Wednesday 6 January 2016

The Education Of Hadees Part 3 علم حدیث مکمل

0 comments
The Education Of Hadees Part 3 علم حدیث مکمل
حدیث میں درجہ بندی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟فتوحات کی کثرت کی بنا پر جب مختلف قبیلوں اور دور دراز علاقوں میں اسلام پھیلنے لگا تو حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم مختلف جگہوں میں قیام پذیر ہوگئے، اس طرح مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ علم حدیث کے حامل کبارِ صحابہ اس دنیا سے پردہ فرمانے لگے جس کے نتیجہ میں علمِ حدیث کے حاملین کی کمی ہونے لگی، دھیرے دھیرے حق کے خلاف باطل سرابھارنے لگا ،لوگ اپنے اپنے مقاصد کے لیے حدیثیں اپنی طرف سے بناکرحضور اکرم ﷺ کی طرف اس کی نسبت کرنے لگے،مثلاً بددین لوگوں نے اپنے عقائد کے تائید میں،سیاسی گروہ سے تعلق رکھنے والوں نے اپنے پیشوا کی فضیلت اور مخالفین کی مذمت میں،بادشاہوں کو خوش کرنے کی لیےاورغیر محتاط مقررین اپنی تقریر میں رنگ جمانے کے لیے حدیثیں گڑھنےلگے،تو ان نازک حالات کے پیشِ نظر علماءِ وقت نے حدیث کی تدوین نیز اسے کتابی شکل میں لانے کی ضرورت کو محسوس کیا؛ چنانچہ علماء اور طالبینِ حدیث اس کام کے لیے کمربستہ ہوگئے، انہوں نے حدیث کی حفاظت کی اہمیت کے پیش نظر دوردراز کے متعدد اسفار کئے، اس وقت محدثین کرام علمِ حدیث کی خدمت کو شب بیداری سے افضل سمجھتے تھے اور انہوں نے اپنی عمر عزیز کا بیشتر حصہ اس اہم کام کے لیے صرف کردیا،اور من گھڑت روایتیں پیش کرنے والے راویوں کی حقیقت کو کھول کر رکھ دیا،صحیح اور موضوع روایتوں کو الگ الگ کردیا،صحیح اور ضعیف احادیث کی پہچان کے لیے اصول مقرر کیے،جس کو حدیث کا علم کہتے ہیں ،ان علوم کو جانے بغیر کوئی شخص احادیث میں کلام نہیں کرسکتا۔موجودہ زمانے میں احادیث پرصحیح یا ضعیف کا حکم لگاناموجودہ زمانے میں کسی حدیث کو علم حدیث میں مہارت کے بغیرصحیح یا ضعیف ہونے کا حکم نہیں لگایا جاسکتا ،اس لیے کہ کتابوں میں نقل کرنے سے پہلے ائمہ جرح وتعدیل راویوں کی پوری چھان بین کرتےتھے، ان کی صفات باوثوق ذریعے سے معلوم کرتے،اور علم حدیث کے تمام شرائط پر اس راوی اورروایت کو پرکھا اورجانچا جاتا تھا،اس کے بعد حدیث کا درجہ متعین کیا جاتا تھا،الغرض!ماہرین علم حدیث نے مجموعی طور پر جس حدیث کو ضعیف یا صحیح لکھا ہے ،موجودہ زمانہ میں اسی حدیث کو ضعیف یا صحیح کہا جاسکتا ہے-البتہ جن احادیث کے بارے میں صحت وضعف کا پتہ نہ چل سکے اور باوجود تلاش وجستجو کے کسی کی کوئی تصریح اس حدیث کے متعلق نے مل سکے تو پھر کتب اسماء رجال سے ہر راوی کے متعلق جملہ آراء کو جمع کیا جائے اور معتدل وحقیقت پسندانہ تبصرہ کرنے والوں کی رائے کو اہمیت دی جائے اور اس کی روشنی میں کسی حدیث کے بارے میں صحت وضعف کا فیصلہ کیا جائے ؛یہی محتاط طریقہ ہے،بلا تحقیق وجستجو کے کسی حدیث پر حکم لگانا نہایت غلط طریقہ ہے۔علوم حدیثمجموعی طور پر علم حدیث کی درج ذیل قسمیں بیان کی جاتی ہیں۔۱۔ نقل حدیث کی کیفیت و صورت ۔ نیز یہ کہ وہ کس کا فعل وتقریر ہے ۔۲۔نقل حدیث کے شرائط۔ ساتھ ہی یہ بھی کہ نقل کی کیا کیفیت رہی ۔۳۔ اقسام حدیث باعتبار سند و متن ۔۴۔احکام اقسام حدیث ۔۵۔احوال راویان حدیث ۔۶۔ شرائط راویان حدیث ۔۷۔ مصنفات حدیث ۔۸۔اصطلاحات فن ۔راویوں کی تعداد کے اعتبار سے حدیث کی قسمیںحدیث نقل کرنے والے کو راوی کہتے ہیں،اس لحاظ سے حدیث کی چار قسمیں ہیں،متواتر،مشہور،غریب،عزیز۔متواتر:وہ حدیث ہے جس کو رسول اللہ ﷺ سے آج تک اتنی بڑی جماعت نقل کرتی آئی ہو کہ عادتاً ان کا جھوٹ پر متفق ہوجانا ناقابل تصور ہو۔مشہور:وہ حد یث ہے جس کو ہر زمانے میں تین یا اس سے زیادہ راویوں نے نقل کیا ہو،اگر سلسلہ سند میں کہیں بھی راویوں کی تعداد کسی زمانے میں تین سے کم ہوگئی ہو تو خبر مشہور باقی نہیں رہے گی۔عزیز:وہ حدیث ہے جس کی روایت کرنے والے کسی زمانے میں دو سے کم نہ ہوں۔غریب:وہ حدیث ہے جس کے سلسلہ سند میں کسی زمانے میں بھی راوی کی تعداد صرف ایک رہ گئی ہو،حدیث غریب کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ غیر معتبر ہوتی ہے؛ بلکہ حدیث غریب کبھی صحیح کبھی حسن اور کبھی ضعیف کے درجے کی ہوتی ہے۔مقبول حدیث کی پہچان اور اس کی قسمیںمقبول یعنی وہ حدیث جس کی رسول اللہ ﷺ کی طرف نسبت کا درست ہونا راجح ہو،اس کی چار قسمیں ہیں،صحیح لذاتہ،صحیح لغیرہ،حسن لذاتہ،حسن لغیرہ۔صحیح لذاتہ:وہ حدیث ہےجس کو عادل اور قوی الحفظ راویوں نے اس طرح نقل کیا ہو کہ سند میں کہیں انقطاع نہ ہو اور وہ علت اور شذوذ سے محفوظ ہو۔(عادل سے مراد جو گناہوں اور دنائت کی باتوں سے بچتا ہو،قوی الحفظ وہ ہے جو سنی ہوئی بات کو بغیر کمی بیشی کے محفوظ رکھ سکتا ہواصطلاح میں اس کو ضبط کہتے ہیں،علت روایت میں پائی جانے والی ایسی پوشیدہ کمزوری کو کہتے ہیں جس پر اہل فن ہی واقف ہوسکیں،شذوذ کا مطلب یہ ہے کہ راوی نے سند یا حدیث کے مضمون میں اپنے سے بہتر راوی کی مخالفت کی ہو)۔صحیح لغیرہ:وہ حدیث ہےجس کا راوی ضبط میں تھوڑا کمزور ہو؛لیکن دوسری کئی سندوں سے منقول ہونے کی وجہ سے صحیح کے درجے میں آجائے۔حسن لذاتہ:وہ حدیث ہے جس کا راوی عادل ہو؛ لیکن ضبط میں کچھ کم ہواور اس میں شذوذ و علت پائی جائے۔حسن لغیرہ:وہ حدیث ہے جس کی سند میں کوئی راوی عدل یا ضبط کے اعتبار سے کمزور ہو ؛لیکن کثرت طرق کی وجہ سے اس کی تلافی ہوجائے۔ضعیف حدیث کی پہچان اور اس کی قسمیںحدیث ضعیف:وہ حدیث ہے جس کی سند میں اتصال نہ ہو یا راوی عادل نہ ہو یا راوی کا حافظہ بہتر اور قابل اعتماد نہ ہو،حدیث ضعیف کی بہت قسمیں ہیں،بنیادی طور پر دو اسباب کی وجہ سے حدیث ضعیف کہلاتی ہے(۱)سند میں کسی مقام پرراوی کا چھوٹ جانا(۲)حدیث کے راویوں میں جن اوصاف کا پایاجانا ضروری ہے وہ نہ پائے جائیں۔چند اصطلاحات ِحدیثحضورﷺ سے جو چیز منقول ہوا سے‘‘حدیث مرفوع’’اور جو صحابی سے منقول ہو اسے ‘‘حدیث موقوف’’ اور جو تابعی سے منقول ہواسے‘‘حدیث مقطوع’’ کہتے ہیں ، حدیث کے ناقل کو ‘‘راوی’’اور حدیث کو‘‘روایت’’ کہتے ہیں اور ناقلین کے نام کے مجموعہ کو‘‘سند’’ اور اصل مضمون کو ‘‘متن’’ کہتے ہیں۔کتب احادیث کی چند قسمیںصحیح:وہ کتب حدیث ہیں جن میں مؤلف نے صحیح احادیث کے نقل کرنے کا اہتمام کیا ہو،جیسے مؤطا امام مالک ، بخاری،مسلم،ترمذی،ابوداؤد،نسائی،ابن ماجہ،صحیح ابن خزیمہ اور صحیح ابن حبان،ان کتابوں میں مؤلفین نے اپنی دانست میں صحیح وحسن روایات کو نقل کرنے کا اہتمام کیا ہے اور اگر کہیں کسی مصلحت سے قصداً ضعیف روایت نقل کی ہیں تو ان کا ضعف بھی ظاہر کردیا ہے۔جامع:وہ کتابیں جن میں آٹھ قسم کی مضامین ہوں ‘‘عقائد، احکام، رقاق، آداب، تفسیر، سیر،مناقب،فتن’’بخاری اور ترمذی بحیثیت جامع زیادہ ممتاز ہیں۔سنن:وہ کتب جن میں فقہی ترتیب سے روایات جمع کی گئی ہوں،جیسے ابوداؤد اور ترمذی وغیرہ۔مصنف:ایسی کتابیں جو فقہی ترتیب پر مرتب کی جاتی ہیں؛ مگر ان میں احادیث مرفوعہ کے ساتھ صحابہ وتابعین کے فتاویٰ بھی مذکور ہوں ،جیسے مصنف عبدالرزاق اور مصنف ابن ابی شیبہ۔مسند: وہ کتابیں ہیں جن میں ہر صحابی کی مرویات کو ایک جگہ جمع کیا گیا ہو جیسے مسند احمد بن حنبل وغیرہ۔معجم:جس میں ایک استاذ کی مرویات کو راوی نے جمع کیا ہو جیسے طبرانی کی معجم وغیرہ۔( حدیث کا یہ ایک مختصر تعارف تھا اس عنوان کے تحت تمام تفصیلات آگےملاحظہ فرمائیں)================================================

The Education Of Hadees Pat 2 علم حدیث مکمل

0 comments

The Education Of Hadees Pat 2 علم حدیث مکمل 

حدیث پڑھنے کا فائدہحدیث پڑھنے والا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ایک نورانی سلسلہ قائم ہوجاتا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ بار بار درود شریف پڑھنے کی توفیق ملتی ہے، جو سعادتِ دارین کا باعث ہے جس کے بے شمار فوائد ہیں، اس طرح علم حدیث کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ اس سے زندگی میں نبوی طریقوں پر عمل پیرا ہونا آسان ہوجاتا ہے جس کا اللہ نے قرآن میں ‘‘اَطِیْعُواالرَّسُوْلَ’’(رسول کی اطاعت کرو)کے ذریعہ حکم دیا ہے، جب کسی ذاتِ بابرکت کے حالات کا عرفان ہوتا ہے تو اس کی تعلیمات پر چلنا اور احکامات کو بجالاناآسان ہوجاتا ہے،حدیث پڑھنے اور اس پر عمل کرنے والا حضور ﷺ کی اس دعا میں شامل ہوجاتا ہے: اللہ اس بندہ کو آسودہ حال رکھے جس نے میری بات(حدیث) سن کر یاد کیا پھر اسے اسی طرح دوسروں تک پہونچایا۔تدوینِ حدیثحدیث کی عظمت وفضیلت اور زندگی کے ہرشعبہ میں اس کی ضرورت کے پیشِ نظر حدیث کی حفاظت وصیانت اور کتابت کا اہتمام زمانۂ رسالت ہی سے کیا گیا؛ چنانچہ احادیث کی تحریر سے قطعِ نظرصحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے علم حدیث کے اصول اور حفظ وضبط کے لیے اللہ کی عطا کردہ غیرمعمولی حافظہ کی تیزی اور ذہن کی سلامتی کا سہارا لیا۔حفاظتِ حدیث کے طریقےعہدِ رسالت اور عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں حفاظتِ حدیث کے لیے تین طریقے (حفظِ روایت، تعامل اور تحریر وکتابت) اپنائے گئے تھے جو یہاں ذکر کئے جاتے ہیں۔حفظِ روایتحفاظتِ حدیث کا پہلا طریقہ احادیث کو یاد کرنا ہے اور یہ طریقہ اس دور کے لحاظ سے انتہائی قابل اعتماد تھا، اہلِ عرب کو اللہ تعالیٰ نے غیرمعمولی حافظے عطا فرمائے تھے، وہ صرف اپنے ہی نہیں بلکہ اپنے گھوڑوں تک کے نسب نامے ازبر یاد کرلیا کرتے تھے، ایک ایک شخص کو ہزاروں اشعار حفظ ہوتے تھے ،یہی نہیں بلکہ؛یہ حضرات بسااوقات کسی بات کو صرف ایک بار سن کر یادیکھ کر پوری طرح یاد کرلیتے تھے، تاریخ میں اس کی بے شمار مثالیں ہیں، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے متعلق مشہور ہے کہ ان کے سامنے عمر بن ابی ربیعہ شاعر آیا اور ستر اشعار کا ایک طویل قصیدہ پڑھ گیا، شاعر کے جانے کے بعد ایک شعر کے متعلق گفتگو چلی، ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مصرعہ اس نے یوں پڑھا تھا، جو مخاطب تھا اس نے پوچھا کہ تم کو پہلی دفعہ میں کیا پورا مصرعہ یاد رہ گیا؟ بولے کہو تو پورے ستر شعر سنادوں اور سنادیا۔علماء اسلام کا خیال ہے کہ علاوہ اس کے کہ عرب کا حافظہ قدرتی طور پر غیرمعمولی تھا یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ قرآن مجید کے متعلق جس نے ‘‘وَإِنَّالَہُ لَحَافِظُوْنَ’’ کا اعلان کیا تھا اسی نے قرآن کی عملی شکل یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی حفاظت جن کے سپرد کی تھی ان کے حافظوں کو غیبی تائیدوں کے ذریعہ سے بھی کچھ غیرمعمولی طور پر قوی تر کردیا تھا، وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کو محفوظ کرنااپنے لیے راہِ نجات سمجھتےتھے، خاص طور پر جب کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ان کے سامنے آچکا تھا:‘‘نَضَّرَ اللَّهُ عَبْدًا سَمِعَ مَقَالَتِي فحفظھا ووعاھا واداھا کماسمع’’۔(ترمذی، باب ماجاء فی الحث علی تبلیغ السماع، حدیث نمبر:۲۵۲۸۔ ابن ماجہ، باب من بلغ علی، حدیث نمبر:۲۲۶۔ مسنداحمد، حدیث جبیر بن مطعم، حدیث نمبر:۱۶۷۸۴۔ مسند شافعی، فدب حامل فقہ غیرفقیہ، حدیث نمبر:۱۱۱۵)اللہ اس بندہ کو آسودہ حال رکھے جس نے میری بات(حدیث) سن کر یاد کیا پھر اسے اسی طرح دوسروں تک پہونچایا۔طریقۂ تعاملحفاظتِ حدیث کا ایک اور طریقہ جو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے اختیار کیا تھا وہ تعامل تھا ؛یعنی صحابۂ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال پر بجنسھا عمل کرکے اسے یاد کرتے تھے، ترمذی شریف اور دیگر حدیث کی کتابوں میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ انھوں نے کوئی عمل کیا اور اس کے بعد فرمایا: ‘‘ھٰکَذَا رَأَیْتُ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّیَ اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ’’ بلاشبہ یہ طریقہ بھی نہایت قابلِ اعتماد ہے اس لیے کہ انسان جس بات پر خود عمل پیرا ہوتا ہے تو وہ ذہن میں اچھی طرح راسخ ہوجاتی ہے۔طریقۂ کتابتحدیث کی حفاظت کتابت وتحریر کے ذریعہ سے بھی کی گئی ہے، تاریخی طور پر کتابتِ حدیث کو چار مراحل پر تقسیم کیا جاتا ہے:(۱)متفرق طور سے احادیث کو قلمبند کرنا۔(۲)کسی ایک شخصی صحیفہ میں احادیث کو جمع کرنا جس کی حیثیت ذاتی یاد داشت کی ہو۔(۳)احادیث کو کتابی صورت میں بغیر تبویب(ابواب) کے جمع کرنا۔(۴)احادیث کو کتابی شکل میں تبویب (ابواب)کے ساتھ جمع کرنا۔عہدِرسالت اور عہدِ صحابہ میں کتابت کی پہلی دوقسمیں اچھی طرح رائج ہوچکی تھیں، منکرینِ حدیث عہدِرسالت میں کتابتِ حدیث کو تسلیم نہیں کرتے اور مسلم وغیرہ کی اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں جو ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘لَاتَکْتُبُوْا عَنِّیْ وَمَنْ کتب عنی غَیْرَالْقُرْآن فَلْیَمْحُہٗ’’ منکرینِ حدیث کا یہ کہنا ہے کہ حضورﷺ کا کتابتِ حدیث سے منع فرمانا اس بات کی دلیل ہے کہ اس دور میں حدیثیں نہیں لکھی گئیں؛ نیزاس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ احادیث حجت نہیں؛ ورنہ آپ انھیں اہتمام کے ساتھ قلمبند فرماتے؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کتابتِ حدیث کی یہ ممانعت ابتداء اسلام میں تھی۔ذیل میں ہم کتابتِ حدیث سے ممانعت کی وجوہ اور اس کے متعلق اعتراضات کے جوابات پیش کررہے ہیں،کاتبین کی سہولت کے باوجود عمومی طور پر حدیث کی کتابت اور تدوین کی جانب توجہ نہ دینے کے درجِ ذیل اسباب ہیں:(۱)اپنے فطری قوتِ حافظہ کی حفاظت مقصود تھی؛ کیونکہ قیدِ تحریر میں آجانے کے بعد یادداشت کے بجائے نوشتہ پر اعتماد ہوجاتا۔(۲)قرآن کریم کے لفظ اور معنی دونوں کی حفاظت مقدم اور ضروری تھی اس لیے لکھنے کا اہتمام کیا گیا ،جب کہ حدیث کی روایت بالمعنی بھی جائز تھی؛ اس لیے حدیث کے نہ لکھے جانے میں کوئی نقصان نہیں تھا۔(۳)عام مسلمانوں کے اعتبار سے یہ اندیشہ تھا کہ قرآن اور غیرقرآن یعنی حدیث ایک ہی چمڑے یاہڈی پر لکھنے کی وجہ سے خلط ملط ہوسکتے ہیں؛ اس لیے احتیاطی طور پر رسول اللہﷺنے قرآن کریم کے علاوہ احادیث نبویہ کو لکھنے سے منع فرمایا؛ چنانچہ حضرت ابوسعید خدریؓ اور حضرت ابوہریرہؓ سے مروی حدیث جس میں کتابتِ حدیث سے ممانعت فرمائی گئی اسی مصلحت پر مبنی ہے۔(۴)ابتداءِ اسلام میں تحریرِ حدیث کی ممانعت تھی پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عوارضات کے ختم ہونے کے بعد تحریرِ حدیث کی اجازت مرحمت فرمائی جس کے متعلق درجِ ذیل احادیث سے تائید ہوتی ہے:(۱)حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص فرماتے ہیں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنتا تھا اسے محفوظ رکھنے کی غرض سے لکھ لیا کرتا تھا ،قریش کے لوگوں نے مجھے منع کیا کہ تم ہربات رسول اللہﷺ سے لکھ لیا کرتے ہو؛ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان ہیں ،ان پر بھی خوشی اور غصہ دونوں حالتیں طاری ہوتی ہیں؛ چنانچہ میں لکھنے سے رُک گیا اور رسول اللہﷺ کے پاس جاکر یہ بات میں نے عرض کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگشتِ مبارک سے اپنے دہنِ مبارک کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:‘‘اكْتُبْ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَايَخْرُجُ مِنْهُ إِلَّاحَقٌّ’’۔(ابوداؤد،بَاب فِي كِتَابِ الْعِلْمِ حدیث نمبر:۳۱۶۱)تم لکھتے رہو؛ کیونکہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، میرے منہ سے حق بات ہی کا صدور ہوتا ہے۔(۲)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں مجھ سے زیادہ حدیثوں کا جامع کوئی نہیں ہے سوائے عبداللہ بن عمرو کے؛ کیونکہ وہ لکھتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا۔(بخاری شریف، کتاب العلم، باب کتابۃ العلم:۱/۲۲)(۳)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے منقول ہے کہ ایک انصاری شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے حافظہ کی کمزوری کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘اسْتَعِنْ بِيَمِينِكَ’’ (یعنی اسے لکھ لو)۔(ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي الرُّخْصَةِ فِيهِ، حدیث نمبر:۲۵۹۰)اس قسم کی احادیث اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ کتابتِ حدیث کی ممانعت کسی امرِعارض کی بناپر تھی اور جب وہ عارض مرتفع ہوگیا تواس کی اجازت؛ بلکہ حکم دیا گیا؛ اسی لیے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ کے دور میں حدیث کے کئی مجموعے (جو ذاتی نوعیت کے تھے) تیار ہوچکے تھے، جیسے صحیفۂ صادقہ، صحیفۂ علی، کتاب الصدقہ، صحفِ انس بن مالک، صحیفۂ سمرہ بن جندب، صحیفۂ سعد بن عبادہ اور صحیفۂ ہمام بن منبہ رضی اللہ عنہم، یہ صحیفے اس بات کی وضاحت کے لیے کافی ہیں کہ عہدِ رسالت اور عہدِ صحابہ میں کتابتِ حدیث کا طریقہ خوب اچھی طرح رائج ہوچکا تھا؛ لیکن اتنی بات ضروری ہے کہ خلفائے ثلاثہ کے دور میں قرآن کی طرح تدوین واشاعتِ حدیث کا اہتمام نہیں ہوا؛ لیکن حضورﷺ کی زندگی عہدِ صحابہ میں بجائے ایک نسخہ کے ہزاروں نسخوں کی صورت میں موجود ہوچکی تھی اس اعتبار سے تدوینِ حدیث کی ایک صورت خود صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگی تھی۔مدوّنِ اوّلسب سے پہلے حدیث کی تدوین اور اس کو کتابی شکل میں جمع کرنے کا حکومت کی جانب سےحکم حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ(۱۰۱ھ) نے دیا ہے، آپ کے مبارک دور میں احادیث کی باضابطہ تدوین کی تحریک پیدا ہوئی ہے، اس لیے کہ اب قرآن کریم سے احادیث کے اختلاط والتباس کا اندیشہ نہ تھا، صحیح بخاری میں ہے۔(۱)َكَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ إِلَى أَبِي بَكْرِ بْنِ حَزْمٍ انْظُرْ مَا كَانَ مِنْ حَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاكْتُبْهُ فَإِنِّي خِفْتُ دُرُوسَ الْعِلْمِ وَذَهَابَ الْعُلَمَاءِ..الخ(بخاری،باب کیف یقبض العلم،۱۷۵/۱)حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ابوبکر بن حزم کو لکھا کہ آنحضرتﷺ کی احادیث پر نظر رکھیں اورانہیں لکھ لیں؛کیونکہ مجھے علم کے مٹ جانے اور علماء کے اٹھ جانے کا ڈر ہےالغرض اس طرح تدوینِ حدیث کے اس اہم کام کا آغاز ہوا جس کے نتیجہ میں پہلی ہجری کے آخر میں حدیث کی بہت سی کتابیں وجود میں آگئی تھیں، جیسے: کتب ابی بکر، رسالہ سالم بن عبداللہ فی الصدقات، دفاتر الزھری، کتاب السنن لمکحول، ابواب الشعبی۔یہ حدیث کی کتابوں میں تبویب کی ابتداء تھی، دوسری صدی ہجری میں تدوینِ حدیث کا یہ کام نہایت تیزی اور قوت کے ساتھ شروع ہوا؛ چنانچہ اس دور میں حدیث کی لکھی گئی کتابوں کی تعداد بیس سے بھی زیادہ ہے جن میں سے چند مشہور کتابیں یہ ہیں:کتاب الاثار لابی حنیفہ، المؤطا للامام مالک، جامع معمربن راشد، جامع سفیان الثوری، السنن لابن جریج، السنن لوکیع بن الجراح اور کتاب الزہد لعبداللہ بن المبارک، وغیرہ۔تدوینِ حدیث کا کام تیسری صدی ہجری میں اپنے شباب کو پہونچ گیا جس کے نتیجہ میں اسانید طویل ہوگئیں، ایک حدیث کو متعدد طرق سے روایت کیا گیا؛ نیزشیوعِ علم کی بنا پر فن حدیث پر لکھی گئی کتابوں کو نئی تبویب اور نئے انداز سے ترتیب دیا گیا اس طرح حدیث کی کتابوں کی بیس سے زیادہ قسمیں ہوگئیں پھر اسماء الرجال کے علم نے باقاعدہ صورت اختیار کرلی اور اس پر بھی متعدد کتابیں لکھی گئیں؛ الغرض اسی دور میں صحاحِ ستہ کی بھی تالیف ہوئی جس سے آج تک امت مستفید ہورہی ہے۔خلاصۂ کلام یہ ہے کہ حدیث کی حفاظت وصیانت اور کتابت کا آغاز زمانۂ رسالت ہی سے ہوگیا تھا اور حدیث کی حفاظت کے لیے حفظِ روایت، طریقۂ تعامل اور تحریر سے کام لیا گیا،اور تیسری صدی ہجری تک حدیثوں کوپورے طور پرمدون کردیا گیا۔سنت اور حدیث میں فرقسنت کا لفظ عمل متوارث پر آتا ہے اس میں نسخ کا کوئی احتمال نہیں رہتا،حدیث کبھی ناسخ ہوتی ہےکبھی منسوخ ؛مگر سنت کبھی منسوخ نہیں ہوتی، سنت ہے ہی وہ جس میں توارث ہواور تسلسلِ تعامل ہو،حدیث کبھی ضعیف بھی ہوتی ہے کبھی صحیح، یہ صحت وضعف کا فرق ایک علمی مرتبہ ہے،ایک علمی درجہ کی بات ہے، بخلاف سنت کے کہ اس میں ہمیشہ عمل نمایاں رہتا ہے.(اٰثار الحدیث:۶۲).............جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

The Education Of Hadees علم حدیث کلاس 1

0 comments

The Education Of Hadees علم حدیث کلاس 1

حدیث کی لغوی تعریف
حدیث کےمعنی بات اور گفتگو کے ہیں،علامہ جوہری صحاح میں لکھتے ہیں:
‘‘اَلْحَدِیْثُ الْکَلَامُ قَلِیْلُہُ وَکَثِیْرُہُ ’’۔
حدیث بات کو کہتے ہیں خواہ وہ مختصر ہو یا مفصل۔
حدیث کی اصطلاحی تعریف
حضورﷺ کےاقوال ،افعال اور تقریرات کے مجموعہ کو حدیث کہتے ہیں،اقوال سے مراد آپﷺ کی زبان مبارک سے نکلےہوئے کلمات ہیں،افعال سے مراد آپﷺ کے اعضاءسے ظاہر شدہ اعمال ہیں اور تقریر سے مراد: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنےکسی صحابی نے کچھ کیا یا کہااور آپ نے اس پر سکوت فرمایا نکیر نہ کی اور اس سے یہی سمجھا گیاکہ اس عمل یا قول کی حضورﷺ نے تصدیق فرمادی ہے تو اسی تصدیق کو ‘‘تقریر’’ confirmationکہتے ہیں اور آپ کی یہ تصدیق تقریری صورت کہلاتی ہے۔
حدیث کی حیثیت قرآن کریم میں
شریعتِ اسلامیہ کی اساس اور بنیاد قرآن اور سنتِ رسول اللہ ہے ؛چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ کو بحیثیتِ مطاع (یعنی جس کی اطاعت کی جائے) پیش کیا ہے، فرمانِ باری ہے:
(۱)‘‘یَاأَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا أَطِیْعُو اللہَ وَأَطِیْعُوالرَّسُوْلَ وَلَاتُبْطِلُوْا أَعْمَالَکُمْ’’۔
(محمد:۳۳)
اے ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرو۔
اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم کی طرح حضورﷺ کے اقوال، افعال اور تقریرات کی بھی اتباع کرنا ضروری ہے ،اللہ تعالیٰ نے مستقل طور سے اس کا حکم دیا ہے۔
(۲)نیز ارشاد خدا وندی ہے:‘‘وَأَنْزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِنَّاسِ مَانُزِّلَ إِلَیْھِمْ وَلَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ’’۔
(النحل:۴۴)
اور(اے پیغمبر!)ہم نے تم پر بھی یہ قرآن اس لیے نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اُن باتوں کی واضح تشریح کردو جو اُن کے لیے اتاری گئی ہیں اور تاکہ وہ غور وفکر سے کام لیں۔
اس آیت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیان کی جو ذمہ داری لی ہے اس کی تکمیل رسول اللہﷺ کریں گے، آپ کا بیان اللہ ہی کا بیان ہوگا اور یہ بات اسی وقت ممکن ہے کہ آپﷺ نے قرآن کی تبیین وتشریح وحی کے ذریعہ فرمائی ہو ورنہ اس کو اللہ کا بیان کیسے کہہ سکتے ہیں۔
(۳)ایک اور جگہ ارشاد ہے‘‘وَمَایَنْطِقُ عَنِ الْھَوَیo إِنْ ھُوَإِلَّاوَحْیٌ یُوْحَی‘‘۔
(النجم:۳،۴)
اور یہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے،یہ تو خالص وحی ہے جو ان کے پاس بھیجی جاتی ہے ۔
(۴)نیز اللہ تعالی کا ارشاد ہے:‘‘وَمَاآتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَانَھَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا’’۔
(الحشر:۷)
رسول تم کو جو کچھ دیں وہ لے لو اور جس چیز سے تم کو روک دیں رک جاؤ۔
ان دونوں آیتوں میں واضح طور پر حدیث کا مقام معلوم ہورہا ہے کہ اللہ تعالی نے حضور اکرم ﷺ کے ارشادات کو وحی الہٰی سے تعبیر فرمایا اور امت کو حکم دیا کہ حضور اکرم ﷺ جس بات کا حکم دیں اس کو اختیار کرو اور جس بات سے منع کریں اس سے رک جاؤ۔
احادیث میں حدیثِ رسولﷺ کی حیثیت
(۱)آپﷺ کی ارشاد ہے:"أَلَاإِنِّي أُوتِيتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ"۔
(ابوداؤد، باب فی لزوم السنۃ، حدیث نمبر:۳۹۸۸)
خبردار رہو کہ مجھے قرآن کے ساتھ اس کا مثل بھی دیا گیا ہے۔
حضرت زید بن ثابت ؓ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا :
(۲)حدیث کے حفظ اور یادداشت کی ترغیب دیتے ہوئے آپﷺ نے فرمایا:نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا فَحَفِظَهُ حَتَّى يُبَلِّغَهُ غَيْرَه۔
(ترمذی،بَاب مَا جَاءَ فِي الْحَثِّ عَلَى تَبْلِيغِ السَّمَاعِ،حدیث نمبر:۲۵۸۰ شاملہ،موقع الاسلام)
اللہ تعالی اس شخص کو تازگی بخشیں جس نے ہم سے کو ئی حدیث سنی اسے یاد رکھا؛ یہاں تک کہ اسے کسی دوسرے تک پہنچایا۔
(۳)ایک اور حدیث میں ہے:فَلْيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ
(مسلم، بَاب تَغْلِيظِ تَحْرِيمِ الدِّمَاءِ وَالْأَعْرَاضِ وَالْأَمْوَالِ،حدیث نمبر:۳۱۸۰،شاملہ، موقع الاسلام)
جو حاضر ہے وہ اسے غائب تک پہنچادے۔
خطبۂ حجۃ الوداع کے موقع پر آنحضرت ﷺ نے متنبہ فرمایا کہ آپ کی یہ حدیث آج صرف اسی اجتماع کے لیے نہیں یہ کل انسانوں کے لیے راہ ہدایت ہے جو آج موجود ہیں اور سن رہے ہیں وہ ان باتوں کو دوسروں تک پہنچادیں۔
علاوہ ازیں ایک حدیث میں ہے:
(۴)‘‘كان جبريل عليه السلام ينزل على رسول الله صلى الله عليه وسلم بالسنة كماينزل عليه بالقرآن، ويعلمه إياها كمايعلمه القرآن’’۔
(مراسیل ابوداؤد، باب فی البدع، حدیث نمبر:۵۰۷)
حضرت جبرئیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سنتوں کا علم لے کر ایسے ہی نازل ہوتے تھے جیسے قرآن آپﷺ پر لےکرنازل ہوتے تھےاور اس کو ایسے ہی سکھاتے تھے جیسے قرآن کو سکھاتے تھے۔
ان میں واضح طور پر یہ مضمون بیان کیا گیا ہے کہ حدیثیں بھی قرآن کی طرح وحی ہیں،
احکامِ اسلامیہ پر عمل کے لیےحدیث کی ضرورت
اسلامی احکامات پر عمل پیرا ہونے کے لیے اور قرآن کریم کو اچھی طرح سمجھنے کےلیےاحادیث کا علم ضروری ہے ، اس کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم میں اسی ۸۰/سے زیادہ جگہوں میں نماز کا حکم دیا گیا، کہیں ‘‘اَقِیْمُوْا الصَّلٰوۃ’’(نماز قائم کرو) کہا گیا ہے تو کہیں‘‘یُقِیْمُوْنَ الصَّلَوۃ’’ (نماز کو قائم کرتے ہیں)کہا گیا ہے؛ مگر سوال یہ ہے کہ نماز کس چیز کا نام ہے؟قیام،رکوع،سجدہ وغیرہ کس طرح کیا جاتا ہے،اس کی ترکیب کیا ہے ؟ قرآن کریم میں کہیں یہ بات بیان نہیں کی گئی ہے؛ البتہ قرآن میں نماز کے ارکان کا مختلف الفاظ سے مختلف جگہ تذکرہ آیا ہے، نبیٔ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازکے تمام ارکان کو جمع کرکے اس کوادا کرنے کا طریقہ بتایا ؛ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے فرائض، واجبات، سنن، مستحبات، آداب، مکروہات اور ممنوعات ہرایک کو تفصیل سے بیان کیا؛ اسی طرح نماز مسجد میں قائم کرنے کا حکم دیا ؛تاکہ نماز کا اہتمام ہو اور اذان وجماعت کا نظام بنایا، امام ومؤذن کے احکام بیان کئے اور پانچوں نمازوں کے اوقات متعین کئے اور ان اوقات کے اوّل وآخر کو بیان کیا؛ غرض تقریباً دوہزار حدیثیں ‘‘یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃ’’ کی تفسیر کرتی ہیں ان دوہزار احادیث کو اگر ‘‘یُقِیْمُوْنَ الصّلٰوۃ’’ کے ساتھ نہ لکھا جائے تو اقامتِ صلوٰۃ کی حقیقت سمجھ میں نہیں آسکتی، اور صرف نماز ہی نہیں؛ بلکہ اسلام کے تمام تفصیلی احکامات کا علم احادیث ہی سے مکمل ہوتا ہے۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،جاری ہے


مرزا غلام قادیانی کی حدیث پر جاہلانہ تاویل

0 comments

مرزا غلام قادیانی کی حدیث پر جاہلانہ تاویل

مرزا غلام احمد قادیانی ایک ایسا کذاب تھا جس نے ہمیشہ من گھڑت تاویلوں کا سہارا لے کر اپنی جھوٹی نبوت کی دکان چمکائی اور لوگوں کو گھمراہی میں دھکیل گیا . ایسی ایسی تاویلیں کی کہ بندھے کی عقل حیران رہ جاتی ہے. یہ تاویلات کی فیکٹری کہاں تھی کسی کو نہیں معلوم کہ مرزا کی عقل سلیم میں یہ تاویلات کہاں سے طول پکڑتی تھی . اگر مرزائی مرزا کی بے تکی تاویلات پر ہی غور کریں تو وہ مرزائیت سے توبہ کر لے لیکن کیا ہے کہ ان کے دماغ اور دل پر کفر کی مہر لگ چکی ہے .مرزا کسی بھی حدیث کو خواب، کشف ، استعارہ ، رویا ، تمثل بنا دیتا، لیکن مرزا ان سب الفاظ کا فرق نہیں جانتا تھا ، یہی وجہ مرزا کی کوئی بھی تاویل اصل سیاق و سباق سے ہٹ کر ہوتی تھی جس کا ( اوریجنل کونٹیکسٹ ) سے کوئی تعلق نہ ہوتا تھا ، مرزا نے عربی زبان پر اردو میں قیاس کیا ، تو کبھی عربی سے اردو ٹرانسلیشن میں ہی تاویلیں کرتا گیا ، اور اس طرح اس وقت کے لوگوں کو یہ چندے کے حصول کے لئے بے وقوف بناتا گیا اور گھمراہ کرتا گیا .اس کا نمونہ آپ اس پوسٹ میں دیکھ سکتے ہیں .
زرد رنگ کی چادروں کے متعلق حدیث توطویل ہے لیکن میں پوسٹ کے عنواں مدنظر رکھتے ہوۓ زرد رنگ کی چادروں والا ہی حضہ کاپی کر رہا ہوں :
"سیدنا نواس ابن سمعان رضی اﷲ عنہ سے ایک طویل حدیث مروی ہے کہ دجّال کا فتنہ ظہور پذیر ہوچکا ہوگا اور وہ لوگوں کو شعبدے دکھا دکھاکر اپنی طرف مائل اور کفر میں لے جارہاہوگا۔ اسی دوران اﷲ تعالیٰ مسیح ابن مریم علیہما السلام کو بھیجے گا ۔ وہ دمشق کے مشرق میں سفید منارہ پر نزول فرماہوں گے، زرد رنگ کے دوکپڑوں)چادروں) میں ملبوس ہوں گے، اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے کاندھوں پر رکھے ہوں گے ۔ سرکو جھکائیں گے تو پانی کے قطرے گریں گے۔ اور جب سرکو اوپر کی طرف اٹھائیں گے تو اس سے صاف شفاف پانی کے قطرے سفید موتیوں کی طرح نظر آئیں گے۔ ان کی سانس جس کا فر تک جائے گی وہ مرتاچلاجائے گا اور ان کی سانس کی ہوا وہاں تک جائے گا جہاں تک ان کی نگاہ جائے گی ۔ وہ دجّال کا پیچھا کرتے ہوئے اسے )دمشق کی فصیل کے ) ’’باب لُدّ‘‘ کے قریب جاکر قابو کرکے اسے قتل کرڈالیں گے۔(صحیح مسلم، باب ذکر الدجال)"
اس حدیث پر مرزا نے کیا تاویل پکڑی اور کیا فرمایا نیچے ریفرنس میں دیکھیں :
زرد چادروں کی تعبیر علم تعبیر الرؤیا کے رُو سے ٢ بیماریاں ہیں :
مَیں ایک دائم المرض آدمی ہوں اور وہ دو زرد چادریں جن کے بارے میں حدیثوں میں ذکر ہے کہ ان دو چادروں میں مسیح نازل ہوگا وہ دو۲ زرد چادریں میرے شامل حال ہیں جن کی تعبیر علم تعبیر الرؤیا کے رُو سے دو بیماریاں ہیں۔ (روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- اربعین: صفحہ 470)
۔انبیاء علیھم السلام کے اتفاق سے زرد چادر کی تعبیر بیماری ہے:
سو یہ وہی دو زرد چادریں ہیں جو میری جسمانی حالت کے ساتھ شامل کی گئیں ۔انبیاء علیھم السلام کے اتفاق سے زرد چادر کی تعبیر بیماری ہے اور دو زرد چادریں دو بیماریاں ہیں جو دو حصہ بدن پر مشتمل ہیں اور میرے پر بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے یہی کھولا گیا ہے کہ دو زرد چادروں سے مُراد دو بیماریاں ہیں اور ضرور تھا کہ خدا تعالیٰ کا فرمودہ پورا ہوتا۔ (روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ٢٢-: صفحہ ٣٢٠)
تمام معبّرین کے اتفاق سے تعبیر کی رو سے زرد رنگ چادر سے بیماری مراد ہوتی ہے:
اور یہ ہم نے اس لئے کہا کہ احادیث سے ثابت ہے کہ آنے والا عیسیٰ زعفرانی رنگ کی دو چادروں میں نازل ہو گا۔ اور تمام معبّرین کے اتفاق سے تعبیر کی رو سے زرد رنگ چادر سے بیماری مراد ہوتی ہے۔ (روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 373)
تمام اہلِ تعبیر اس پر متفق ہیں:
کیونکہ لکھا ہے کہ وہ دو زرد چادروں میں اُترے گا سو یہ وہی د۲و زرد رنگ کی چادریں ہیں۔ ایک اوپر کے حصّہء بدن پر اَور ایک نیچے حصّہء بدن پر۔ کیونکہ تمام اہلِ تعبیر اس پر متفق ہیں کہ عالمِ کشف یا عالمِ روء یا میں جو نبوت کا عالم ہے اگر زرد چادریں دیکھی جائیں تو ان سے بیماری مُراد ہوتی ہے۔ (روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 436)
دوچادریں اور تین بیماریاں. تین کو دو بناتے ہوۓ :
اور ایک دفعہ یہ ذکر آیا کہ احادیث میں ہے کہ مسیح موعود دو زرد رنگ کی چادروں میں اترے گا .ایک چادر بدن کے اوپر حصہ میں ہو گی اور دوسری چادر بدن کے نیچے کے حصہ میں . سو میں نے کہا کہ یہ اس طرف اشارہ تھا کہ مسیح موعود دو بیماریاں کے ساتھ ظاہر ہو گا کیوں کہ تعبیر کے علم میں زرد کپڑے سے مراد بیماری ہے اور دونوں بیماریاں مجھ میں ہیں یعنی ایک سر کی بیماری اور دوسری کثرت پیشاب اور دستوں کی بیماری . (روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ٢٠- : صفحہ ٤٦)
کثرت پیشاب سے خارش کے عارضہ تک :
مجھے اس وقت ایک اپنا سرگذشت قصّہ یاد آیا ہے اور وہ یہ کہ مجھے کئی سال سے ذیابیطس کی بیماری ہے۔ پندرہ بیس مرتبہ روز پیشاب آتا ہے اور بعض وقت سو سو دفعہ ایک ایک دن میں پیشاب آیا ہے اور بوجہ اس کے کہ پیشاب میں شکر ہے۔ کبھی کبھی خارش کا عارضہ بھی ہو جاتا ہے اور کثرت پیشاب سے بہت ضعف تک نوبت پہنچتی ہے۔ (روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 434)
١. علم تعبیر الرؤیا کی کون سی کتاب میں زرد رنگ کی چادروں سے مراد ٢ بیماریاں ہیں ؟
٢. کیا حدیث خواب ، یا رویا ، یا کشف تھی جس میں زرد رنگ کی چادروں کا ذکر ہیں ؟
٣. انبیاء علیھم السلام کے اتفاق سے زرد چادر کی تعبیر بیماری ہے؟ انبیاء سے مراد کون کون سے انبیاء ہیں ؟ اور کہاں درج ہے ؟ کوئی حوالہ ، کوئی ریفرنس ؟
٤. تمام معبّرین کے اتفاق سے تعبیر کی رو سے زرد رنگ چادر سے بیماری مراد ہوتی ہے؟ یہ معبّرین کون کون سےہیں ، کہاں اتفاق ہوا ؟ کوئی حوالہ ، کوئی ریفرنس ؟
٥. زرد رنگ کی چادروں سے مراد یہ ٢ بیماریاں کثرت پیشاب ، ذہنی امراض ہی کیوں ہے ؟ کیا یہ مخصوص ہے کہ یہی ٢ بیماریاں ہیں ؟
٦.کیا عربی کی حدیث کو عربی میں تاویل کیا جائے گا یا اردو میں قیاس پکڑی جائے گی ؟
٧. کیا حدیث میں زرد رنگ کی چادریں کشفی یا خواب میں بیان کی گئی تھی ؟
٨. کیا حدیث کے ترجمہ کی تاویل کی گئی ہے . یعنی اردو ترجمہ کی ؟ یا عربی
٩ ، دو بیماریوں کی درجہ بندی کس نے کی کہ ایک اوپر کی اور ایک نیچے کی ؟ کس کلیہ کے ساتھ درجہ بندی کی گئی کہ اوپر کی کون سی ہے اور نیچے کی کون سی ہے ؟
١٠. کیا دو چادروں کے ساتھ ٢ پیوند بھی لگے تھے جیسے کہ خارش کا عارضہ ا ور دستوں کی بیماری ؟
١١. کیا کثرت پیشاب ،اور دستوں کی بیماری ایک ہے یا دو ؟ اگر ایک ہے تو کیا مرزا کو دن میں سو سو دفعہ دست بھی آتے تھے ؟ جس میں شکر بھی تھی ؟ کیا دستوں کی بیماری کا نام ذیابیطس بھی ہے ؟
١٢. مرزا روحانی خزائن میں لکھا ہے کہ " احادیث میں ہے کہ مسیح موعود دو زرد رنگ کی چادروں میں اترے گا " بقول قادیانیوں کہ اترے گا یعنی نزول سے مراد مرزائیوں کے نزدیک پیدا ہونے کی ہے تو اسی اصول کے مطابق مرزا کو پیدا ہوتے ہی ان دو بیماریوں میں مبتلا ہو جانا چاہیے ، کیا مرزا پیدا ہوتے ہی دائم المرض ، کثرت پیشاب ، سر کی بیماریوں میں مبتلا ہو گیا تھا ؟
اب یہ سوال ایسے ہے جن کا جواب کسی مرزائی کے پاس نہیں ، اور ہو گے بھی نہیں ،کیوں کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اور جھوٹے کی بات میں تضاد ہوتا ہے . اور اس پوسٹ میں آپ دیکھ سکتے کس طرح مرزا نے علم رویا ، ۔انبیاء علیھم السلام سے اپنی تاویل کو منسوب کیا بنا کسی سیاق و سابق یا ریفرنس سے .
دوسرا حصہ پڑھنے کے لئے نیچے حصہ دوم پر کلک کریں
مرزا غلام قادیانی کی حدیث پر جاہلانہ تاویل کے مضحکہ خیز دلائل : ( حصہ دوم ﴾
سورة الحجرات:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ ﴿٦﴾
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو (
6)

مرزا قادیانی کے جھوٹے الہاموں کے لیے نبیوں کی مثالیں دینا ، مکمل آپریشن

0 comments

مرزا قادیانی کے جھوٹے الہاموں کے لیے نبیوں کی مثالیں دینا ، مکمل آپریشن


قارئین محترم! اللہ تعالی کی طرف سے بھیجے ہوئے انبیاء میں سے اگر کوئی نبی کبھی بھول گیا تو اللہ تعالی نے اسے کبھی بھی غلطی پر نہیں رہنے دیا اور کسی نہ کسی طریقے سے جلد از جلد اسے یاد دہانی فرمادی یا اصلاح فرمادی ، یہ بات خود مرزا غلام احمد قادیانی کو بھی تسلیم ہے چنانچہ اس نے صاف طور پر لکھا ہے: ۔

’’ انبیاء غلطی پر قائم نہیں رکھے جاتے‘‘ (رخ جلد 19صفحہ 133)
اور اس کے بیٹے مرزا بشیر الدین محمود نے لکھا: ۔

’’خدا اپنے نبی کو وفات تک غلطی میں نہیں رکھتا‘‘ (آئینہ صداقت، انوار العلوم جلد 6صفحہ 124)
اور یہ بات بھی ہمیشہ ذہن میں رکھیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنے بارے میں یہ لکھا ہے : ۔

’’ان اللہ لا یترکنی علی خطأ طرفۃ عین‘‘ اللہ مجھے ایک لمحے کے بھی غلطی پر نہیں رہنے دیتا ۔ (نور الحق، رح جلد 8صفحہ 272)

یعنی مرز اکے مطابق اگر اس سے کوئی غلطی ہوجائے تو اس کا خدا فوراً اس کی اصلاح کردیتا ہے اور بتا دیتا ہے کہ یہ غلطی تھی اسے ٹھیک کرلو ۔ اب اگر تو ثابت ہوجائے کہ مرزا غلام احمد سے فلاں غلطی ہوئی ، اس نے فلاں بات غلط لکھی، اپنی (خودساختہ) وحی اور الہام کی ایک تشریح کی لیکن وہ غلط نکلی اور یہ بھی ثابت ہوجائے کہ مرزا اس دنیا سے چلا گیا لیکن اسے اس کی غلطی کا پتہ ہی نہ چلا تو یہ اس بات کی واضح دلیل ہوگی کہ مرزا غلام احمد اللہ کا نبی نہیں تھا ، اگر ہوتا تو یہ نا ممکن تھا کہ اس کی موت ہوجاتی اور اللہ اسے اس کی غلطی کے بارے میں نہ بتاتا کیونکہ بقول مرزا محمود ’’خدا اپنے نبی کو وفات تک غلطی میں نہیں رکھتا‘‘ ۔

یہ دوتین باتیں اگر آپ ہمیشہ ذہن میں رکھیں گے تو میں جس مرزائی فریب کا ذکر کرنے جارہاہوں آپ کبھی بھی اس سے دھوکہ نہیں کھائیں گے ، وہ فریب یہ ہے کہ مرزائی مربیوں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ جب بھی تم مرزا غلام احمد کا دفاع کرنے میں نا کام ہوجاؤ ، اس کی کتابوں میں لکھے جھوٹوں کو سچ ثابت نہ کرسکو، اس کی پیش گوئیوں کو سچا ثابت نہ کرسکو ، تو ایک دم یہ کرو کہ اللہ کے نبیوں اور خاص طور پر آنحضرت صلى الله عليه وسلم پر اعتراضات شروع کردو اور کہنا شروع کردو کہ اے مولویو! تم جو اعتراض مرزا غلام احمد پر کرتے ہو وہ تو دوسرے نبیوں پر بھی ہوتے ہیں ، اور شور مچانا شروع کردو کہ یہ مولوی توہین انبیاء کرتے ہیں ، نعرے لگاؤ کہ مسلمانو! نبی کریم صلى الله عليه وسلم پر اعتراض کرکے دکھاؤ وغیرہ ، یعنی مرزا ئی مربیوں کی کوشش ہوتی ہے کہ جو عیب مرزا غلام احمد میں ثابت ہوتا ہے اسے کسی طرح اللہ کے نبیوں میں بھی ثابت کیا جائے ، اس کی چند مثالیں پیش کرتا ہوں تاکہ آپ کو اچھی طرح اس مرزائی فریب کی سمجھ آجائے ۔ مثلاً جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ مرزا غلام احمد نے دعویٰ کیا کہ اسے اس کے خدا نے الہام کیا تھاکہ ’’ہم مکہ میں مریں گے یا مدینہ میں‘‘ (الہام مرزا بتاریخ 14 جنوری 1906، تذکرۃ، صفحہ 503 طبع چہارم) لیکن مرزا تو لاہور میں مرا اس طرح یہ الہام جھوٹا ہوا ، اس کے جواب میں مرزائی مربی بڑے زور وشور سے آپ کو لعن طعن کرے گا اور کہے گا کہ تم مولوی یہودی ہو ، تم پوری بات پیش نہیں کرتے ، اس الہام کی تشریح تو خود مرزا قادیانی نے کردی تھی کہ مکہ میں مرنے سے مراد مکی فتح اور مدینہ میں مرنے سے مراد مدنی فتح ہے، یعنی مجھے فتح حاصل ہوگی (یہ الگ بات ہے کہ موت کا مطلب فتح کس لغت میں ہے؟) تو جب ہمارے حضرت جی نے اپنے الہام کی خود تشریح کردی تو تم کون ہوتے ہواعتراض کرنے والے ؟ جیسے حضرت یوسف علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ انہیں چاند، سورج اور گیارہ ستارے سجدہ کررہے ہیں ، اس کی تعبیر یہ تھی کہ چاند سورج سے مراد ان کے والدین اور ستاروں سے مراد ان کے بھائی تھے ، اس لئے جس کا خواب ہو یا جس کا الہام ہو جو تعبیر اور تشریح وہ بتائے وہی قابل قبو ل ہوگی ۔

لیکن دوستو! یہی مربی اس وقت اپنا بیان بدل لیں گے جب اگلا آدمی یہ پوچھے کہ مرزا غلام احمد نے کہا کہ اسے الہام ہوا تھا ’’بکر وثیب‘‘ اور اس کی تشریح خود مرزا نے یوں کی کہ ’’خدا تعالی کا ارادہ ہے کہ وہ 2 عورتیں میرے نکا ح میں لائے گا ، ایک بکر ہوگی (یعنی کنواری ہوگی) اور دوسری بیوہ ، چنانچہ یہ الہام جو بکر (یعنی کنواری) کے متعلق تھا وہ پورا ہوگیا (نصرت جہاں کی صورت میں) اور بیوہ کے الہام کی انتظار ہے‘‘ اب مرزائی مربی سے پوچھیں کہ یہاں آپ کے حضرت جی نے خود اپنے الہام کی تشریح بھی کردی ، تو اب بتاؤ کہ مرزا کے نکاح میں اس کی موت تک کون سی بیوہ آئی؟؟ تو یہاں مربی یہ نہیں کہے گا کہ تشریح تو وہی قابل قبول ہوگی جو مرزا نے کردی کیونکہ اس سے مرزا جھوٹا ہوتا ہے ، بلکہ یہا ں وہ دوسری چال چلے گا ، کہے گا کہ ’’مرزا قادیانی سے اس الہام کو سمجھنے میں غلطی ہوگئی ، اس الہام کا یہ مطلب نہیں تھا کہ اس کا نکاح دو عورتوں کے ساتھ ہوگا جن میں سے ایک کنواری اور ایک بیوہ ہوگی ،بلکہ اس الہام کی تشریح یہ تھی کہ صرف ایک عورت یعنی نصرت جہاں کے ساتھ جب نکاح ہوگا تو اس وقت وہ کنواری ہوگی اورپھر وہی نصرت جہاں ایک وقت بیوہ ہوجائے گی ، مرزا قادیانی نے یہاں اجتہادی غلطی کردی ، اور نبیوں سے کبھی اجتہادی غلطی ہوجا تی ہے ‘‘، دوستو! غورکیا آپ نے؟ الہام تھا مرزا کا ، تشریح کی مرزا نے، اس نے تو مرتے دم تک اپنی اس تشریح کو غلط نہیں کہا، نہ ہی اس نے یہ کہا کہ ہاں اس سے یہ الہام سمجھنے میں غلطی ہو گئی تھی ، نہ ہی اسے اس کے خدا نے اس غلطی پر مطلع کیا ، اور خود اس کے اقرار کے مطابق انبیاء تو غلطی پر قائم نہیں رکھے جاتے ، بقول مرزا محمود، اللہ اپنے نبی کو اس کی وفات تک غلطی پر نہیں رکھتا ، اور بقول مرزا قادیانی اللہ اسے ایک لمحے کے لئے بھی غلطی پر نہیں چھوڑتا، نیز مرزا نے صاف طور پر کہا تھا : ۔

’’کسی الہام کے وہ معنی ٹھیک ہوتے ہیں کہ ملہَم آپ بیان کرے ، اور ملہَم کے بیان کردہ معنوں پر کسی اور کی تشریح اور تفسیر ہرگز فوقیت نہیں رکھتی کیونکہ ملہَم اپنے الہام سے اندرونی واقفیت رکھتا ہے اور خدا تعالیٰ سے خاص طاقت پاکر اس کے معنیٰ کرتا ہے‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات، جلد1 ، صفحہ 122)
پھر ایک جگہ مرزا نے لکھاتھا:۔

’’ملہَم سے زیادہ کوئی الہام کے معنیٰ نہیں سمجھ سکتا اور نہ کسی کا حق ہے جو اس کے مخالف کہے‘‘۔ (تتمہ حقیقۃ الوحی، رخ 22 صفحہ 438)
تو سوال یہ ہے کہ مرزا اپنے اس الہام کو اپنی سچائی کی نشانی کے طورپر شائع کرتا رہا ، اور وہ یہی لکھتا رہا کہ 2 عورتیں آئیں گی ، جن میں سے کنواری تو آچکی ، اب بیوہ کا انتظار ہے ، اس نے ہرگز یہ نہ لکھا کہ ان دو عورتوں سے مراد ایک ہی عورت یعنی نصرت جہاں بیگم ہے ، مرزا اس دنیا سے چلا گیا ، اس کے بعد اس کے مریدوں کو اس الہام کی ٹھیک تشریح سمجھ آئی اور انہوں نے اعلان کردیا کہ ہمارے نبی کو اس الہام کو سمجھنے میں غلطی لگی تھی ، اب ہمیں یہ سمجھ آیا ہے ۔ ہے ناں نادانوں کا ٹولہ؟ جو لوگ خود اپنے نبی کو جھوٹا ثابت کرتے ہوں ان سے بڑھ کر احمق بھلا کون ہوگا؟ ۔

اب آگے چلیے ! یہاں مرزائی مربی دو تین مثالیں بھی دیتے ہیں ، کہتے ہیں کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے خواب دیکھاکہ زمین کے خزانوں کی کنجیاں آپ کے ہاتھ مبارک پر رکھ دی گئیں ، لیکن آپ صلى الله عليه وسلم کی زندگی میں ایسا نہ ہوا بلکہ آپ کے وصال کے بعد صحابہؓ اور آپ کے غلاموں کے ہاتھوں فتوحات ہوئیں، تو کیا نعوذ باللہ تم آنحضرت صلى الله عليه وسلم پر بھی یہی اعتراض کروگے کہ آپ کا خواب جھوٹا ہوا؟، اسی طرح دیکھو آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے فرمایا تھا کہ میں نے خواب دیکھا جس میں مجھے ایک سرزمین دکھائی گئی جہاں کھجور کے درخت تھے اور مجھے بتایاگیا کہ آپ کی ہجرت اس مقام کی طرف ہوگی ، میرا خیال اس طرف گیا کہ یہ یمامہ ہے لیکن در حقیقت وہ یثرب یعنی مدینہ تھا اب کرو اعتراض نبی کریم صلى الله عليه وسلم پر انہوں نے مدینہ کو غلطی سے یمامہ سمجھ لیا ، اسی طرح حضرت نوح علیہ السلام سے اللہ نے وعدہ کیا تھا کہ میں تیرے ’’اھل‘‘ کو غرق ہونے سے بچالوں گا ، جب ان کا بیٹا غرق ہونے لگا تو انہوں نے دعا کی اے اللہ میرا بیٹا تو میرے اہل میں سے ہے اور آپ نے وعدہ کیا تھا کہ آپ میرے اہل کو بچائیں گے ، تواللہ نے آپ کو تنبیہ کردی کہ اے نوح! تیرا بیٹا تیرے اہل میں سے نہیں ، تیرے اہل وہ ہیں جو مومن ہیں ، یعنی اللہ نے بتادیا کہ میں نے جن اہل کو بچانے کا وعدہ کیا تھا اس سے مراد ظاہری اہل نہیں بلکہ روحانی اہل ہیں ، تو کرو اعتراض حضرت نوح عليه السلام پر انہوں نے اہل کا مطلب غلط سمجھا ۔

دوستو! اس دھوکے کا مختصر جواب یہی ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے ہرگز کوئی غلطی نہیں کی تھی ، اللہ نے ان سے ان کے اہل کو بچانے کا وعدہ فرمایا تھا اور وہا ں اللہ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ اس سے مراد روحانی اہل ہیں ، اور بیٹا یقینی طور پر اہل میں داخل ہے ، حضرت نوح علیہ السلام نے اسی بناپر دعا فرمائی ، اللہ نے ان کی دعا کے بعد اسی وقت وضاحت فرمادی کہ میری مراد اہل سے ظاہری والا اہل نہیں بلکہ روحانی اہل ہے اور حضرت نوح علیہ السلام کو پتہ چل گیا ، یعنی اللہ اپنے نبی کو غلطی پر نہیں رکھتا ، یہی ہم پہلے ثابت کرآئے ہیں ، اسی طرح زمین کے خزانوں کی کنجیاں آپ صلى الله عليه وسلم کے دست اقدس میں رکھے جانے والا خواب بھی سمجھیں ، پہلی بات یہ کہ وہ خواب تھا ، اور نبی کے خواب دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جن کی تعبیر بالکل اسی خواب کی طرح ظاہری ہوتی ہے کہ ویسا ہی ہوگا جیسا خواب میں نظر آیا ، اور دوسری قسم وہ ہوتی ہے جو خواب تعبیر طلب ہوتے ہیں جیسے حضرت یوسف علیہ السلام کا سورج ، چاند اور ستاروں کو اپنے سامنے سجدہ کرنے کا خواب اس کی تعبیر ظاہری نہ تھی ، یہ بات مرزا نے بھی لکھی ہے ، مرزا کا ایک مرید مولوی عبدالکریم بیمار تھا ، مرزا نے خواب دیکھا کہ وہ ٹھیک ہوگیا ہے ، لیکن حقیقت میں وہ ٹھیک نہ ہوا بلکہ مرگیا ، کسی نے اعتراض کیا کہ مرزا جی! آپ کا خواب جھوٹا ہوگیا تو مرزا نے لکھا:۔

’’ہاں ایک خواب میں ان کو دیکھا تھا کہ گویا وہ صحت یاب ہیں مگر خوابیں تعبیر طلب ہوتی ہیں اور تعبیر کی کتابوں کو دیکھ لو خوابوں کی تعبیر میں کبھی موت سے مراد صحت، اور کبھی صحت سے مراد موت ہوتی ہے ، اور کئی مرتبہ خواب میں ایک شخص کی موت دیکھی جاتی ہے اور اس کی تعبیر زیادت عمر ہوتی ہے ‘‘۔ (تتمہ حقیقۃ الوحی، رخ جلد 22صفحہ 459-458)

اب مرزائی مربی سے پوچھیں کہ مرزا نے جب مولوی عبدالکریم کے صحت یاب ہونے کا خواب دیکھا تمہارے عقیدے کے مطابق وہ نبی تھا کہ نہیں؟ اور وہ لکھتا ہے کہ خوابیں تعبیر طلب ہوتی ہیں ، ثابت ہوا کہ نبی کے ایسے خواب بھی ہوتے ہیں جن کی تعبیر ظاہری خواب کے مطابق نہیں ہوتی ، مثال ہم حضرت یوسف علیہ السلام کی دے چکے ہیں ، اور زمین کے خزانوں والے خواب کی تعبیر دوسری احادیث میں خود نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے بیان فرمادی ہے جن کے اندر یہ خبر دی کہ میرے صحابہ یا میری امت کے لوگ قیصر وکسریٰ کے ملک فتح کریں گے اور ان کے خزانوں پر اِن کا قبضہ ہوگا ، مثال کے طور پر صحیح مسلم کی ایک حدیث ہے ، حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: مسلمانوں یا مومنوں کی ایک جماعت ضرور بالضرور کسریٰ کے اس خزانے کو فتح کرے گی جو قصر ابیض میں ہے (صحیح مسلم: حدیث نمبر 2919) ، اسی طرح مسند احمد میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ : جب کسریٰ ہلاک ہوجائے گا تو پھر اس کے بعد کوئی کسریٰ نہ ہوگا (یعنی اس کے بعد ایران کے کسی بادشاہ کا لقب کسریٰ نہ ہوگا) اور جب قیصر ہلاک ہوجائے گا تو اس کے بعد کوئی قیصر نہ ہوگا (یعنی روم کے کسی بادشاہ کا لقب قیصر نہ ہوگا) اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد(صلى الله عليه وسلم) کی جان ہے تم لوگ ان دونوں (یعنی قیصر وکسریٰ) کے خزانے ضرور اللہ کی راہ میں خرچ کروگے ۔ (مسند احمد، حدیث نمبر 7184) ، تو نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے اپنے صحابہ اور اپنی امت کو فتوحات کی خوشخبری سناکر اپنے اس خواب کی تعبیر بیان فرمادی کہ میرے ہاتھ میں زمین کے خزانوں کی کنجیاں رکھے جانے کا مطلب ہے کہ میری امت کا ان پر قبضہ ہوگا ۔

اب آئیے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے اس خواب کی طرف جس میں آپ کو وہ سرزمین دکھا ئی گئی جہاں آپ کی ہجرت ہوناتھی ، یاد رکھیں خواب میں آپ کو صرف ایک سرزمین دکھائی گئی تھی ، اس کا نام نہیں بتایا گیا تھا ، اس سرزمین پر کھجوروں کے باغات تھے ، اور جیسے مدینہ (یثرب) میں کھجوروں کے باغات تھے بالکل اسی طرح یمامہ میں بھی تھے ، آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ہے کہ اس سرزمین کو دیکھ کر میرا خیال یمامہ کی طرف گیا تھا ، جی ہاں یہی لفظ ہیں ’’میرا خیال اس طرف گیا تھا‘‘ نہ تو نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے اس خواب کی کسی کے سامنے اس وقت تعبیر بیان فرمائی کہ اس کی تشریح یہ ہے کہ ہماری ہجرت یمامہ کی طرف ہوگی اور نہ ہی نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے کوئی اشتہار نکالا اور پیش گوئی شائع کردی کہ مجھے میرے خدا نے خبر دی ہے کہ تمہاری ہجرت یمامہ کی طرف ہوگی (جیسے مرزا قادیانی کیا کرتا تھا)، اور اس کا تو کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے ہجرت مدینہ کی طرف ہی فرمائی تھی نہ کہ یمامہ کی طرف ، تو اگر آپ غلط سمجھتے تو ضرور پہلے یمامہ جاتے لیکن ایسا نہیں ہوا ، اللہ کے نبی صلى الله عليه وسلم نے بالکل ٹھیک جگہ ہجرت فرمائی، اس حدیث شریف میں تو صرف خیال جانے کی بات ہے ۔ اور آخری بات وہی کہ اگر بالفرض آپ کا خیال یمامہ کیطرف جانا یہ آپ کی اجتہادی غلطی تھی تو اللہ نے اس خیال کی اصلاح فرمادی اور آپ نے ہجرت مدینہ کی طرف فرمائی ، کیونکہ انبیاء غلطی پر قائم نہیں رکھے جاتے ، لیکن جھوٹے مدعی نبوت وہ ہوتے ہیں جو پوری زندگی اشتہار نکالتے ہیں کہ میرا نکاح محمدی بیگم کے ساتھ ہوکر رہے گا ، یہ ایسی بات ہے جو کسی طرح ٹل نہیں سکتی ، لیکن وہ مرجاتے ہیں ایسا نہیں ہوتا اور نہ ہی اللہ انہیں بتاتا ہے کہ مرزا جی! نکاح تو کینسل ہوچکا یا آخرت میں ہوگا، جھوٹے وہ ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کہ اللہ نے انہیں الہام میں بتایا ہے کہ قادیان کے میاں منظور محمدلدھیانوی جن کی بیوی کا نام محمدی بیگم ہے ان کے گھر ایک لڑکا پیدا ہوگا جس کے نو نام ہیں ، لیکن وہ لڑکا غائب ہوجاتا ہے ، اور بعد میں مرزا کے مرید بتاتے ہیں کہ وہ لڑکا تو مرزا بشیر الدین محمود تھا ، مرزا جی کو غلطی لگی تھی ، اور میاں منظور محمد لدھیانوی سے مراد خود مرزا جی تھے اور محمدی بیگم سے مراد ہماری اماں جان نصرت جہاں بیگم تھیں لیکن ٹیچی (مرزا کے ایک فرشتہ کا نام) نے آنے میں دیر کردی اور مرزا جی دنیا سے چلے گئے