Thursday 3 September 2015

Qadiyaniyat pat 2nd Class...قادیانیت پر دوسرئ کلاس

0 comments
؟ 
مذہبی دعووں کی سیاست


مرزا صاحب کا سارا کاروبار صرف اور صرف مذہب کی آڑ میں سیاست تھی جس کا اسلام کے احیاء کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔آپ انگریزوں کے آلہ کار اور مسلمانوں کے اتحاد کے سب سے بڑے دشمن تھے۔مجدد، مہدی، مسیح موعود، نبی، رسول اور کرشن اوتار کے دعوے صرف سیاسی تماشے تھے۔آپ کے سیاسی کاروبار کی نوعیت سمجھنے کے لیے آپ کے مہددیت کے دعوے سے گفتگو کا آغاز کرتے ہیں۔
مہدی

احادیث کے مطابق مہدی ایک ہدایت یافتہ شخصیت ہوں گے۔نبی کریمﷺ کے طریق پر خلافت قائم کریں گے اور زمین کو اُس وقت عدل و انصاف سے بھر دیں گے جب اسے زمین سے منتشر کر کے نکالا جا چکا ہو گا۔ وہ ایک جنگجو اور اسلام کے عظیم سپاہی ہوں گے۔تاریخ کے مختلف ادوار میں اپنے سیاسی مقاصد کو پروان چڑھانے کے لیے کئی مذہبی مہم جوؤں نے مہد ی ہونے کا دعویٰ کیا۔سیاسی مقاصد کی خاطر ایران کے بابیوں اور ہندوستان کے قادیانیوں نے اس کا سب سے زیادہ استعمال کیا۔ جب کبھی مسلمانوں کی سیاسی قو ت تنزل کا شکار ہوئی تو کوئی نہ کوئی مہدی اُٹھ کھڑا ہوا۔انیسویں صدی کے سیاسی حالات کے باعث ”مہدی ”کے تصور نے بڑی اہمیت حاصل کی۔ یہ اعتماد بحال کرنے اور کسی قوم کی اُمید زندہ رکھنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔یہ توقع کی جاتی تھی کہ مہدی علیہ السلام آکر ماضی کی شان و شوکت بحال کریں گے اور اسلامی دُنیا کو ایک خوشگوار انجام تک لے جائیں گے۔مرزا صاحب نے مہدی کا دعویٰ ١٨٩١ء میں کیا۔ آپ نے یہ اعلان کیا کہ آپ کی ذات میں مہدی کے متعلق تمام پیش گوئیاں مکمل ہو گئی ہیں ،مگر مہدی کے جہادی پہلو کے متعلق سوچ کر آپ خوف سے کانپ جاتے۔ آپ نے اپنے آپ کو ”عدم تشدد کا حامی مہدی” قرار دیا جو زمین پر جنگ کو روکنے آیا تھا۔آپ نے انگریزوں اور مسلمانوں کو یہ یقین دلانے کی سر توڑ کوشش کی کہ مہد ی کی عالمی فتوحات کی جو پیش گوئیاں ہیں وہ امن کی فتوحات ہیں ، جنگ کی نہیں۔اپنی کتابوں میں آپ نے مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرایا کہ وہ ایک خونخوار جنگجو اور خونی مہدی کے تصور کو پروان چڑھا رہے ہیں ،جو غیر مسلم یہودیوں اور عیسائیوں کو قتل کرے گا۔ ١ ایسا کوئی مہدی نہیں آ سکتا جو جہاد شروع کرے۔ وہ ایک ابلاغ کا ر تو ہو سکتا ہے،سپاہی نہیں۔انگریزوں کے خلاف جنگ کا سوال ہی پید انہیں ہوسکتا تھا،خواہ ہندوستان میں یااسلامی دُنیا میں کہیں اور اس کی ضرورت پیش آئے۔

انیسویں صدی کے آخیر میں نو آبادیاتی قومیں ایشیا ء اور افریقہ میں نو آبادیوں کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی تھیں فرانسیسی سامراج نے تیونس پر قبضہ کر لیا اور برطانیہ مصر لے گیا۔مصر کے معاملات میں برطانیہ کی مداخلت ١٨٧٥ء میں شروع ہوئی جب برطانوی وزیر اعظم ڈزرائیلی نے نہر سویز کے حصص خریدنے کے لیے بات چیت شروع کی۔ اس کے بعد اگلی دہائی میں بھی انہوں نے ”پُر امن نفوذ پذیری ” جاری رکھی، خد یواسماعیل نے نو آبادیاتی شکنجے سے جان چھڑانے کی کوشش کی،مگر ناکام رہا۔ ١٨٧٩ء میں مصری فوج میں ایک بغاوت ہوئی جو دبادی گئی۔ دوسال بعد کرنل احمد اعرابی نے مصری معاملات میں برطانوی مداخلت کے خلاف چند فوجی افسران اور مذہبی رہنماؤں کے ساتھ مل کر ہتھیار اُٹھا لیے۔ ١١ اور ١٢ جون کو اسکندریہ میں بلوہ ہوا۔ ایک مہینے بعد برطانوی امیر البحر فریڈرک بی کیمپ نے وہ کیاجسے بعد میں ولزلی نے ”اسکندریہ پر احمقانہ اور مجرمانہ بمباری ”کا نام دیا گیا۔لندن میں اعرابی کی جنگ آزادی کو ختم کرنے کے لیے گلیڈ سٹون حکومت نے فوج بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ ستمبر ١٨٨٢ء میں فوج کے نائب سالار ولزلی کو طل کبیر کی جنگ میں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جو کہ نہر سویز اور قاہرہ کے تقریباً وسط میں تھی۔تاہم برطانوی فوجیں کامیاب رہیں اور کرنل احمد کی فوجیں جزیرہ سشیلز کی طرف ہٹ گئیں۔١٨٨٣ء میں برطانیہ نے مصر پر قبضہ کر لیا اوراس حقیقت کے باوجود کہ مصر ترکی سلطنت کا حصہ تھا،برطانیہ نے اس پر اپنا نو آبادی تسلط جاری رکھا۔

(مرزا غلام احمد”حقیقت المہدی ”قادیان۔ ١٨٩٩ء۔ صفحہ نمبر ٦۔ اور ” محمد علی، مرزا غلام احمد” لاہور۔١٩٦٧ء صفحہ نمبر ٥)

اعرابی کی نو آبادیاتی مخالف بغاوت کے دوران سوڈان میں ایک مذہبی رہنما المہدی (محمد احمد ) اُٹھ کھڑے ہوئے۔انہوں نے تمام قبائل کو متحد کیا اور ان تمام مصری دستوں کو متواتر شکستیں دیں جو انہیں گرفتار کرنے کے لیے بھیجے گئے تھے۔نیل کے مغرب میں مہدی کے درویشوں نے پورے سوڈان کا مکمل اختیار جلد ہی سنبھا ل لیا۔

((مہدی برطانوی یا مصری تاریخ کا ایک باب یا حصہ نہیں یہ اسلامی احیاء کے خود مختار تاریخی عمل کا حصہ ہے۔ دیکھئے بی۔ایم۔ہولٹ ”سوڈان میں مہدی ریاست ”۔ ٨٩۔١٨٨١۔ آکسفورڈ۔١٩٥٨۔ اور۔محمد شکیبہ۔”سوڈان میں برطانوی حکمت عملی ” لندن۔١٩٥٢ء)

١٨٨٣ء میں دس ہزار فوجیوں کولے کر برطانوی جرنیل ہکس نے درویشوں کے خلاف لڑنے کے لیے صحرا میں بڑھنا شروع کیا۔ جذبہ جہاد سے سر شار مہدی کی فوجوں نے دس ہزار آدمیوں کی فوج کا مکمل صفایا کر دیا جس سے برطانوی حیران اور خوفزدہ ہو گئے۔ لارڈ فٹ موریز نے دار الامرا ء کو بتایا کہ ”جب سے فرعون کے ہاتھی بحیرہ احمر میں ڈوب کر تباہ ہوئے اس وقت سے کسی فوج کی اتنی مکمل تباہی آج تک نہیں ہو سکی ”۔ سوڈانیوں اور عرب ممالک کی کثیر تعداد نے یہ یقین کر لیا کہ آپ وہی ا صل مہدی ہیں جن کی آمد کی خوشخبری حضور اکرمﷺ نے دی تھی۔

(لٹن سٹار کی۔ Eminent Victorians۔چٹوئی اور انڈس۔لندن۔١٩٧٤۔صفحہ نمبر ٢٥٥)

برطانوی سامراجیوں نے درویشوں کے خلاف لڑنے کے لیے چارلس گورڈن کا انتخاب کیا۔ گورڈن نے تائیوان کی چین میں ”تائپنگ بغاوت ”کو کچل کر بڑا نام کمایا تھا۔اس تحریک کا سربراہ خدا کا بیٹا،خدا کا پیغمبر،آسمانی بادشاہ اور حضرت مسیح کا چھوٹا بھائی ہونے کا دعویدار تھا۔ وہ بھی مرزا کی طرح اپنے علمی مقاصد میں ناکامی پرسیاست کی طرف راغب ہو گیا۔١٨٦٤ ء میں گورڈن نے ”مسیح کی بغاوت ”کچل دی اور نان کن پر قبضہ کر لیا۔

مہدی کی فوجو ں کے بڑھتے ہوئے عسکری دباؤ کے سامن گورڈن نے اپنی چھاؤنیاں ہٹا لیں اور برطانوی احکامات کے خلاف خرطوم پر اپنا قبضہ جاری رکھا جب تک کہ ١٨٨٥ء میں مہدی کی فوجوں نے اس پر قبضہ کر لیا۔ درویشوں نے جنرل گورڈن کو مار ڈالا۔ملکہ وکٹوریہ اصرار کرتی رہی کہ ہندوستانی دستوں کو عدن سے حرکت دی جائے کہ وہ گورڈن کو بچا سکیں۔مشہور انگریزی شاعر لارڈٹینی سن نے گورڈن کے بارے ایک نظم لکھی اور برطانوی پریس نے اسے ”سپاہی ولی”کا خطاب دے دیا اگرچہ ریڈ ور زبلرز نے یہ کہا ”یہ آدمی اُونٹوں سے بھی کم حیثیت کا مالک تھا۔

(رچرڈ گیرٹ۔ ”جنرل گورڈن ”۔آتھر بیکر لمیٹڈ لندن۔١٩٧٤ء صفحہ نمبر ٢١٥

محمد احمد المہدی سوڈانی کو برطانوی فوجیں کبھی بھی نیچا نہ دکھا سکیں۔ دس سال کے عرصے کے بعد کچنر نے ١٨٩٦ء میں سوڈان کو سامراجی دائرہ اختیار میں زبردستی لانے کے لیے فوجی مہمات شروع کیں۔ ایک سال کے بعد مہدی کے خلیفہ کو بڑی خونریزی کے بعد شکست ہوئی اور وہ ایک سال بعد مارے گئے۔کچنر نے مہدی کا مقبرہ تباہ کر دیا۔ ان کی ہڈیاں دریائے نیل میں پھینک دی گئیں اور یہ تجویز ہوا کہ ان کی کھوپڑی رائل کالج آف سرجنز کو بھجوائی جائے جہاں اس کی نپولین کی آنتوں کے ساتھ نمائش کی جا سکے۔بعد ازاں وادی حلفہ میں یہ کھوپڑی رات کے وقت خفیہ طور پر دفن کر دی گئی۔

مہدی کی سوڈان میں جنگ آزادی نے عرب اور شام میں سنگین خطرے بھڑکا دئیے۔ مسلمانانِ ہند نے بھی برطانوی فوجوں کی ذلت آمیز شکستوں پر اطمینان کا سانس لیا۔ انہوں نے مہدی سوڈانی کو عزت و احترام دیا۔ انہیں خطوط بھیجے اور قوموں کے نجات دہندہ کا درجہ دیا۔ ہندوستان میں اُنہیں یقین پورا پایا جاتا تھا کہ مہدی سوڈانی افریقہ کو فتح کرنے کے بعد انڈیا بھی فتح کریں گے اور غیر ملکی شکنجوں سے مسلمانوں کو آزاد کرائیں گے۔

( اے ایگمن ہیک۔دی جزنر۔میجر جرنل سی۔ جی گولڈن۔سی۔ بی الخرطوم۔کیگن پال ٹرونج اینڈ کمپنی لندن ١٨٨٥ء۔صفحہ نمبر ٤٤ٍ)

جب مہدی سوڈانی کی تحریک پورے زوروں پر تھی، مرزا قادیانی جہاد کی مذمت اور برطانوی سامراج کے روشن ترین خاکے تیار کر کے مذہبی مواد کی بھاری مقدار افریقہ کو بھجوا رہا تھا۔

اپنی کتاب ”حقیقت المہدی ”میں اس نے جہادی اور خونی مہدی کی سخت مذمت کی اور دعویٰ کیا کہ پچھلے بیس سالوں سے (١٨٧٩۔٩٩ ١٨ء)وہ تصور جہاد کے خلاف پرچار کر رہا ہے۔ ایک خونی مہدی اور مسیح کی آمد کے نظریئے اور جہاد مخالف لٹریچر کی عرب ممالک خصوصاً ترکی،شام، کابل وغیرہ میں تقسیم جاری رکھی۔ اپنی کتاب کے ساتھ عربی اور فارسی میں ایک اٹھارہ صفحات کا ضمیمہ منسلک کر کے اس نے عرب ممالک کے مسلمانوں کو دعوت دی کہ وہ اس کی مہدویت کے دعویٰ کو تسلیم کر لیں اور جہاد کے نام پر جنگیں بند کر دیں اور برطانوی حکومت کے بارے میں اپنے دلوں میں گہرا احترام پیدا کریں۔ایک دوسری کتاب ”ملکہ وکٹوریہ کی خدمت میں تحفہ ”میں آپ ذکر کرتے ہیں۔

”والد صاحب مرحوم کے انتقال کے بعد یہ عاجز دنیا کے مشغلوں سے بالکل علیحدہ ہو کر خدا تعالی کی طرف مشغول ہوا اور مجھ سے سرکار انگریزی کے حق میں جو خدمت ہوئی وہ یہ تھی کہ میں نے پچاس ہزار کے قریب کتابیں اور رسائل اور اشتہارات چھپوا کر اس ملک اور نیز دوسرے بلادِاسلامیہ میں اس مضمون کے شائع کیے کہ گورنمنٹ انگریز ہم مسلمانوں کی محسن ہے، لہٰذا ہر ایک مسلمان کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ اس گورنمنٹ کی سچی اطاعت کرے اور دل سے اس دولت کا شکر گزار اور دعا گو رہے اور یہ کتابیں میں نے مختلف زبانوں یعنی فارسی عربی میں تالیف کر کے اسلام کے تمام ملکوں میں پھیلا دیں یہاں تک کہ اسلام کے دو مقدس شہروں مکہ اور مدینہ میں بھی شائع کر دیں۔اور روم کے پایہ تخت قسطنطنیہ اور بلادِ شام اور مصر اور کابل اور افغانستان کے متفرق شہروں میں جہاں تک ممکن تھا اشاعت کر دی جس کا یہ نتیجہ ہوا کہ لاکھوں انسانوں نے جہاد کے غلیظ خیالات چھوڑ دئیے جو نا فہم ملاؤں کی تعلیم سے ان کے دلوں میں تھے۔یہ ایک ایسی خدمت مجھ سے ظہور میں آئی کہ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ برٹش انڈیا کے تمام مسلمانوں میں سے اس کی نظیر کوئی مسلمان دکھلا نہیں سکتا۔

( دیکھئے مرزا غلام احمد ”ستارہ قیصریہ ”١٨٩٩ء۔قادیان۔ صفحہ نمبر ٤٠٣ ”حقیقت مہدی ”قادیان۔١٨٩٩ء)

کیا اپنی جیب سے ہزاروں روپیہ خرچ کر کے برطانوی حمایت میں لٹریچر چھپوانے میں کوئی مقصد کارفرما ہے؟ کیا احمدی اس پر روشنی ڈالیں گے؟ یہ ہزاروں روپے (جن کی آج وقعت کروڑوں روپے بنتی ہے )کہاں سے آئے ؟ ١٨٩٨ء میں مرزا صاحب نے انکم ٹیکس کے ایک مقدمہ میں اپنی سالانہ آمدنی سات سو روپے سے کم ظاہر کی تھی، جس پر ضلع گرداسپور کے کلکٹر ٹی۔ٹی ڈکسن نے انہیں انکم ٹیکس سے مستثنی قرار دیا تھا۔

(مرزا غلام احمد۔”تحفہ قیصریہ”ص ٢٧۔)

مرزا صاحب اسے ایک خدائی نشانی قرار دیتے ہیں۔

(مرزا غلام احمد”ضرورت الامام ”قادیان ١٨٩٩ء )

برطانوی پروپیگنڈا مہم میں خرچ کے لیے وہ ہزاروں روپوں کا کہاں سے انتظام کرسکا ؟ جواب بالکل صاف ہے۔ سیاست کے اس فریب کارانہ کھیل کی مدد کے لیے برطانوی خفیہ تنظیموں کی تفویض پر خفیہ مذہبی رقوم رکھی گئی تھیں۔ہندوستان اوراس کے باہر برطانیہ کی حمایت میں پروپیگنڈا مہم کی تدوین اور اسے جاری رکھنے کے لیے فری میسن اور یہودی بھی آپ کو رقوم دیتے تھے۔ مرزا صاحب نے یہ وضاحت بھی کی ہے کہ وہ اسلامی ممالک میں اس لٹریچر کے ساتھ چند عرب شرفا ء کو بھی بھیجتے رہے ہیں۔

(مرزا غلام احمد کی تیار کردہ یادداشت جو منظوری کے لیے ملکہ وکٹوریہ ہندوستان کے منتظم اعلی کے نائب منتظم اور ہندوستان کے دوسرے اہل کاروں کو پیش کی گئی۔”تبلیغ رسالت ”۔جلد ٣۔صفحہ نمبر ١٩٦ )

قادیان کی خفیہ تنظیم کے تربیت یافتہ یہ جاسوس اسلام مخالف قوتوں کے ساتھ قریبی تعلقات قائم رکھتے تھے۔غلام نبی (قادیان)عبدالرحمن مصری، عبدالمحی عرب،(پروفیسر عبدالمحی عرب حکیم نورالدین سے بہت متاثر تھا۔ وہ نیویارک میں طب کی تعلیم کے لیے جانا چاہتا تھا،مگر امریکی حکومت نے اسے ایرانی جاسوس سمجھتے ہوئے اجازتِ داخلہ دینے سے انکار کر دیا۔ جس پر وہ لندن میں مقیم ہو گیا )

(مولانا غلام رسول مہر۔”سفر نامہ حجاز ” کراچی۔ ١٩٨٤ئ۔ صفحہ نمبر ٧٦)

اور شاہ ولی اللہ کو انیسویں صدی کے اخیر میں تخریب کارانہ مقاصد کے لیے مصر بھیجا گیا۔ان کی خدمات قاہرہ میں برطانوی خفیہ والوں کو تفویض کر دی گئیں۔ہمارے ذہنوں میں ایک اور اہم سوال اُبھرتا ہے کہ مرزا صاحب کا یہ دعویٰ تھا کہ برطانوی ہند میں جہاد ممنوع اور غیر قانونی ہے،مگر آپ نے اسے بقیہ اسلامی دنیا کے لیے مکمل طور پر غیر قانونی اور ممنوعہ کیوں قرار دیا۔ جہاں مسلمان یورپی سامراجیت کے خلاف اپنے بقاء کی جنگ لڑ رہے تھے۔کیا یہ سامراجی قوتوں اور ان کے یہودی حلیفوں کے واسطے اسلامی دنیا کی جہادی تحاریک کو تباہ کرنے کی ایک طے شدہ حکمت عملی نہیں تھی ؟

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔