شاہکار تخلیق : Magnum Opus
سال ١٨٧٢ء کے لگ بھگ مرزا صاحب نے ہندوستانی اخبارات و رسائل میں اپنے آپ کو اسلام کے علمبردار کے طور پر متعارف کرانے کے لیے مضامین روانہ کرنے شروع کیے۔بعد ازاں انہوں نے آریا برہمو اور دیو سماج کے رہنماؤں کے ساتھ ویدوں کے فلسفے اور تناسخ ارواح کے سوال پر زور دار مباحثے شروع کیے۔وہ اپنے آپ کو اسلام کا دفاع کرنے والے اسلامی مبلغ کے طور پر پیش کرنے کے لیے بیتاب تھے اور اس کے لیے مسلمانوں کی تائید حاصل کرنا چاہتے تھے۔١٨٧٩ء تک وہ ”براہین احمدیہ ” نامی کتاب کی تدوین میں مصروف رہے ١٨٨٤ء میں اس کتاب کی پہلی چار جلدیں چھپ گئیں۔اس کی متواتر اپیلوں پر بہت سے خوشحال مسلمانوں خصوصاً ریاست پٹیالہ کے دیوان سید محمد حسین (ریاست پٹیالہ کا دیوان خلیفہ محمد حسین برطانوی حکومت کا طرف دار تھا اسے اس شاہی مجلس کا اعتماد بھی حاصل تھا جو کہ پنجاب کی اس وفادار ریاست کے معاملات پر اختیار رکھی تھی۔اس کتاب کی اشاعت کے لیے اس نے مرزا صاحب کی بڑی مالی اور اخلاقی مدد کی۔١٨٨٤ء میں مرزا پٹیالہ گیا جہاں اس کا سرگرم استقبال کیا گیا۔١٨٨٦ء میں مرزا کو پٹیالہ آنے کی دعوت دی کہ چند اہم معاملات پر بات کرنا تھی اور تین ارکان پر مشتمل شاہی مجلس جس کے سربراہ سردار دیواسنگھ ان سے اس کا تعارف کرایا گیا۔مسیحیت کے دعویٰ کے بعد ١٨٩١ء میں مرزا صاحب نے ریاست کا تیسرا چکر لگایا۔کچھ لوگوں کوشک تھا کہ اپنے مکروہ مقاصد کی تکمیل کے لیے رقم کے فراہمی کے لیے خلیفہ انگریزوں اور مرزا صاحب کے مابین رابطے کا کام کرتا تھا۔(دیکھیے مصباح الدین۔”خاتم النبیین ”۔ راولپنڈی ١٩٧٣ء نواب بھوپال، حیدر آباد دکن کے مولوی چراغ علی، لدھیانوی کے نواب علی محمد خان اور واہ کے رئیس سردار غلام محمد نے اس کتاب کی اشاعت میں اس کی مالی معاونت کی۔
Mirza Ghulam Ahmad, Brahin-e-Ahmadya, Safeer-e-Hind Press, Amritsar, 188
براہین احمدیہ کی پہلی جلد میں دو فارسی نظمیں اور ایک طویل اعلان جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اگر اسلام کی حمایت میں درج ان کی دلیلوں کو کوئی جھٹلانے کی جرأت کرے تو اسے دس ہزار روپے انعام دیا جائے گا۔یہ ایک احمقانہ اور بڑا دعویٰ تھا بعد ازاں ان کے بیٹے مرزا بشیر احمد نے کہا کہ وہ اسللام کے حق میں ایک دلیل بھی نہ دے سکے۔
Mirza Bashir Ahmad, Searat-ul-Mahdi, vol.1 p.93
مرزا نے یہ کتاب کاروباری نکتہ نظر اور اسلام کے داعی ہونے کی شہرت حاصل کرنے کے لیے لکھی پہلے کتاب کی قیمت پانچ روپے بتائی گئی لیکن بعد ازاں اسے دوگنا کیا اور پھر پچیس روپے تک بڑھا دی گئی۔وہ اس کی قیمت سو روپے مقرر کرنا چاہتے تھے مگر یہ خیال ترک کر دیا۔مسلمانان ہند کو اپیلیں کی گئیں کہ وہ پیشگی رقوم بھجیں۔یہ وعدہ کیا گیا کہ اس کتاب کی پچاس جلدیں آئیں گی جن میں اسلام کی حقانیت کے ڈھیر لگا دیے جائیں گے مگر اس کی صرف پانچ جلدیں چھپ سکیں۔ پہلی چار ١٨٨٤ ء جب کہ پانچویں جلد ٢٣ سال کے بعد ١٩٠٨ میں یعنی مرزا کی وفا ت کے بعد منظر عام پر آسکی۔ براہین احمدیہ میں مرزا کی بہت دلچسپ وحی،کشف اور الہامات کے نمونے درج ہیں۔مرزا نے اپنے مستقبل کے فاسد منصوبوں کی تکمیل کے لیے ان الہامات وغیرہ کو خام مواد کے طور پر استعمال کیا درحقیقت اس نے ابتدا ہی میں خفیہ طور پر نبوت کا دعویٰ کر دیا تھا۔(براہین احمدیہ کی تدوین کے وقت مرزا غلام احمد نے اپنے اصل مدعا ء یعنی دعویٰ نبوت کو چھپائے رکھا اور بڑی عیاری سے اس کو مناسب وقت کے لیے مؤخر کر دیا۔١٧اگست ١٨٩٩ء کو ” دنیا میں ایک نبی اصیا جس کو دنیا نے قبول نہ کیا ”۔اس سے قبل جب وہ براہین احمدیہ کی تدوین میں مصروف تھا دعویٰ نبوت کے خلاف مسلمانوں کے سخت رد عمل کی وجہ سے اس نے اپنی وحی کی نام نہاد دوسری قرأت بیان کی۔”دنیا میں ایک نذیر آیا ”۔یہ بڑے واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ وہ کس درجہ محتاط تھا اور اس کی وحی اور خوابوں میں کیا منصوبے پنہاں تھے۔”تذکرہ ”۔صفحہ نمبر ١٠٤ ) نہ تو اس وقت کوئی مناسب وقت تھا نہ ہی وہ اس احمدی ناٹک کے ابتدائی مرحلہ میں مسلمانوں کے غیض و غضب کو للکارنے کی ہمت رکھتا تھا۔اس کتاب کی تیسری جلد میں اس نے فصیح و بلیغ انداز میں برطانوی راج کی تعریف کی اور اپنے گھرانے کو برطانوی سامراج کے سب سے مخلص اور وفادار کے طور پر متعارف کرایا ا س نے پر زور طریقے سے اپنے آپ کو وحی کا حامل گردانا اور برطانوی حکومت کے خلاف جہاد کو اللہ کی طرف سے ممنوع قرار دیا۔اس نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ انجمن اسلام لاہور (ایک نجی ادارہ جو مسلمانوں کے لیے کام کرتا تھا۔) اور اس کی شاخوں کو ہندوستان کے مقتدر علماء سے جہاد کے خلاف فتاوی حاصل کرنے چاہئیں اور انہیں کتابی شکل میں اس کے سرورق ”علماء ہند کی جانب سے خطوط کا مرقع ” کے تحت چھاپ دینا چاہیے۔اس کی پنجاب اور خصوصی طور پر ہندوستان شمال مغربی حصوں میں وسیع پیمانے پر تقسیم کرنی چاہیے تاکہ ہنٹر کی کتاب ”ہندوستانی مسلمان ” میں لگائے گئے الزامات کا جواب دیا جا سکے اور جہاد کے قائل مسلمانوں کے دلوں سے اس تصور کو اکھاڑ ا جا سکے۔
Brahin-e-Ahmadya,vol.3 P.A
مسلمانان ہند نے مرزا صاحب کی نیت کو مشکوک جان کر اس کی ان تحریروں کے خلاف سخت رد عمل ظاہر کیا جن میں برطانوی راج کی مدح و توصیف اور دنیائے اسلام کے دیگر حصوں پر اس کے قیام ک خواہشات درج تھیں۔کتاب کی چوتھی جلد میں اس نے تسلیم کیا کہ کئی لوگوں نے ان تحریروں پر سخت اعتراضات کیے ہیں ، بلکہ گالیاں تک دی ہیں کہ وہ ہندوستان میں برطانوی راج کی وکالت کیوں کرتا ہے۔ ٧ تاہم اس نے دلیل دی کہ قرآنی آیات اور احادیث نبویہ کے مطالعہ کے بعد وہ اپنا ذہن تبدیل نہیں کر سکتا اور اپنے موقف پر قائم ہے۔اس کتاب کی بعض وجوہات کی بناء پر کچھ حلقوں کی جانب سے پذیرائی بھی ہوئی کیونکہ غلطی سے یہ سمجھ لیا گیا کہ یہ اسلامی احیا ء کے ایک دعویدار کی طرف سے اپنے انداز میں اسلام کے دفاع کی ایک کوشش ہے مگر محتاط مسلمان علماء نے مرزا غلام احمد کے ممکنہ بلند بانگ دعووں کے خلاف اپنے خدشات کا اظہار کیا انہوں نے مرزا صاحب کو سیاسی آلہ کار،جھوٹا مدعی اور نالائق قرار دیا۔براہین احمدیہ کی طباعت کے بعد اس نے اپنی نجی زندگی پر توجہ دی۔اس کے پاس ایک آرام دہ زندگی گزارنے کے لیے کافی رقم اکھٹی ہو گئی تھی اور یہ سلسلہ بڑھتا گیا کیونکہ برطانیہ کے خفیہ فنڈ سے بھی آبیاری جاری رہی۔اس کے کچھ قریبی ارتقا ء نے اس پر اعتراض کیا کہ ان کی محنت سے کمائی گئی اور کنجوسی سے بچائی گئی رقم، جو کہ اسلام کی اشاعت کے لیے بدی جاتی ہے وہ مرزا صاحب کی بیوی کے زیورات کی خریداری پر صرف ہو رہی ہے۔ (”فاروق ”۔قادیاں۔٧ اکتوبر ١٩٩٨ء۔مرزا صاحب کے نہایت قریبی ساتھی اور جماعت کے اہم رکن خواجہ کمال الدین بھی ان میں سے ایک تھے۔سید سرور شاہ۔”کشف اختلاف”۔صفحہ نمبر ١٥ ) ڈاکٹر عبد الحکیم جو ایک وقت میں مرزا صاحب کے پر جوش پیروکار تھے انہوں نے واضح طور پر مرزا صاحب کے رقم بٹورنے کے طریق کار کو افشاء کیا اور بتایا کہ وہ کس طرح اسلام کے نام پر رقم بٹورتے تھے اور اسے ذاتی استعمال میں لاتے تھے۔(الذکر الحکیم نمبر ١تا ٦۔مبارک برادرز۔پٹیالہ سٹیٹ۔پنجاب ٧۔ ١٩٠٦ء ) ایسی اکا دکا آوازوں کو دبا دیا گیا،بلکہ مرزا صاحب کے دعووں میں ڈوب گئیں۔
Brahin-e-Ahmadya,vol.4 p.A
١٨٨٤ء میں پچاس برس کی عمر میں آپ کو دوسری شادی کا خیال آیا۔پہلی بیوی سے آپ کے بیٹے مرزا سلطان احمد اور مرزا فضل احمد تھے۔اگرچہ آپ نے اپنی خراب صحت کا متعدد تحریروں میں بڑا واویلا کیا اور کہا کہ وہ پرانی بیماریوں مثلاً تپ دق ذیابیطس اور درد شقیقہ وغیرہ میں مبتلا ہے اور صنف مخالف میں ہر طرح کی دلچسپی کھو چکا ہے پھر بھی اس نے اعلان کیا کہ خدیجہ کے ساتھ دوسری شادی کے لیے اس پر وحی اُتری ہے۔
.Tazkira: 2nd Edition,Rabwah,1969,p.3
١٧ نومبر ١٨٨٤ ء کو آپ نے نصرت جہاں سے شادی کر لی جو لاہور میں محکمہ آب پاشی میں معمولی ملازم میر ناصر نواب کی بیٹی تھی۔میر صاحب عرصہ دراز تک مرزا صاحب کے مذہبی دعووں کی مخالفت کرتے رہے بعد میں رام ہو گئے۔مرزا صاحب کو تیسری شادی کی بھی شدید خواہش تھی مگر محمدی بیگم کے ساتھ معاشقے نے انہیں ایک ایسی الہامی دلدل میں پھنسا دیا کہ وہ اس خیال کو زیادہ دیر تک بر قرار نہ رکھ سکے۔
١٨٨٥ء میں مرزا صاحب نے مجد داور وقت کے مصلح ہونے کا دعویٰ کیا۔اگلے سال آپ ہشیار پور تنہائی میں چلہ کشی کے لیے چلے گئے۔چلے کے مکمل ہونے پر آپ نے ٢٠ فروری ١٨٨٦ء کو یہ اعلان چھپوایا کہ انہیں ایک ذہین اور خوبصورت بچہ عطا ہو گا اس کا نام عمانویل اور بشیر ہو گا۔وہ اول اور آخر کا روپ۔سچائی اور عظمت کا مظہر ہو گا۔جیسے اللہ تعالی بذات خود عالم بالا سے اُتر آیا ہو۔نتیجہ آپ کے بیٹے مرزا (بشیر الدین ) محمود احمد نے دعویٰ کیا کہ وہ ہی موعود بیٹا ہے۔آپ نے ١٩٤٤ء میں ایک تو مرزا صاحب کی مبہم تحریر دوسرے اپنی وحی کی بناء پر”مصلح موعود ”ہونے کا دعویٰ کیا۔
یکم دسمبر ١٨٨٨ء کو مرزا صاحب نے اعلان کیا کہ انہیں خدا نے بیعت اور جماعت بنانے کا حکم دیا ہے۔ بیعت ہونے کے لیے دس شرائط قبول کرنا تھا۔ان میں چوتھی شرائط اگرچہ عمومی نوعیت کی تھی،لیکن ہر احمدی کو پابند کرتی تھی کہ وہ حکومت برطانیہ کا وفادار رہے گا۔ آپ نے رسمی طور پر لدھیانہ میں ٢٣ مارچ ١٨٨٩ء کو بیعت لی۔جماعت میں داخلے کی چوتھی شرط پر مرزا محمود اس طرح خیال آرائی کرتے ہیں :
”اپنے آغاز سے یہ جماعت حکومت کی وفادار ہے اور ہر طرح کی بد نظمی اور پریشانیوں سے دور رہی ہے۔اس تحریک کے مقدس بانی نے اسے تحریک میں شمولیت کی بنیادی شرط کے طور پر مقرر کیا ہے کہ ہر رکن قانونی طور سے قائم حکومت کی مکمل اطاعت کرے اور بغاوت کی طرف لے جانے والے تمام راستوں سے پرہیز کرے۔اس حکم کی تعمیل میں جماعت احمدیہ کے پیروکاروں نے ہمیشہ اپنے آپ کو احتجاج کی ہر طرح کی اقسام سے علیحدہ رکھا ہے اور دوسرے لوگوں کی ایک کثیر تعداد پر بھی اپنا اثر و نفوذ ڈالا ہے”۔ (مرزا محمود احمد۔”تحفہ شہزادہ ویلز شہنشاہ معظم۔ویلز کے شہزادے کی خدمت میں تحفہ۔منجانب احمدیہ جماعت نشر و اشاعت۔صدر انجمن احمدیہ۔قادیان۔راج ہنس پریس۔دلی۔جنوری ١٩٢٢ء صفحہ نمبر ٥)۔
شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار
ہندوستان میں برطانوی راج کو مرزا صاحب خدا کی ایک نعمت عظیمہ خیال کر تے تھے۔آپ نے اپنے پیروکاروں کو پر زور تاکید کی کہ وہ ان کے ساتھ بھر پور تعاون کریں کیوں کہ اسی میں ان کی نجات اور خدا کی رضامندی ہے۔ یہ صرف برطانوی سامراجیوں کا استحقاق تھا کہ وہ توپوں کے گولے چلائیں یا اسلحہ لہرائیں۔اس کے برعکس بیکار مذہبی مباحث میں زبان چلانا اور قلم گھسیٹنامسلمانان عالم کی ذمہ داری تھی۔مرزا صاحب کہتے ہیں ” چونکہ میری زندگی کا زیادہ تر حصہ برطانوی حکومت کی وفاداری کے پرچار میں گزرا ہے۔جہاد کی مذمت اور برطانوی حکومت کی وفاداری کے پرچار پر میں نے اتنی کتابیں لکھیں ہیں کہ اگر ان کو اکٹھا کر دیا جائے تو پچاس الماریاں بھر جائیں ”۔
Mirza Ghulam Ahmad,Taryaq-ul-Quloob,,1899,P.1
ایک اور کتاب میں آپ سوال پوچھتے ہیں :
”پھر میں پوچھتا ہوں کہ جو کچھ میں نے سرکار انگریزی کی امداد حفظ و امان اور جہادی خیالات کے روکنے کے لیے برابر سترہ سالوں (١٨٨٥ تا ١٨٩٧ ) تک پورے جوش سے پوری استقامت سے کام کیا۔کیا اس کام کی اور اس خدمت نمایاں کی اور اس مدت دراز کی دوسرے مسلمانوں میں جو میرے مخالف ہیں کوئی نظیر ہے ؟کوئی ‘نہیں ‘۔
Mirza Ghulam Ahmad,Sitara Qaaisarya,Qadian,1899,P.3Qadian
ہمیں مرزا غلام احمد کی انگریز کی حمایت میں لکھی گئی تحریروں پر کوئی اعتراض نہیں ، نہ ہو گا اگر وہ ذاتی نوعیت کی ہوتیں۔آخر اور کئی لوگ انگریز سے کھلی وفاداری کا اظہار کر رہے تھے،مگر آپ اپنے ہر اس فقرے کو جو آپ کے ہونٹوں سے نکلتا ہے ”وحی و الہام” کہتے ہیں۔ ہمیں خدا کی وحی کی رو سے انگریز کی سامراجی ظالمانہ حکومت کی آنکھ بند کر کے اطاعت پر سخت اعتراض ہے۔
Phoenix, His Holiness,P.63
قادیانیوں کا جماعتی آرگن ”ریویو آف ر یلیجنز قاد یان ”بڑے واضح انداز سے مرزا صاحب کی ان خدمات کا تذکرہ کرتا ہے جو آپ نے برطانوی نو آبادیاتی نظام کے استحکام کے لیے سرانجام دیں۔جریدہ لکھتا ہے :
”جماعت احمدیہ کے بانی کی تحریروں کو عظیم سفارت کاروں اور حکومت میں موجود دانشوروں نے بہت سراہا ہے”۔
سرفریڈرک کنگھم نے جو پشاور ضلع کا مہتمم اور سپرنٹنڈنٹ تھا،نے ١٩٠٠ میں مرزا صاحب کو لکھا :
”جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں یہ اسلام کے نظریے کی ایک منصفانہ اور روشن خیال تعبیر ہے جس میں آپ کے علم اور قوت فیصلہ کا برابر حصہ ہے۔مجھے کوئی شک نہیں کہ آپ جیسے شہرت یافتہ معلم کے بیان کا ہر اچھا محمڈن (مسلمان) خیر مقدم کرے گا۔اپنے عقیدے کے محافظ کے طور اور اس ثبوت کے باعث کہ اسلام ایسے جرائم پر پردہ نہیں ڈالتا جو عیار یا جاہل لوگ مذہب کے لبادے میں کرتے ہیں۔ مجھے بڑی خوشی ہو گی اگر آپ کے رسالے اور مفتوی کی صوبہ سرحدمیں وسیع پیمانے پر تشہیر کی جائے۔
Review of Religions, Qadian,Vol.VI.190
اسی طرح امریکہ یوینورسٹی بیروٹ کے پروفیسر ٹوائے نے اسلامی خطرہ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا جس میں اس نے عام مسلمانوں کے خیالات پر ان اثرات کی تعریف کی گئی جو جماعت احمدیہ نے مرتب کیے ہیں۔
Review of Religions,Qadian,Vol.V.May1906,P.193.MirQasimAli,Tabligh-i-Risalat,Vol.VI,P.13
موضوعات
- ۔مسائل ختم نبوت (4)
- آیات ختم نبوت (4)
- آیات نزول عیسی علیہ السلام (9)
- احادیث ضعیفہ (6)
- حادیثِ امام مہدی و مجدد (5)
- ختم نبوت فورم متفرقات (12)
- سیرت رسول عربی اور مرزا قادیانی (9)
- قادیانی خرافات پرتحقیقی مقالات (14)
- قادیانیت (23)
- متفرقات (26)
- مناظرے (5)
آمدو رفت
بلاگر حلقہ احباب
بلاگ کا کھوجی
مجاہد ختم نبوت غلام نبی نوری. Powered by Blogger.
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔