Wednesday 6 January 2016

The Education Of Hadees علم حدیث کلاس 1

0 comments

The Education Of Hadees علم حدیث کلاس 1

حدیث کی لغوی تعریف
حدیث کےمعنی بات اور گفتگو کے ہیں،علامہ جوہری صحاح میں لکھتے ہیں:
‘‘اَلْحَدِیْثُ الْکَلَامُ قَلِیْلُہُ وَکَثِیْرُہُ ’’۔
حدیث بات کو کہتے ہیں خواہ وہ مختصر ہو یا مفصل۔
حدیث کی اصطلاحی تعریف
حضورﷺ کےاقوال ،افعال اور تقریرات کے مجموعہ کو حدیث کہتے ہیں،اقوال سے مراد آپﷺ کی زبان مبارک سے نکلےہوئے کلمات ہیں،افعال سے مراد آپﷺ کے اعضاءسے ظاہر شدہ اعمال ہیں اور تقریر سے مراد: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنےکسی صحابی نے کچھ کیا یا کہااور آپ نے اس پر سکوت فرمایا نکیر نہ کی اور اس سے یہی سمجھا گیاکہ اس عمل یا قول کی حضورﷺ نے تصدیق فرمادی ہے تو اسی تصدیق کو ‘‘تقریر’’ confirmationکہتے ہیں اور آپ کی یہ تصدیق تقریری صورت کہلاتی ہے۔
حدیث کی حیثیت قرآن کریم میں
شریعتِ اسلامیہ کی اساس اور بنیاد قرآن اور سنتِ رسول اللہ ہے ؛چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ کو بحیثیتِ مطاع (یعنی جس کی اطاعت کی جائے) پیش کیا ہے، فرمانِ باری ہے:
(۱)‘‘یَاأَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا أَطِیْعُو اللہَ وَأَطِیْعُوالرَّسُوْلَ وَلَاتُبْطِلُوْا أَعْمَالَکُمْ’’۔
(محمد:۳۳)
اے ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرو۔
اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم کی طرح حضورﷺ کے اقوال، افعال اور تقریرات کی بھی اتباع کرنا ضروری ہے ،اللہ تعالیٰ نے مستقل طور سے اس کا حکم دیا ہے۔
(۲)نیز ارشاد خدا وندی ہے:‘‘وَأَنْزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِنَّاسِ مَانُزِّلَ إِلَیْھِمْ وَلَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ’’۔
(النحل:۴۴)
اور(اے پیغمبر!)ہم نے تم پر بھی یہ قرآن اس لیے نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اُن باتوں کی واضح تشریح کردو جو اُن کے لیے اتاری گئی ہیں اور تاکہ وہ غور وفکر سے کام لیں۔
اس آیت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیان کی جو ذمہ داری لی ہے اس کی تکمیل رسول اللہﷺ کریں گے، آپ کا بیان اللہ ہی کا بیان ہوگا اور یہ بات اسی وقت ممکن ہے کہ آپﷺ نے قرآن کی تبیین وتشریح وحی کے ذریعہ فرمائی ہو ورنہ اس کو اللہ کا بیان کیسے کہہ سکتے ہیں۔
(۳)ایک اور جگہ ارشاد ہے‘‘وَمَایَنْطِقُ عَنِ الْھَوَیo إِنْ ھُوَإِلَّاوَحْیٌ یُوْحَی‘‘۔
(النجم:۳،۴)
اور یہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے،یہ تو خالص وحی ہے جو ان کے پاس بھیجی جاتی ہے ۔
(۴)نیز اللہ تعالی کا ارشاد ہے:‘‘وَمَاآتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَانَھَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا’’۔
(الحشر:۷)
رسول تم کو جو کچھ دیں وہ لے لو اور جس چیز سے تم کو روک دیں رک جاؤ۔
ان دونوں آیتوں میں واضح طور پر حدیث کا مقام معلوم ہورہا ہے کہ اللہ تعالی نے حضور اکرم ﷺ کے ارشادات کو وحی الہٰی سے تعبیر فرمایا اور امت کو حکم دیا کہ حضور اکرم ﷺ جس بات کا حکم دیں اس کو اختیار کرو اور جس بات سے منع کریں اس سے رک جاؤ۔
احادیث میں حدیثِ رسولﷺ کی حیثیت
(۱)آپﷺ کی ارشاد ہے:"أَلَاإِنِّي أُوتِيتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ"۔
(ابوداؤد، باب فی لزوم السنۃ، حدیث نمبر:۳۹۸۸)
خبردار رہو کہ مجھے قرآن کے ساتھ اس کا مثل بھی دیا گیا ہے۔
حضرت زید بن ثابت ؓ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا :
(۲)حدیث کے حفظ اور یادداشت کی ترغیب دیتے ہوئے آپﷺ نے فرمایا:نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا فَحَفِظَهُ حَتَّى يُبَلِّغَهُ غَيْرَه۔
(ترمذی،بَاب مَا جَاءَ فِي الْحَثِّ عَلَى تَبْلِيغِ السَّمَاعِ،حدیث نمبر:۲۵۸۰ شاملہ،موقع الاسلام)
اللہ تعالی اس شخص کو تازگی بخشیں جس نے ہم سے کو ئی حدیث سنی اسے یاد رکھا؛ یہاں تک کہ اسے کسی دوسرے تک پہنچایا۔
(۳)ایک اور حدیث میں ہے:فَلْيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ
(مسلم، بَاب تَغْلِيظِ تَحْرِيمِ الدِّمَاءِ وَالْأَعْرَاضِ وَالْأَمْوَالِ،حدیث نمبر:۳۱۸۰،شاملہ، موقع الاسلام)
جو حاضر ہے وہ اسے غائب تک پہنچادے۔
خطبۂ حجۃ الوداع کے موقع پر آنحضرت ﷺ نے متنبہ فرمایا کہ آپ کی یہ حدیث آج صرف اسی اجتماع کے لیے نہیں یہ کل انسانوں کے لیے راہ ہدایت ہے جو آج موجود ہیں اور سن رہے ہیں وہ ان باتوں کو دوسروں تک پہنچادیں۔
علاوہ ازیں ایک حدیث میں ہے:
(۴)‘‘كان جبريل عليه السلام ينزل على رسول الله صلى الله عليه وسلم بالسنة كماينزل عليه بالقرآن، ويعلمه إياها كمايعلمه القرآن’’۔
(مراسیل ابوداؤد، باب فی البدع، حدیث نمبر:۵۰۷)
حضرت جبرئیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سنتوں کا علم لے کر ایسے ہی نازل ہوتے تھے جیسے قرآن آپﷺ پر لےکرنازل ہوتے تھےاور اس کو ایسے ہی سکھاتے تھے جیسے قرآن کو سکھاتے تھے۔
ان میں واضح طور پر یہ مضمون بیان کیا گیا ہے کہ حدیثیں بھی قرآن کی طرح وحی ہیں،
احکامِ اسلامیہ پر عمل کے لیےحدیث کی ضرورت
اسلامی احکامات پر عمل پیرا ہونے کے لیے اور قرآن کریم کو اچھی طرح سمجھنے کےلیےاحادیث کا علم ضروری ہے ، اس کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم میں اسی ۸۰/سے زیادہ جگہوں میں نماز کا حکم دیا گیا، کہیں ‘‘اَقِیْمُوْا الصَّلٰوۃ’’(نماز قائم کرو) کہا گیا ہے تو کہیں‘‘یُقِیْمُوْنَ الصَّلَوۃ’’ (نماز کو قائم کرتے ہیں)کہا گیا ہے؛ مگر سوال یہ ہے کہ نماز کس چیز کا نام ہے؟قیام،رکوع،سجدہ وغیرہ کس طرح کیا جاتا ہے،اس کی ترکیب کیا ہے ؟ قرآن کریم میں کہیں یہ بات بیان نہیں کی گئی ہے؛ البتہ قرآن میں نماز کے ارکان کا مختلف الفاظ سے مختلف جگہ تذکرہ آیا ہے، نبیٔ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازکے تمام ارکان کو جمع کرکے اس کوادا کرنے کا طریقہ بتایا ؛ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے فرائض، واجبات، سنن، مستحبات، آداب، مکروہات اور ممنوعات ہرایک کو تفصیل سے بیان کیا؛ اسی طرح نماز مسجد میں قائم کرنے کا حکم دیا ؛تاکہ نماز کا اہتمام ہو اور اذان وجماعت کا نظام بنایا، امام ومؤذن کے احکام بیان کئے اور پانچوں نمازوں کے اوقات متعین کئے اور ان اوقات کے اوّل وآخر کو بیان کیا؛ غرض تقریباً دوہزار حدیثیں ‘‘یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃ’’ کی تفسیر کرتی ہیں ان دوہزار احادیث کو اگر ‘‘یُقِیْمُوْنَ الصّلٰوۃ’’ کے ساتھ نہ لکھا جائے تو اقامتِ صلوٰۃ کی حقیقت سمجھ میں نہیں آسکتی، اور صرف نماز ہی نہیں؛ بلکہ اسلام کے تمام تفصیلی احکامات کا علم احادیث ہی سے مکمل ہوتا ہے۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،جاری ہے


0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔