Wednesday 6 January 2016

The Education Of Hadees Part 3 علم حدیث مکمل

0 comments
The Education Of Hadees Part 3 علم حدیث مکمل
حدیث میں درجہ بندی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟فتوحات کی کثرت کی بنا پر جب مختلف قبیلوں اور دور دراز علاقوں میں اسلام پھیلنے لگا تو حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم مختلف جگہوں میں قیام پذیر ہوگئے، اس طرح مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ علم حدیث کے حامل کبارِ صحابہ اس دنیا سے پردہ فرمانے لگے جس کے نتیجہ میں علمِ حدیث کے حاملین کی کمی ہونے لگی، دھیرے دھیرے حق کے خلاف باطل سرابھارنے لگا ،لوگ اپنے اپنے مقاصد کے لیے حدیثیں اپنی طرف سے بناکرحضور اکرم ﷺ کی طرف اس کی نسبت کرنے لگے،مثلاً بددین لوگوں نے اپنے عقائد کے تائید میں،سیاسی گروہ سے تعلق رکھنے والوں نے اپنے پیشوا کی فضیلت اور مخالفین کی مذمت میں،بادشاہوں کو خوش کرنے کی لیےاورغیر محتاط مقررین اپنی تقریر میں رنگ جمانے کے لیے حدیثیں گڑھنےلگے،تو ان نازک حالات کے پیشِ نظر علماءِ وقت نے حدیث کی تدوین نیز اسے کتابی شکل میں لانے کی ضرورت کو محسوس کیا؛ چنانچہ علماء اور طالبینِ حدیث اس کام کے لیے کمربستہ ہوگئے، انہوں نے حدیث کی حفاظت کی اہمیت کے پیش نظر دوردراز کے متعدد اسفار کئے، اس وقت محدثین کرام علمِ حدیث کی خدمت کو شب بیداری سے افضل سمجھتے تھے اور انہوں نے اپنی عمر عزیز کا بیشتر حصہ اس اہم کام کے لیے صرف کردیا،اور من گھڑت روایتیں پیش کرنے والے راویوں کی حقیقت کو کھول کر رکھ دیا،صحیح اور موضوع روایتوں کو الگ الگ کردیا،صحیح اور ضعیف احادیث کی پہچان کے لیے اصول مقرر کیے،جس کو حدیث کا علم کہتے ہیں ،ان علوم کو جانے بغیر کوئی شخص احادیث میں کلام نہیں کرسکتا۔موجودہ زمانے میں احادیث پرصحیح یا ضعیف کا حکم لگاناموجودہ زمانے میں کسی حدیث کو علم حدیث میں مہارت کے بغیرصحیح یا ضعیف ہونے کا حکم نہیں لگایا جاسکتا ،اس لیے کہ کتابوں میں نقل کرنے سے پہلے ائمہ جرح وتعدیل راویوں کی پوری چھان بین کرتےتھے، ان کی صفات باوثوق ذریعے سے معلوم کرتے،اور علم حدیث کے تمام شرائط پر اس راوی اورروایت کو پرکھا اورجانچا جاتا تھا،اس کے بعد حدیث کا درجہ متعین کیا جاتا تھا،الغرض!ماہرین علم حدیث نے مجموعی طور پر جس حدیث کو ضعیف یا صحیح لکھا ہے ،موجودہ زمانہ میں اسی حدیث کو ضعیف یا صحیح کہا جاسکتا ہے-البتہ جن احادیث کے بارے میں صحت وضعف کا پتہ نہ چل سکے اور باوجود تلاش وجستجو کے کسی کی کوئی تصریح اس حدیث کے متعلق نے مل سکے تو پھر کتب اسماء رجال سے ہر راوی کے متعلق جملہ آراء کو جمع کیا جائے اور معتدل وحقیقت پسندانہ تبصرہ کرنے والوں کی رائے کو اہمیت دی جائے اور اس کی روشنی میں کسی حدیث کے بارے میں صحت وضعف کا فیصلہ کیا جائے ؛یہی محتاط طریقہ ہے،بلا تحقیق وجستجو کے کسی حدیث پر حکم لگانا نہایت غلط طریقہ ہے۔علوم حدیثمجموعی طور پر علم حدیث کی درج ذیل قسمیں بیان کی جاتی ہیں۔۱۔ نقل حدیث کی کیفیت و صورت ۔ نیز یہ کہ وہ کس کا فعل وتقریر ہے ۔۲۔نقل حدیث کے شرائط۔ ساتھ ہی یہ بھی کہ نقل کی کیا کیفیت رہی ۔۳۔ اقسام حدیث باعتبار سند و متن ۔۴۔احکام اقسام حدیث ۔۵۔احوال راویان حدیث ۔۶۔ شرائط راویان حدیث ۔۷۔ مصنفات حدیث ۔۸۔اصطلاحات فن ۔راویوں کی تعداد کے اعتبار سے حدیث کی قسمیںحدیث نقل کرنے والے کو راوی کہتے ہیں،اس لحاظ سے حدیث کی چار قسمیں ہیں،متواتر،مشہور،غریب،عزیز۔متواتر:وہ حدیث ہے جس کو رسول اللہ ﷺ سے آج تک اتنی بڑی جماعت نقل کرتی آئی ہو کہ عادتاً ان کا جھوٹ پر متفق ہوجانا ناقابل تصور ہو۔مشہور:وہ حد یث ہے جس کو ہر زمانے میں تین یا اس سے زیادہ راویوں نے نقل کیا ہو،اگر سلسلہ سند میں کہیں بھی راویوں کی تعداد کسی زمانے میں تین سے کم ہوگئی ہو تو خبر مشہور باقی نہیں رہے گی۔عزیز:وہ حدیث ہے جس کی روایت کرنے والے کسی زمانے میں دو سے کم نہ ہوں۔غریب:وہ حدیث ہے جس کے سلسلہ سند میں کسی زمانے میں بھی راوی کی تعداد صرف ایک رہ گئی ہو،حدیث غریب کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ غیر معتبر ہوتی ہے؛ بلکہ حدیث غریب کبھی صحیح کبھی حسن اور کبھی ضعیف کے درجے کی ہوتی ہے۔مقبول حدیث کی پہچان اور اس کی قسمیںمقبول یعنی وہ حدیث جس کی رسول اللہ ﷺ کی طرف نسبت کا درست ہونا راجح ہو،اس کی چار قسمیں ہیں،صحیح لذاتہ،صحیح لغیرہ،حسن لذاتہ،حسن لغیرہ۔صحیح لذاتہ:وہ حدیث ہےجس کو عادل اور قوی الحفظ راویوں نے اس طرح نقل کیا ہو کہ سند میں کہیں انقطاع نہ ہو اور وہ علت اور شذوذ سے محفوظ ہو۔(عادل سے مراد جو گناہوں اور دنائت کی باتوں سے بچتا ہو،قوی الحفظ وہ ہے جو سنی ہوئی بات کو بغیر کمی بیشی کے محفوظ رکھ سکتا ہواصطلاح میں اس کو ضبط کہتے ہیں،علت روایت میں پائی جانے والی ایسی پوشیدہ کمزوری کو کہتے ہیں جس پر اہل فن ہی واقف ہوسکیں،شذوذ کا مطلب یہ ہے کہ راوی نے سند یا حدیث کے مضمون میں اپنے سے بہتر راوی کی مخالفت کی ہو)۔صحیح لغیرہ:وہ حدیث ہےجس کا راوی ضبط میں تھوڑا کمزور ہو؛لیکن دوسری کئی سندوں سے منقول ہونے کی وجہ سے صحیح کے درجے میں آجائے۔حسن لذاتہ:وہ حدیث ہے جس کا راوی عادل ہو؛ لیکن ضبط میں کچھ کم ہواور اس میں شذوذ و علت پائی جائے۔حسن لغیرہ:وہ حدیث ہے جس کی سند میں کوئی راوی عدل یا ضبط کے اعتبار سے کمزور ہو ؛لیکن کثرت طرق کی وجہ سے اس کی تلافی ہوجائے۔ضعیف حدیث کی پہچان اور اس کی قسمیںحدیث ضعیف:وہ حدیث ہے جس کی سند میں اتصال نہ ہو یا راوی عادل نہ ہو یا راوی کا حافظہ بہتر اور قابل اعتماد نہ ہو،حدیث ضعیف کی بہت قسمیں ہیں،بنیادی طور پر دو اسباب کی وجہ سے حدیث ضعیف کہلاتی ہے(۱)سند میں کسی مقام پرراوی کا چھوٹ جانا(۲)حدیث کے راویوں میں جن اوصاف کا پایاجانا ضروری ہے وہ نہ پائے جائیں۔چند اصطلاحات ِحدیثحضورﷺ سے جو چیز منقول ہوا سے‘‘حدیث مرفوع’’اور جو صحابی سے منقول ہو اسے ‘‘حدیث موقوف’’ اور جو تابعی سے منقول ہواسے‘‘حدیث مقطوع’’ کہتے ہیں ، حدیث کے ناقل کو ‘‘راوی’’اور حدیث کو‘‘روایت’’ کہتے ہیں اور ناقلین کے نام کے مجموعہ کو‘‘سند’’ اور اصل مضمون کو ‘‘متن’’ کہتے ہیں۔کتب احادیث کی چند قسمیںصحیح:وہ کتب حدیث ہیں جن میں مؤلف نے صحیح احادیث کے نقل کرنے کا اہتمام کیا ہو،جیسے مؤطا امام مالک ، بخاری،مسلم،ترمذی،ابوداؤد،نسائی،ابن ماجہ،صحیح ابن خزیمہ اور صحیح ابن حبان،ان کتابوں میں مؤلفین نے اپنی دانست میں صحیح وحسن روایات کو نقل کرنے کا اہتمام کیا ہے اور اگر کہیں کسی مصلحت سے قصداً ضعیف روایت نقل کی ہیں تو ان کا ضعف بھی ظاہر کردیا ہے۔جامع:وہ کتابیں جن میں آٹھ قسم کی مضامین ہوں ‘‘عقائد، احکام، رقاق، آداب، تفسیر، سیر،مناقب،فتن’’بخاری اور ترمذی بحیثیت جامع زیادہ ممتاز ہیں۔سنن:وہ کتب جن میں فقہی ترتیب سے روایات جمع کی گئی ہوں،جیسے ابوداؤد اور ترمذی وغیرہ۔مصنف:ایسی کتابیں جو فقہی ترتیب پر مرتب کی جاتی ہیں؛ مگر ان میں احادیث مرفوعہ کے ساتھ صحابہ وتابعین کے فتاویٰ بھی مذکور ہوں ،جیسے مصنف عبدالرزاق اور مصنف ابن ابی شیبہ۔مسند: وہ کتابیں ہیں جن میں ہر صحابی کی مرویات کو ایک جگہ جمع کیا گیا ہو جیسے مسند احمد بن حنبل وغیرہ۔معجم:جس میں ایک استاذ کی مرویات کو راوی نے جمع کیا ہو جیسے طبرانی کی معجم وغیرہ۔( حدیث کا یہ ایک مختصر تعارف تھا اس عنوان کے تحت تمام تفصیلات آگےملاحظہ فرمائیں)================================================

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔