تدوینِ حدیث کا موضوع ہے؛ یہاں ہمیں حدیث پر حضورﷺ کی تعلیمات کی حیثیث سے غور کرنا ہے کہ ماخذ علمی کی حیثیت سے اس کی تاریخ کب سے ہے:
نبوت اور حدیث کی تاریخ
حدیث کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی بعثت انبیاء کی تاریخ،امتوں کو حدیث کے ذریعہ ہی آسمانی کتاب ملتی رہی اور اس امت کوبھی آنحضرتﷺکے واسطے سے قرآن ملا، قرآن اور حدیث جمع ہوئے تو اسلام کے اس دورِ آخر کا آغاز ہوگیا،آنحضرتﷺ پرپہلی وحی("اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ"العلق:۳۰) غارِ حرا میں نازل ہوئی تو آپ نے اس کی خبر ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریؓ اور ورقہ بن نوفل کو دی، یہ حدیث کا آغاز تھا، امام بخاری(۲۵۶ھ)نے صحیح بخاری کا آغاز اسی باب سے کیا ہے"كَيْفَ كَانَ بَدْءُ الْوَحْيِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم"یعنی حضورﷺ پر وحی کا آغاز کیسے ہوا،یہ وحی کا پہلا دن تھا، سو یہ بات بالکل صحیح تاریخی ہے کہ حدیث اور بعثت کی تاریخ ایک ہے، ایک ساتھ دونوں شروع ہوئیں،امام بخاری نے بھی اس سے تنبیہ فرمادی کہ جو بعثت کی تاریخ ہے وہی حدیث کا نقطۂ آغاز ہے،آنحضرتﷺکے عہد میں اسلام کی جو تشکیل ہوئی اس کے آثار حدیث کا سرمایہ ہے، یہ آثار روایت میں ہوں یاعمل میں یا آپ کے اصحاب کرام کی فکر وادا میں،ہر پہلو سے ان کا مبدا وتاریخ حسی ہے اور یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ حدیث کا آغاز کسی اندھیرے میں نہیں ہوا، اس کے ہر پہلو میں تسلسل اور اتصال قائم ہے روایت میں سند سے تسلسل پیدا ہوتا ہے اورامت میں تعامل سے سند چلتی ہے اور یہی علم الاٰثار ہے۔
آنحضرت ﷺسے پہلے کا علم الآثار
پیغمبرانہ تاریخ میں علم الکتاب اور علم الآثار ہمیشہ سے علم کےدو ماخذ رہے ہیں، قرآن کریم میں بھی ان دونوں کا ذکر واضح طور پرموجود ہے حضورﷺ کی بعثت سے پہلے جو ملتیں دنیا میں موجو تھیں وہ کسی نہ کسی گزشتہ پیغمبر سے انتساب رکھتی تھیں؛ مگر الحاد کا زہر اورتاویل کا فتنہ ان میں بہت تیزی سے سرایت کرچکا تھا، حضورﷺ نے جب اپنی دعوت پیش کی او رانہیں حقیقی اسلام کی طرف بلایا توانہوں نے اپنے موقف پر اصرار کیا اور اس کوچھوڑنےکے لیے کچھ بھی تیار نہ ہوئے، آنحضرتﷺ نے اس سے ان کے اس موقف کی سند پوچھی اور اس میں ان دونوں علمی ماخذ کا ذکر فرمایا کہ علم الکتاب اور علم الآثار میں کوئی سند بھی تمہارے پاس ہو تو اپنے عقائد واعمال کے ثبوت میں اسے پیش کرو :
"اِیْتُونِي بِكِتَابٍ مِنْ قَبْلِ هَذَا أَوْ أَثَارَةٍ مِنْ عِلْمٍ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ"۔
(الاحقاف:۴)
ترجمہ:میرے پاس کوئی ایسی کتاب لاؤ جو اس قرآن سے پہلے کی ہو یا پھر کوئی روایت جس کی بنیاد علم پرہو؛ اگر تم واقعی سچے ہو۔
اس روایت عن الانبیاء کو ہی سلسلہ حدیث کہتے ہیں، اسے ہی اسناد الحدیث سے تعبیر کرتے ہیں، حضرت مطر الوراق (۱۲۵ھ) کہتے ہیں: اللہ تعالی کے اس ارشاد"أَثَارَةٍ مِنْ عِلْمٍ" سے مراد اسنادلحدیث ہے۔
(فتح المغیث، اقسام العالی من السند والنازل:۳/۴)
معلوم ہوا کے پہلے انبیاء کی تعلیمات میں بھی آسمانی کتابوں کے ساتھ ساتھ ان کی احادیث چلتی تھیں،یہ علیحدہ بات ہے کہ نہ ان کی آسمانی کتابیں محفوظ رہیں،نہ ان کی احادیث کا سلسلہ متصل رہا؛لیکن اس بات کے تسلیم کرنے سے چارہ نہیں کہ ان کے دائرہ ٔاثر میں ان کی حدیث بھی پہنچتی تھی،ان میں سے بعض کو اللہ تعالی نے قرآن پاک میں بھی نقل فرمایا، اللہ تعالی نے حضورﷺ کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا:"هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَى" (النازعات:۱۵) ترجمہ:کیا پہنچی ہے آپ تک موسی علیہ السلام کی حدیث۔
آنحضرت ﷺ کی تعلیمات کے آثار
حضور اکرمﷺ کے آثار وہدایت جب الفاظ میں، اعمال میں اور انسانی افراد میں ڈھلتے ہیں تو حدیث،سنت اور عمل صحابہ کہلاتے ہیں،حدیث کا آغاز وحی کے ساتھ ہوا، سنت ِوحی سے قانون بنا اور صحابہ حدیث نبوی سے مقتدا ٹھہرے اور انہوں نے حضورﷺ سے ہی تعلیم وتزکیہ کی دولت پائی، حضورﷺ کا علم الآثار ان تینوں وسائط سے قائم ہوا، آج دین اسلام انہی آثار کا نام ہے جو قرآن وحدیث اور عمل صحابہ کے نام سے امت میں سند سمجھا جاتا ہے۔
فرائض ِرسالت کا قرآنی فیصلہ
اللہ تعالی نے آنحضرتﷺ کی ذمہ داریاں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
"يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ"۔
(ال عمران:۱۶۴)
ترجمہ:ان کے سامنے اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرے،انہیں پاک صاف بنائےاور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دے۔
یہ حضورﷺ کی تین اہم ذمہ داریوں کا بیان ہے" يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ"سے مراد حضورﷺ کا امت تک قرآن پہنچانا ہے "وَيُزَكِّيهِمْ"سے مراد تزکیہ وتربیت سے ایک مثالی جماعت قائم کرنا ہے"وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ"سے مراد قرآن کریم کی روشنی میں حدیث اور سنت کی تعلیم دینا ہے،یہ آپ کا علم الآثار ہے، آپ کی تعلیمات قدسیہ افراد میں اگر کہیں نظر آئیں تووہ صحابہ کرامؓ ہیں اور اعمال میں ملیں تو وہ احادیث وآثار ہیں۔
روایت الفاظ سے بھی اور اعمال سے بھی
حضورﷺ کی تعلیمات الفاظ میں بھی روایت ہوتی رہیں اور اعمال میں بھی پھیلتی رہیں، آپ کے اعمال طیبہ آپ کے صحابہ پربکمال تابانی سایہ فگن تھے، صحابہؓ نے آپ سے تزکیہ کی دولت پاکر آپ کی تعلیمات کو اس طرح اپنے اندر سمولیا کہ پوری دنیا کے لیے آسمان ہدایت کے ستارے بن چکے تھے، آپﷺ کے اعمالِ طیبہ کا چاند پوری شان اور قوت وبرہان سے چمک رہا تھا، نور عرفان کی تجلیات ہرطرف جلوہ ریز تھیں اور صحابہ اسی چاند کے گرد ہالہ بنے ہوئے تھے، یہاں تک کہ تابعین کی ایک جماعت اس کام کو لے کر اٹھ کھڑی ہوئی ، تابعین صحابہ کے نقش قدم پر چلےتھے اور یہ حضرات تابعین تب ہی تھے کہ صحابہ متبوعین تھے، پہلوں کا مقتدی بنے بغیر اگلوں کا مقتدا بننے کی کوشش کرنا اسلام کے دین مسلسل ہونے کے خلاف ایک نئی راہ ہے ؎
مبتدی کوئی ہو یا کہ ہو منتہی
کہتے ہیں دوستو !ماعرفنا سبھی
اس حقیقت سے واقف ہیں اہل نظر
مقتدا وہ نہیں جو نہیں مقتدی
قرآن کریم نے بھی ہمیں یہ دعا سکھلائی ہے کہ ہم پہلوں کے نقش قدم بنیں، قرآن کریم کا تقاضاہے کہ پوری امت آپس میں جڑی رہے اور اس کی تمام کڑیوں میں ایک مضبوط رابطہ ہو، عباد الرحمن کی یہ دعا قرآن کریم میں اس طرح مذکور ہے"وَّاجْعَلْنَالِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا" (الفرقان:۷۴) اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنادے، اس دعا میں اس آرزو کا اظہار ہے کہ بعد میں آنے والے ہمارے نقش پا پر چلتے آئیں اور یہ تبھی درست رہ سکتا ہے کہ ہم بھی اپنے سے پہلوں کے نقش پر رہیں اس طرح مابعد کی امت اپنے ماقبل سے مسلسل رہے، حضرت امام بخاریؒ نے اس آیت کے معنی یہ بیان فرمائے ہیں :
" أَيِمَّةً نَقْتَدِي بِمَنْ قَبْلَنَا وَيَقْتَدِي بِنَا مَنْ بَعْدَنَا"۔
(بخاری، بَاب الِاقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:۲۲/۲۴۳،شاملہ،موقع الاسلام)
ترجمہ:اے اللہ ہمیں ایسا پیشوا بنا کہ ہم تو اپنے سے پہلوں کے نقش قدم پر رہیں اور ہمارے بعد میں آنے والے ہمارے نقش پا پر چلیں۔
اس دعا میں یہ بتلایا گیا ہے کہ امت ایک مسلسل کارواں ہے جس میں پچھلے آنے والوں کا پہلوں سے متصل رہنا ضروری ہے، اس دعا کا پہلا مصداق حضورﷺ کے صحابہ تھے ان کا دین حضورﷺ سے مسلسل تھا اور آئندہ آنے والوں کے لیے سند تھا اور انہی سے اسلام کی شاہراہ مسلسل قائم ہوئی،آنحضرتﷺ نے صحابہ کو بتلادیا تھا:
" إِنَّ النَّاسَ لَكُمْ تَبَع"۔
(ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي الِاسْتِيصَاءِ بِمَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ،حدیث نمبر:۲۵۷۴،شاملہ،موقع الاسلام)
ترجمہ:بے شک لوگ تمہارے پیچھے چلیں گے۔
آپﷺ اپنے صحابہ کرام کو یہ بتلارہے تھے کہ تمہارے اعمال کے ذریعہ میری بات آگے چلے گی۔
قرآن کریم نے"وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ" کہہ کر صحابہ رضی اللہ عنہم کو علم کی سند دی تو "وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا" کہہ کر اسے عملاً آثار بنادیا، امت مسلمہ کی یہ دعائے اقتداء اسی علم الآثار کا محور ہے"إِنَّ النَّاسَ لَكُمْ تَبَع" اسی کی نبوی تفسیر ہے، الفاظ سے سند لینا چنداں مشکل نہیں ؛مگر تعامل میں اس کی تلاش بے شک ایک بڑی کاوش ہے۔
جب تک دین کے لیے ہمتیں بیدار رہیں، دین اعمال سے پھیلتا رہا اور امت میں تسلسل رہا، ہر طرف خیر رہی، طولاً وعرضاً اتحاد رہا، امیرالمؤمنین سیدنا حضرت عمر ؓ نے صحابہ کو ان کی اس حیثیت سے پوری طرح خبر دار کردیا تھا، آپ ؓنے انہیں ان الفاظ میں اس طرف متوجہ فرمایا:
"إنكم أيهاالرهط أئمة يقتدي بكم الناس"۔
(موطا مالک، باب لبس الثياب المصبغة في الإحرام،حدیث نمبر:۶۲۶،شاملہ،موقع الاسلام)
ترجمہ:اے لوگو تم ائمہ کرام ہو، لوگ تمہاری اقتداء کو آئیں گے۔
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ(۵۵ھ)نے ایک سوال کے جواب میں اپنی (جماعت صحابہ کی)اس قائدانہ حیثیت کا علی الاعلان اظہار فرمایا:
"إناأئمة يقتدى بنا"۔
(مصنف عبدالرزاق:۲/۳۶۷،شاملہ،موقع یعسوب)
ترجمہ:ہم صحابہ پیشوا ہیں، ہماری اقتداء آگے چلے گی۔
تاریخ گواہ ہے کہ جو لوگ اس مقدس قافلہ کے پیچھے چلتے آئے،تابعین کہلائے"وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِـاِحْسَانٍ" (توبہ:۱۰۰) کے باعث انہیں بھی"رَضِیَ اللہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ" کا تمغہ ملا، حضرت امام مالکؒ سیدنا حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ(۱۰۰ھ)سے روایت کرتے ہیں:
"سنَّ رسولُ اللهﷺ وولاةُ الأمر من بعده سُنناً، الأخذُ بها اعتصامٌ بكتابِ الله، وقوَّةٌ على دين الله، ليس لأحدٍ تبديلُها، ولا تغييرُها، ولا النظرُ في أمرٍ خالفَها، مَنِ اهتدى بها، فهوالمهتدی، ومن استنصر بها، فهو منصور، ومن تركها واتَّبع غيرَ سبيل المؤمنين، ولاَّه اللهُ ماتولَّى، وأصلاه جهنَّم، وساءت مصيراً۔
(جامع العلوم والحکم لابن رجب الحنبلی،الحدیث الثامن والعشرون،شاملہ،موقع صید الفوائد)
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد کے ولاۃ الامر نے ان سنتوں کو قائم فرمایا، جنھیں لینا اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے تھامنا ہے اور اللہ کے دین کوتقویت پہونچانا ہے کسی کو اس کے بدلنے اوراس میں ترمیم کرنے کا حق نہیں اور نہ اس کے برعکس کسی اور طرف دھیان کرنے کا حق ہے، جس نے ان سنتوں سے ہدایت ڈھونڈی اس نے ہدایت پالی اور جس نے ان سے نصرت چاہی وہ نصرت پاگیا اور جس نے انہیں نظر انداز کردیا اور ان مؤمنین کے سوا کسی اور راہ پر چلا اللہ تعالی اسے اسی طرف پھیردیتے ہیں جدھر وہ پھرا اور اسے جہنم میں پہنچادیتے ہیں اور وہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔
حضرت عباد بن عباد الشامی دین مسلسل کی ترتیب یوں ذکر فرماتے ہیں:
"فَكَانَ الْقُرْآنُ إِمَامَ رَسُولِ اللَّهِﷺ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِﷺ إِمَاماً لأَصْحَابِهِ، وَكَانَ أَصْحَابُهُ أَئِمَّةً لِمَنْ بَعْدَهُمْ۔
(دارمی، باب رِسَالَةِ عَبَّادِ بْنِ عَبَّادٍ الْخَوَّاصِ الشَّامِى:۲/۲۳۲،شاملہ،موقع وزارۃ الاوقاف، المصریہ)
ترجمہ:قرآن کریم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا امام تھا اور حضورﷺ صحابہ کے امام تھے اور آپ کے صحابہ بعد میں آنے والے لوگوں کے امام ہیں ۔
یہ امامت مسلسل تب ہی رہ سکتی ہے کہ اگلے (بعد میں آنے والے) پچھلوں (پہلے زمانہ کے لوگوں) کے پیچھے چلیں اور ان کے بعد آنے والے پھر ان کے پیچھے چلیں صحابہ کے بعد ائمہ دین بھی اگلے آنے والوں کے پیشوا اور مقتدا ہیں اور امت مجتہدین کی اقتداء اورپیروی سے ہی اپنے تسلسل میں آگے چلتی رہی ہے۔
حضرت امام اوزاعیؒ(۱۵۷ھ)ایک موقع پر ذکر فرماتے ہیں:
"كنا قبل اليوم نضحك ونلعب، أما إذا صرنا أئمة يقتدى بنا فلا نرى أن يسعنا ذلك، وينبغي أن نتحفظ"۔
(البدایۃ والنہایۃ:۱۱/۱۲۸،شاملہ،موقع یعسوب)
ترجمہ:پہلے تو ہمارا وقت کھیل کود میں گزرا ؛لیکن جب ہم امام بن گئے اور ہماری پیروی کی جانے لگی تو ہمارے لیے اب زیبا نہیں اور ہمیں چاہیے کے ہم بچ کر رہیں۔
اس بیان سےیہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس وقت امت میں ائمہ دین کی پیروی جاری ہوچکی تھی، اس کا ائمہ کو بھی علم تھا اور اس سے وہ اپنے علم وعمل میں اور محتاط ہوکر چلتے تھے،اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضورؐ کے بعد پیروی صرف صحابہؓ کی ہی نہیں ان کے بعد آنے والے علماء وقت بھی لوگوں کا مرجع اور ان کے پیشوا ہیں،حضرت امام مالک(۱۷۹ھ)کا مسلک اس باب میں کیا تھا اس جزئیہ میں دیکھیے:
"الاجتماعُ بكرة بعدَ صلاة الفجر لقراءة القرآن بدعةٌ، ماكان أصحابُ رسول اللّٰهﷺ ، ولا العلماء بعدَهم على هذا۔
(جامع العلوم والحکم،الحدیث السادس والثلاثون:۳۶/۲۵،شاملہ،موقع صید الفوائد)
ترجمہ:صبح کی نماز کے بعد مخصوص اجتماعی شکل میں قرآن پڑھنا ایک نئی راہ ہے، حضور اکرمﷺ کے صحابہ اور بعد کے علماء کا یہ طریقہ نہ تھا ۔
اس وقت ہمیں یہاں اس مسئلہ سے بحث نہیں ہے، صرف یہ بتلانا پیش نظر ہے کہ صحابہ کے بعد اس وقت کے اعیان علم کا عمل بھی اگلے آنے والوں کے لیے توجہ کے لائق ہے اور جو بات اس دین مسلسل میں نہیں ملتی وہ دین نہیں ہے۔
ماخذ علمی ہونے کی حیثیت سے
تاریخ حدیث سے مراد آنحضرتﷺ اور آپ کے اصحاب کرام کی تعلیمات اور ان کی نقل وروایت پر بحث نہیں نہ ان کی تدوین اور ان کے قواعد زیر بحث ہیں، بلکہ صرف یہ بتلانا ہے کہ ماخذ علمی ہونے کی حیثیت سے اس کی تاریخ کب سے چلی آرہی ہے، حدیث آنحضرتﷺ کے الفاظ میں ہو یا اعمال میں یا آپ کے اصحاب میں، جہاں تک اسے پیچھے لایا جاسکے وہیں سے حدیث کی تاریخ شروع ہوتی ہے،قبل اس کے کہ ہم حضورﷺ کی نسبت سے بات شروع کریں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے امم سابقہ میں اس کی تلاش کریں کہ کیا ان ادوار میں بھی کتاب ِالہٰی کے ساتھ ساتھ کوئی اور ماخذ علمی کار فرما رہا ہے، سو یہاں حدیث سے مراد تحریرات ِحدیث اس فن کا نہیں یہ تو تدوینِ حدیث کا موضوع ہے؛ یہاں ہمیں حدیث پر حضورﷺ کی تعلیمات کی حیثیث سے غور کرنا ہے کہ ماخذ علمی کی حیثیت سے اس کی تاریخ کب سے ہے:
نبوت اور حدیث کی تاریخ
حدیث کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی بعثت انبیاء کی تاریخ،امتوں کو حدیث کے ذریعہ ہی آسمانی کتاب ملتی رہی اور اس امت کوبھی آنحضرتﷺکے واسطے سے قرآن ملا، قرآن اور حدیث جمع ہوئے تو اسلام کے اس دورِ آخر کا آغاز ہوگیا،آنحضرتﷺ پرپہلی وحی("اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ"العلق:۳۰) غارِ حرا میں نازل ہوئی تو آپ نے اس کی خبر ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریؓ اور ورقہ بن نوفل کو دی، یہ حدیث کا آغاز تھا، امام بخاری(۲۵۶ھ)نے صحیح بخاری کا آغاز اسی باب سے کیا ہے"كَيْفَ كَانَ بَدْءُ الْوَحْيِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم"یعنی حضورﷺ پر وحی کا آغاز کیسے ہوا،یہ وحی کا پہلا دن تھا، سو یہ بات بالکل صحیح تاریخی ہے کہ حدیث اور بعثت کی تاریخ ایک ہے، ایک ساتھ دونوں شروع ہوئیں،امام بخاری نے بھی اس سے تنبیہ فرمادی کہ جو بعثت کی تاریخ ہے وہی حدیث کا نقطۂ آغاز ہے،آنحضرتﷺکے عہد میں اسلام کی جو تشکیل ہوئی اس کے آثار حدیث کا سرمایہ ہے، یہ آثار روایت میں ہوں یاعمل میں یا آپ کے اصحاب کرام کی فکر وادا میں،ہر پہلو سے ان کا مبدا وتاریخ حسی ہے اور یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ حدیث کا آغاز کسی اندھیرے میں نہیں ہوا، اس کے ہر پہلو میں تسلسل اور اتصال قائم ہے روایت میں سند سے تسلسل پیدا ہوتا ہے اورامت میں تعامل سے سند چلتی ہے اور یہی علم الاٰثار ہے۔
آنحضرت ﷺسے پہلے کا علم الآثار
پیغمبرانہ تاریخ میں علم الکتاب اور علم الآثار ہمیشہ سے علم کےدو ماخذ رہے ہیں، قرآن کریم میں بھی ان دونوں کا ذکر واضح طور پرموجود ہے حضورﷺ کی بعثت سے پہلے جو ملتیں دنیا میں موجو تھیں وہ کسی نہ کسی گزشتہ پیغمبر سے انتساب رکھتی تھیں؛ مگر الحاد کا زہر اورتاویل کا فتنہ ان میں بہت تیزی سے سرایت کرچکا تھا، حضورﷺ نے جب اپنی دعوت پیش کی او رانہیں حقیقی اسلام کی طرف بلایا توانہوں نے اپنے موقف پر اصرار کیا اور اس کوچھوڑنےکے لیے کچھ بھی تیار نہ ہوئے، آنحضرتﷺ نے اس سے ان کے اس موقف کی سند پوچھی اور اس میں ان دونوں علمی ماخذ کا ذکر فرمایا کہ علم الکتاب اور علم الآثار میں کوئی سند بھی تمہارے پاس ہو تو اپنے عقائد واعمال کے ثبوت میں اسے پیش کرو :
"اِیْتُونِي بِكِتَابٍ مِنْ قَبْلِ هَذَا أَوْ أَثَارَةٍ مِنْ عِلْمٍ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ"۔
(الاحقاف:۴)
ترجمہ:میرے پاس کوئی ایسی کتاب لاؤ جو اس قرآن سے پہلے کی ہو یا پھر کوئی روایت جس کی بنیاد علم پرہو؛ اگر تم واقعی سچے ہو۔
اس روایت عن الانبیاء کو ہی سلسلہ حدیث کہتے ہیں، اسے ہی اسناد الحدیث سے تعبیر کرتے ہیں، حضرت مطر الوراق (۱۲۵ھ) کہتے ہیں: اللہ تعالی کے اس ارشاد"أَثَارَةٍ مِنْ عِلْمٍ" سے مراد اسنادلحدیث ہے۔
(فتح المغیث، اقسام العالی من السند والنازل:۳/۴)
معلوم ہوا کے پہلے انبیاء کی تعلیمات میں بھی آسمانی کتابوں کے ساتھ ساتھ ان کی احادیث چلتی تھیں،یہ علیحدہ بات ہے کہ نہ ان کی آسمانی کتابیں محفوظ رہیں،نہ ان کی احادیث کا سلسلہ متصل رہا؛لیکن اس بات کے تسلیم کرنے سے چارہ نہیں کہ ان کے دائرہ ٔاثر میں ان کی حدیث بھی پہنچتی تھی،ان میں سے بعض کو اللہ تعالی نے قرآن پاک میں بھی نقل فرمایا، اللہ تعالی نے حضورﷺ کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا:"هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَى" (النازعات:۱۵) ترجمہ:کیا پہنچی ہے آپ تک موسی علیہ السلام کی حدیث۔
آنحضرت ﷺ کی تعلیمات کے آثار
حضور اکرمﷺ کے آثار وہدایت جب الفاظ میں، اعمال میں اور انسانی افراد میں ڈھلتے ہیں تو حدیث،سنت اور عمل صحابہ کہلاتے ہیں،حدیث کا آغاز وحی کے ساتھ ہوا، سنت ِوحی سے قانون بنا اور صحابہ حدیث نبوی سے مقتدا ٹھہرے اور انہوں نے حضورﷺ سے ہی تعلیم وتزکیہ کی دولت پائی، حضورﷺ کا علم الآثار ان تینوں وسائط سے قائم ہوا، آج دین اسلام انہی آثار کا نام ہے جو قرآن وحدیث اور عمل صحابہ کے نام سے امت میں سند سمجھا جاتا ہے۔
فرائض ِرسالت کا قرآنی فیصلہ
اللہ تعالی نے آنحضرتﷺ کی ذمہ داریاں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
"يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ"۔
(ال عمران:۱۶۴)
ترجمہ:ان کے سامنے اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرے،انہیں پاک صاف بنائےاور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دے۔
یہ حضورﷺ کی تین اہم ذمہ داریوں کا بیان ہے" يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ"سے مراد حضورﷺ کا امت تک قرآن پہنچانا ہے "وَيُزَكِّيهِمْ"سے مراد تزکیہ وتربیت سے ایک مثالی جماعت قائم کرنا ہے"وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ"سے مراد قرآن کریم کی روشنی میں حدیث اور سنت کی تعلیم دینا ہے،یہ آپ کا علم الآثار ہے، آپ کی تعلیمات قدسیہ افراد میں اگر کہیں نظر آئیں تووہ صحابہ کرامؓ ہیں اور اعمال میں ملیں تو وہ احادیث وآثار ہیں۔
روایت الفاظ سے بھی اور اعمال سے بھی
حضورﷺ کی تعلیمات الفاظ میں بھی روایت ہوتی رہیں اور اعمال میں بھی پھیلتی رہیں، آپ کے اعمال طیبہ آپ کے صحابہ پربکمال تابانی سایہ فگن تھے، صحابہؓ نے آپ سے تزکیہ کی دولت پاکر آپ کی تعلیمات کو اس طرح اپنے اندر سمولیا کہ پوری دنیا کے لیے آسمان ہدایت کے ستارے بن چکے تھے، آپﷺ کے اعمالِ طیبہ کا چاند پوری شان اور قوت وبرہان سے چمک رہا تھا، نور عرفان کی تجلیات ہرطرف جلوہ ریز تھیں اور صحابہ اسی چاند کے گرد ہالہ بنے ہوئے تھے، یہاں تک کہ تابعین کی ایک جماعت اس کام کو لے کر اٹھ کھڑی ہوئی ، تابعین صحابہ کے نقش قدم پر چلےتھے اور یہ حضرات تابعین تب ہی تھے کہ صحابہ متبوعین تھے، پہلوں کا مقتدی بنے بغیر اگلوں کا مقتدا بننے کی کوشش کرنا اسلام کے دین مسلسل ہونے کے خلاف ایک نئی راہ ہے ؎
مبتدی کوئی ہو یا کہ ہو منتہی
کہتے ہیں دوستو !ماعرفنا سبھی
اس حقیقت سے واقف ہیں اہل نظر
مقتدا وہ نہیں جو نہیں مقتدی
قرآن کریم نے بھی ہمیں یہ دعا سکھلائی ہے کہ ہم پہلوں کے نقش قدم بنیں، قرآن کریم کا تقاضاہے کہ پوری امت آپس میں جڑی رہے اور اس کی تمام کڑیوں میں ایک مضبوط رابطہ ہو، عباد الرحمن کی یہ دعا قرآن کریم میں اس طرح مذکور ہے"وَّاجْعَلْنَالِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا" (الفرقان:۷۴) اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنادے، اس دعا میں اس آرزو کا اظہار ہے کہ بعد میں آنے والے ہمارے نقش پا پر چلتے آئیں اور یہ تبھی درست رہ سکتا ہے کہ ہم بھی اپنے سے پہلوں کے نقش پر رہیں اس طرح مابعد کی امت اپنے ماقبل سے مسلسل رہے، حضرت امام بخاریؒ نے اس آیت کے معنی یہ بیان فرمائے ہیں :
" أَيِمَّةً نَقْتَدِي بِمَنْ قَبْلَنَا وَيَقْتَدِي بِنَا مَنْ بَعْدَنَا"۔
(بخاری، بَاب الِاقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:۲۲/۲۴۳،شاملہ،موقع الاسلام)
ترجمہ:اے اللہ ہمیں ایسا پیشوا بنا کہ ہم تو اپنے سے پہلوں کے نقش قدم پر رہیں اور ہمارے بعد میں آنے والے ہمارے نقش پا پر چلیں۔
اس دعا میں یہ بتلایا گیا ہے کہ امت ایک مسلسل کارواں ہے جس میں پچھلے آنے والوں کا پہلوں سے متصل رہنا ضروری ہے، اس دعا کا پہلا مصداق حضورﷺ کے صحابہ تھے ان کا دین حضورﷺ سے مسلسل تھا اور آئندہ آنے والوں کے لیے سند تھا اور انہی سے اسلام کی شاہراہ مسلسل قائم ہوئی،آنحضرتﷺ نے صحابہ کو بتلادیا تھا:
" إِنَّ النَّاسَ لَكُمْ تَبَع"۔
(ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي الِاسْتِيصَاءِ بِمَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ،حدیث نمبر:۲۵۷۴،شاملہ،موقع الاسلام)
ترجمہ:بے شک لوگ تمہارے پیچھے چلیں گے۔
آپﷺ اپنے صحابہ کرام کو یہ بتلارہے تھے کہ تمہارے اعمال کے ذریعہ میری بات آگے چلے گی۔
قرآن کریم نے"وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ" کہہ کر صحابہ رضی اللہ عنہم کو علم کی سند دی تو "وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا" کہہ کر اسے عملاً آثار بنادیا، امت مسلمہ کی یہ دعائے اقتداء اسی علم الآثار کا محور ہے"إِنَّ النَّاسَ لَكُمْ تَبَع" اسی کی نبوی تفسیر ہے، الفاظ سے سند لینا چنداں مشکل نہیں ؛مگر تعامل میں اس کی تلاش بے شک ایک بڑی کاوش ہے۔
جب تک دین کے لیے ہمتیں بیدار رہیں، دین اعمال سے پھیلتا رہا اور امت میں تسلسل رہا، ہر طرف خیر رہی، طولاً وعرضاً اتحاد رہا، امیرالمؤمنین سیدنا حضرت عمر ؓ نے صحابہ کو ان کی اس حیثیت سے پوری طرح خبر دار کردیا تھا، آپ ؓنے انہیں ان الفاظ میں اس طرف متوجہ فرمایا:
"إنكم أيهاالرهط أئمة يقتدي بكم الناس"۔
(موطا مالک، باب لبس الثياب المصبغة في الإحرام،حدیث نمبر:۶۲۶،شاملہ،موقع الاسلام)
ترجمہ:اے لوگو تم ائمہ کرام ہو، لوگ تمہاری اقتداء کو آئیں گے۔
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ(۵۵ھ)نے ایک سوال کے جواب میں اپنی (جماعت صحابہ کی)اس قائدانہ حیثیت کا علی الاعلان اظہار فرمایا:
"إناأئمة يقتدى بنا"۔
(مصنف عبدالرزاق:۲/۳۶۷،شاملہ،موقع یعسوب)
ترجمہ:ہم صحابہ پیشوا ہیں، ہماری اقتداء آگے چلے گی۔
تاریخ گواہ ہے کہ جو لوگ اس مقدس قافلہ کے پیچھے چلتے آئے،تابعین کہلائے"وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِـاِحْسَانٍ" (توبہ:۱۰۰) کے باعث انہیں بھی"رَضِیَ اللہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ" کا تمغہ ملا، حضرت امام مالکؒ سیدنا حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ(۱۰۰ھ)سے روایت کرتے ہیں:
"سنَّ رسولُ اللهﷺ وولاةُ الأمر من بعده سُنناً، الأخذُ بها اعتصامٌ بكتابِ الله، وقوَّةٌ على دين الله، ليس لأحدٍ تبديلُها، ولا تغييرُها، ولا النظرُ في أمرٍ خالفَها، مَنِ اهتدى بها، فهوالمهتدی، ومن استنصر بها، فهو منصور، ومن تركها واتَّبع غيرَ سبيل المؤمنين، ولاَّه اللهُ ماتولَّى، وأصلاه جهنَّم، وساءت مصيراً۔
(جامع العلوم والحکم لابن رجب الحنبلی،الحدیث الثامن والعشرون،شاملہ،موقع صید الفوائد)
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد کے ولاۃ الامر نے ان سنتوں کو قائم فرمایا، جنھیں لینا اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے تھامنا ہے اور اللہ کے دین کوتقویت پہونچانا ہے کسی کو اس کے بدلنے اوراس میں ترمیم کرنے کا حق نہیں اور نہ اس کے برعکس کسی اور طرف دھیان کرنے کا حق ہے، جس نے ان سنتوں سے ہدایت ڈھونڈی اس نے ہدایت پالی اور جس نے ان سے نصرت چاہی وہ نصرت پاگیا اور جس نے انہیں نظر انداز کردیا اور ان مؤمنین کے سوا کسی اور راہ پر چلا اللہ تعالی اسے اسی طرف پھیردیتے ہیں جدھر وہ پھرا اور اسے جہنم میں پہنچادیتے ہیں اور وہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔
حضرت عباد بن عباد الشامی دین مسلسل کی ترتیب یوں ذکر فرماتے ہیں:
"فَكَانَ الْقُرْآنُ إِمَامَ رَسُولِ اللَّهِﷺ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِﷺ إِمَاماً لأَصْحَابِهِ، وَكَانَ أَصْحَابُهُ أَئِمَّةً لِمَنْ بَعْدَهُمْ۔
(دارمی، باب رِسَالَةِ عَبَّادِ بْنِ عَبَّادٍ الْخَوَّاصِ الشَّامِى:۲/۲۳۲،شاملہ،موقع وزارۃ الاوقاف، المصریہ)
ترجمہ:قرآن کریم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا امام تھا اور حضورﷺ صحابہ کے امام تھے اور آپ کے صحابہ بعد میں آنے والے لوگوں کے امام ہیں ۔
یہ امامت مسلسل تب ہی رہ سکتی ہے کہ اگلے (بعد میں آنے والے) پچھلوں (پہلے زمانہ کے لوگوں) کے پیچھے چلیں اور ان کے بعد آنے والے پھر ان کے پیچھے چلیں صحابہ کے بعد ائمہ دین بھی اگلے آنے والوں کے پیشوا اور مقتدا ہیں اور امت مجتہدین کی اقتداء اورپیروی سے ہی اپنے تسلسل میں آگے چلتی رہی ہے۔
حضرت امام اوزاعیؒ(۱۵۷ھ)ایک موقع پر ذکر فرماتے ہیں:
"كنا قبل اليوم نضحك ونلعب، أما إذا صرنا أئمة يقتدى بنا فلا نرى أن يسعنا ذلك، وينبغي أن نتحفظ"۔
(البدایۃ والنہایۃ:۱۱/۱۲۸،شاملہ،موقع یعسوب)
ترجمہ:پہلے تو ہمارا وقت کھیل کود میں گزرا ؛لیکن جب ہم امام بن گئے اور ہماری پیروی کی جانے لگی تو ہمارے لیے اب زیبا نہیں اور ہمیں چاہیے کے ہم بچ کر رہیں۔
اس بیان سےیہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس وقت امت میں ائمہ دین کی پیروی جاری ہوچکی تھی، اس کا ائمہ کو بھی علم تھا اور اس سے وہ اپنے علم وعمل میں اور محتاط ہوکر چلتے تھے،اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضورؐ کے بعد پیروی صرف صحابہؓ کی ہی نہیں ان کے بعد آنے والے علماء وقت بھی لوگوں کا مرجع اور ان کے پیشوا ہیں،حضرت امام مالک(۱۷۹ھ)کا مسلک اس باب میں کیا تھا اس جزئیہ میں دیکھیے:
"الاجتماعُ بكرة بعدَ صلاة الفجر لقراءة القرآن بدعةٌ، ماكان أصحابُ رسول اللّٰهﷺ ، ولا العلماء بعدَهم على هذا۔
(جامع العلوم والحکم،الحدیث السادس والثلاثون:۳۶/۲۵،شاملہ،موقع صید الفوائد)
ترجمہ:صبح کی نماز کے بعد مخصوص اجتماعی شکل میں قرآن پڑھنا ایک نئی راہ ہے، حضور اکرمﷺ کے صحابہ اور بعد کے علماء کا یہ طریقہ نہ تھا ۔
اس وقت ہمیں یہاں اس مسئلہ سے بحث نہیں ہے، صرف یہ بتلانا پیش نظر ہے کہ صحابہ کے بعد اس وقت کے اعیان علم کا عمل بھی اگلے آنے والوں کے لیے توجہ کے لائق ہے اور جو بات اس دین مسلسل میں نہیں ملتی وہ دین نہیں ہے۔
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔