Sunday 13 September 2015

خاتم النبیین پر ایک بہترین ، عمدہ اور معلوماتی تحریر

0 comments
خاتم النبیین پر ایک بہترین ، عمدہ اور معلوماتی تحریر

  • ختم نبوت کا عقیدہ ان اجماعی عقائد میں سے ہے، جو اسلام کے اصول اور ضروریات دین میں شمار کئے گئے ہیں . اور عہد نبوت سے لے کر اس عہد تک ہر مسلمان اس پر ایمان رکھتا آیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلا کسی تاویل اور تصخیص کے خاتم النبیین ہیں .
  • قرآن مجید کی ایک سو آیات کریمہ، رحمت عالم ﷺ کی احادیث متواترہ (دوسو دس احادیث مبارکہ) سے یہ مسئلہ ثابت ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کا سب سے پہلا اجماع اسی مسئلہ پر منعقد ہوا کہ مدعی نبوت کو قتل کیا جائے.
  • آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ حیات میں اسلام کے تحفظ وحیات میں اسلام کے تحفظ و حیات کے لیے جتنی بھی جنگیں لڑیں گئیں ، ان میں شہید ہونے والے صحابہ اکرام رضی اللہ عنہ کی کل تعداد 259 ہے .
  • عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ ودفاع کے لئے اسلام کی تاریخ کی پہلی جنگ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں مسلیمہ کزاب کے خلاف یمامہ کے میدان میں لڑی گئی .
  • اس ایک خنگ میں شہید ہونے والے صحابہ رضی اللہ عنہ اور تابعین رحمتہ اللہ کی تعداد بارہ سو ہے جن میں 700 سات سو قرآن مجید کے حافظ اور عالم تھے.
  • رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کل کمائی اور گراں قدر اثاثہ حضرات صحابہ اکرام رضی اللہ عنہ ہی ہیں . جن کی بڑی تعداد اس عقیدہ کے تحفظ کے لئے جام شہادت نوش کر گئی 
  • . اس سے ختم نبوت کے عقیدہ کی عظمت کا اندازہ ہو جاتا ہے .
  • عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت اور فضیلت

  • حضرت حبیب بن زید انصاری رضی اللہ عنہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یمامہ کے قبیلہ بنو حنیفہ کے مسلیمہ کزاب کے پاس بھیجا، مسلیمہ کذاب نے حضرت حبیب بن زید انصاری رضی اللہ عنہ کو کہا کیا تم گواہی دیتے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ؟ 
    حضرت حبیب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں ... مسلیمہ نے کہا کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں (مسلیمہ) بھی اللہ کا رسول ہوں؟؟
    حضرت حبیب بن ذید انصاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں بہرا ہوں تیری یہ بات نہیں سن سکتا ....
    مسلیمہ بار بار سوال کرتا رہا ،وہ یہی جواب دیتے رہے .. 
    مسلیمہ آپ کا ایک ایک عضو کاٹتا رہا حتی' کہ حبیب بن زید رضی اللہ عنہ کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر کہ ان کو شہید کردیا گیا..
    اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرات صحابہ اکرام رضی اللہ تعالی عنہ مسئلہ ختم نبوت کی اہمیت وعظمت سے کس طرح والہانہ تعلق رکھتے تھے ...
    اب تابعین رضی اللہ عنہ میں سے ایک تابعی کا ایک واقعہ ملاحظہ ہو ............
    "حضرت ابو مسلم خولانی رضی اللہ عنہ جن کا نام عبدللہ بن ثوب رضی اللہ عنہ ہے اور یہ امت محمدیہ کے وہ جلیل القدر بزرگ ہیں جن کے لئے اللہ نے آگ کواس طرح بے اثر فرما دیا ..
    جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے آتش نمرود کو گلزار بنا دیا . یہ یمن میں پیدا ہوئے تھے .اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارک میں ہی اسلام کے آئے تھے .لیکن ارکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضری کا موقع نہیں ملا تھا .
    آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ کے آخری دور میں یمن میں نبوت کے جھوٹادعوےدار اسود عنسی پیدا ہوا .جو لوگوں کو اپنی جھوٹی نبوت پر ایمان لانے پر مجبور کیا کرتا تھا .
    اسی دوران اس نے حضرت ابو مسلم خولانی رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیج کر اپنے پاس بلایا اور اپنی نبوت پر ایمان لانے کی دعوت دی .... حضرت ابو مسلم رضی اللہ عنہ نے انکار کیا پھر اس نے پوچھا کیا تم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر ایمان رکھتے ہو ؟؟؟
    حضرت ابو مسلم رضی اللہ عنہ نے فرمایا ...ہاں
    اس پر اسود عنسی نے آگ دھکائی اور ابو مسلم لو اس خوفناک آگ میں ڈال دیا ، لیکن اللہ تعالی نے ان کے لئے آگ کو بے اثر کر دیا اور وہ اس سے صحیح سلامت نکل آئے. یہ واقعہ اتنا عجیب تھا کہ اسود عنسی اور اس کے رفقاء کو اس پر ہیبت سی طاری ہو گئی اسود کے ساتھیوں نے اسے مشورہ دیا کہ ان کو جلا وطن کر دو . ورنہ خطرہ ہے کہ ان کی وجہ سے تمہارے پیرووں کے ایمان میں تزلزل آجائے گا. چنانچہ انہیں یمن سے جلا وطن کر دیا گیا .
    یمن سے نکل کر آپ مدینہ منورہ تشریف لے آئے .حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جب ان سے ملے تو فرمایا : شکر اللہ تعالی کا کہ اس نے مجھے موت سے پہلے اس نے امت محمدیہ صلہ اللہ علیہ وآلہ وسلم کہ اس شخص کی زیارت کرا دی جس کے ساتھ اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ اسلام جیسا معاملہ فرمایا "
  • قرآن مجید میں ذات باری تعالی کے متعلق "رب العالمین" آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے "رحمتہ للعالمین" قرآن مجید کے لئے "زکرللعالمین" اور بہت اللہ کےلئے "ھدی للعالمین " فرمایا گیا ہے.
    اس سے جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت ورسالت کی آفاقییت وعالمگیریت ثابت ہوتی ہے،وہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصف ختم نبوت کا اختصاص بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کے لئے ثابت ہوتا ہے. اس لئے کے پہلے تمام انبیاء علیہ السلام اپنے اپنے علاقہ مخصوص قوم اور مخصوص وقت کے لئے تشریف لائے ، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو حق تعالی نے کل کائنات کو آپ کی نبوت ورسالت کے لئے اکائی بنا دیا .
    جس طرح کل کائنات کےلئے اللہ تعالی "رب" ہے .اسی طرح کل کائنات کےلئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم "نبی" ہیں.
    یہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اعزاز اختصاص ہے. آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےاپنے لئےجن چھے خصوصیات کا زکر فرمایا ان میں سے ایک یہ بھی ہے ::
    "میں تمام مخلوق کو نبی بنا کر بھیجا گیا اور مجھ پر نبوت کا سلسلہ بند کر دیا گیا "(مشکوہ صفحہ 512 فضائل المرسلین 'مسلم جلد 1 صفحہ 199)
    آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری نبی ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت آخری امت ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قبلہ آخری قبلہ بیت شریف ہے .آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل شدہ کتاب آخری آسمانی کتاب ہے .
    یہ سب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے ساتھ منصب ختم نبوت کے اختصاص کے تقاضے ہیں جو اللہ تعالی نے پورے کر دیے ہیں.
    چنانچہ قرآن مجید کو "زکر للعالمین" بیت اللہ شریف کو "ھدی للعالمین" کا اعزاز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت کے صدقے میں ملا ہے.
    آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت آخری امت قرار پائی جیسا کہ ارشاد نبوی ہے "انا آخر الانبیاء وانتم آ ”ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین وکان اللہ بکل شئی علیما۔“ (سورۂ احزاب:40) 
    ترجمہ: ”محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے ختم پر ہے اورا للہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔
    تمام مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ خاتم النبیین کے معنی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو منصبِ نبوت پر فائز نہیں کیا جائیگا۔
    خاتم النبیین کی نبوی تفسیر

    حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے، ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی کسی قسم کا نبی نہیں۔“(ابوداؤد، ترمذی) اس حدیث شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ ”خاتم النبیین“ کی تفسیر ”لانبی بعدی“ کے ساتھ خود فرمادی ہے۔اسی لئے حافظ ابن کثیررحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر میں اس آیت کے تحت چند احادیث نقل کرنے کے بعد آٹھ سطر پر مشتمل ایک نہایت ایمان افروز ارشاد فرماتے ہیں۔ چند جملے آپ بھی پڑھ لیجئے۔
    ”اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور رسول اکرم نصلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث متواتر کے ذریعہ خبر دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا تاکہ لوگوں کو معلوم رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جس نے بھی اس مقام (یعنی نبوت) کا دعویٰ کیا وہ بہت جھوٹا‘ بہت بڑا افترا پرداز‘ بڑا ہی مکار اور فریبی‘ خود گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا ہوگا‘ اگرچہ وہ خوارق عادات اور شعبدہ بازی دکھائے اور مختلف قسم کے جادو اور طلسماتی کرشموں کا مظاہرہ کرے۔“ (تفسیر ابن کثیررحمۃ اللہ علیہ جلد3 صفحہ494)
    خاتم النبیین کی تفسیر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے

    حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم و تابعین رحمۃ اللہ علیہم کا مسئلہ ختم نبوت سے متعلق مؤقف کیلئے یہاں پر صرف دوصحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی آرأ مبارکہ درج کی جاتی ہیں۔ حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ انہوں نے آیت کی تفسیر میں فرمایا”اور لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول اور خاتم النبیین یعنی آخرالنبیین ہیں۔“ (ابن جریر صفحہ 16جلد 22) حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ سے آیت خاتم النبیین کے بارہ میں یہ تفسیر نقل کی گئی ہے کہ”اللہ تعالیٰ نے تمام انبیأ کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کردیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان رسولوں میں سے جو اللہ کی طرف سے مبعوث ہوئے آخری ٹھہرے۔“ (درّ منثور صفحہ204 جلد5) کیا اس جیسی صراحتوں کے بعد بھی کسی شک یا تاویل کی گنجائش ہے؟ اور بروزی یا ظلی کی تاویل چل سکتی ہے؟
  • خرالامم" (ابن ماجہ صفحہ 297)
  • 0 comments:

    آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

    اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

    اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔