جوبلی تقریبات
مرزا غلام احمد برطانوی نو آباد کاروں کے ساتھ وفاداری کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔آپ نے ٢٠ جون ١٨٩٧ء کو قادیان میں اپنی مربیہ اور کفیلہ اعظم ملکہ وکٹوریہ کی پچھترویں جوبلی کے لیے ایک خاص تقریب کا اہتمام کیا۔قادیانی زعماء نے چھ زبانوں میں تقریریں کیں اور راج کی برکات پر روشنی ڈالی۔ملکہ کی درازی عمر اور ہندوستان میں اس کے شاندار راج کی خوشحالی اور استقلال کی دعائیں مانگی گئیں ، قصبے کے غریب لوگوں میں کھانا تقسیم کیا گیا۔جبکہ تمام گھروں ، گلیوں اور مسجدوں میں چراغاں کیا گیا۔بیس جون کو وائسرائے ہند لارڈ ایلکن کو مبارکباد کا تار بھجوایا گیا۔اس مبارک موقع کی مناسبت سے ڈپٹی کمشنر کے ذریعہ ملکہ وکٹوریہ کو کتاب ”تحفہ قیصریہ” کا ایک خوبصورت مجلد نسخہ بھجوایا گیا۔
ملکہ عالیہ کو ارسال کردہ تحفے میں آپ نے بڑے ہی عا جزانہ طریقے سے ایک مختصر حاشیے میں اپنے گھرانے کی ان سیاسی خدمات کا تذکرہ کیا جو ١٨٥٧ء اور اس کے بعد کے دور سے لے کر اس وقت تک جب آپ نے سلطنت کی خاطر اپنے عظیم کام کا بیڑہ اُٹھایا تھا،سر انجام دی تھیں۔ آپ نے اپنی خدمات گنوائیں اور اپنے آپ کو برطانوی سلطنت کے حد درجہ خیر خواہ اور ذلیل خوشامدی کے طور پر پیش کیا۔انہوں نے بڑی شدت سے ملکہ کی طرف سے جواب کا انتظار کیا اور جب ملکہ نے یہ تحفہ قبول کر لیا تو آپ کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانا نہ رہا اور ملکہ کے اس احسان عظیم پر آپ نے اس کا بے تحاشہ شکریہ ادا کیا۔
ملکہ معظمہ کے دربار عالی سے اپنے تحفے اور خدمات کی پسند کے چند جملوں کے لیے آپ کتنے بے چین تھے۔اس کا اندازہ آپ کی اس وحی سے لگایا جا سکتا ہے جو چار اکتوبر ١٨٩٩کو اُتری۔”مجھ پریہ وحی کی گئی کہ ملکہ وکٹوریہ کی طرف سے شکریہ ” (”تذکرہ صفحہ نمبر ٣٤١” ایک کشف میں آپ نے دیکھا کہ ملکہ آپ کے گھر قادیان آئی ہے”تذکرہ صفحہ نمبر ٣٢٧”)
ملکہ وکٹوریہ کی ٧٥ویں جوبلی کا دن ہندوستان میں برطانوی نو آباد کاروں کے خلاف نفرت کی ایک لہر لے کر آیا۔اسی دن شام کو دو یورپیوں کو مسٹر رانڈ جو کہ ہندوستانی افسر شاہی سے تعلق رکھتا تھا اور لیفٹیننٹ ائیر سٹ،کو ایک سرکاری استقبالیہ سے واپس آتے ہوئے راستے میں ایک ہندو برہمن نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔یہ ایک سیاسی نوعیت کا قتل تھا اور ہندوستان میں برطانوی راج کے خلاف غم و غصہ کا حد درجہ اظہار۔
٢٢ جنوری ١٩٠١ کو ملکہ وکٹوریہ نے یہ وفات پائی۔مرزا غلام احمد اپنی مربیہ ملکہ عالیہ معظمہ کی وفات پر بڑے رنجیدہ ہوئے۔ آپ نے برطانوی حکومت کو مندرجہ ذیل برقی تار ارسال کیا :
”میں اور میرے پیروکار اس گہرے غم کا اظہار کرتے ہیں جو ملکہ معظمہ قیصرہ ہند کی وفات کے باعث بہت بڑے نقصان کی شکل میں برطانوی سلطنت کو پہنچا ہے ”۔انڈیاآفس لائبریری لندن میں یہ خط موجود ہے۔
(دیکھیں ”حکومت ہند محکمہ داخلہ کی جانب سے لارڈ جارج فرانسس ہیملٹن۔معتمد برائے داخلہ برائے ہندوستان۔نمبر ٢٤۔بتاریخ ٢٤۔٣۔١٩٠١ مرزا غلام احمد رئیس قادیان کی پٹیالہ سے برقی تار۔بتاریخ ٢٤ جنوری ١٩٠١)۔
مرزا غلام احمد برطانوی نو آباد کاروں کے ساتھ وفاداری کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔آپ نے ٢٠ جون ١٨٩٧ء کو قادیان میں اپنی مربیہ اور کفیلہ اعظم ملکہ وکٹوریہ کی پچھترویں جوبلی کے لیے ایک خاص تقریب کا اہتمام کیا۔قادیانی زعماء نے چھ زبانوں میں تقریریں کیں اور راج کی برکات پر روشنی ڈالی۔ملکہ کی درازی عمر اور ہندوستان میں اس کے شاندار راج کی خوشحالی اور استقلال کی دعائیں مانگی گئیں ، قصبے کے غریب لوگوں میں کھانا تقسیم کیا گیا۔جبکہ تمام گھروں ، گلیوں اور مسجدوں میں چراغاں کیا گیا۔بیس جون کو وائسرائے ہند لارڈ ایلکن کو مبارکباد کا تار بھجوایا گیا۔اس مبارک موقع کی مناسبت سے ڈپٹی کمشنر کے ذریعہ ملکہ وکٹوریہ کو کتاب ”تحفہ قیصریہ” کا ایک خوبصورت مجلد نسخہ بھجوایا گیا۔
ملکہ عالیہ کو ارسال کردہ تحفے میں آپ نے بڑے ہی عا جزانہ طریقے سے ایک مختصر حاشیے میں اپنے گھرانے کی ان سیاسی خدمات کا تذکرہ کیا جو ١٨٥٧ء اور اس کے بعد کے دور سے لے کر اس وقت تک جب آپ نے سلطنت کی خاطر اپنے عظیم کام کا بیڑہ اُٹھایا تھا،سر انجام دی تھیں۔ آپ نے اپنی خدمات گنوائیں اور اپنے آپ کو برطانوی سلطنت کے حد درجہ خیر خواہ اور ذلیل خوشامدی کے طور پر پیش کیا۔انہوں نے بڑی شدت سے ملکہ کی طرف سے جواب کا انتظار کیا اور جب ملکہ نے یہ تحفہ قبول کر لیا تو آپ کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانا نہ رہا اور ملکہ کے اس احسان عظیم پر آپ نے اس کا بے تحاشہ شکریہ ادا کیا۔
ملکہ معظمہ کے دربار عالی سے اپنے تحفے اور خدمات کی پسند کے چند جملوں کے لیے آپ کتنے بے چین تھے۔اس کا اندازہ آپ کی اس وحی سے لگایا جا سکتا ہے جو چار اکتوبر ١٨٩٩کو اُتری۔”مجھ پریہ وحی کی گئی کہ ملکہ وکٹوریہ کی طرف سے شکریہ ” (”تذکرہ صفحہ نمبر ٣٤١” ایک کشف میں آپ نے دیکھا کہ ملکہ آپ کے گھر قادیان آئی ہے”تذکرہ صفحہ نمبر ٣٢٧”)
ملکہ وکٹوریہ کی ٧٥ویں جوبلی کا دن ہندوستان میں برطانوی نو آباد کاروں کے خلاف نفرت کی ایک لہر لے کر آیا۔اسی دن شام کو دو یورپیوں کو مسٹر رانڈ جو کہ ہندوستانی افسر شاہی سے تعلق رکھتا تھا اور لیفٹیننٹ ائیر سٹ،کو ایک سرکاری استقبالیہ سے واپس آتے ہوئے راستے میں ایک ہندو برہمن نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔یہ ایک سیاسی نوعیت کا قتل تھا اور ہندوستان میں برطانوی راج کے خلاف غم و غصہ کا حد درجہ اظہار۔
٢٢ جنوری ١٩٠١ کو ملکہ وکٹوریہ نے یہ وفات پائی۔مرزا غلام احمد اپنی مربیہ ملکہ عالیہ معظمہ کی وفات پر بڑے رنجیدہ ہوئے۔ آپ نے برطانوی حکومت کو مندرجہ ذیل برقی تار ارسال کیا :
”میں اور میرے پیروکار اس گہرے غم کا اظہار کرتے ہیں جو ملکہ معظمہ قیصرہ ہند کی وفات کے باعث بہت بڑے نقصان کی شکل میں برطانوی سلطنت کو پہنچا ہے ”۔انڈیاآفس لائبریری لندن میں یہ خط موجود ہے۔
(دیکھیں ”حکومت ہند محکمہ داخلہ کی جانب سے لارڈ جارج فرانسس ہیملٹن۔معتمد برائے داخلہ برائے ہندوستان۔نمبر ٢٤۔بتاریخ ٢٤۔٣۔١٩٠١ مرزا غلام احمد رئیس قادیان کی پٹیالہ سے برقی تار۔بتاریخ ٢٤ جنوری ١٩٠١)۔
جاسوس نبی
مرزا صاحب کی اپنی تحریریں پڑھ کر بعض اوقات کراہت سی محسوس ہوتی ہے،جن میں وہ برطانوی سامراج کی قصیدہ گوئی کرتے ہیں اور بلا شبہہ اپنے آپ کو ایک کاسہ لیس اور خوشامدی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ جب کبھی وہ برطانوی راج کے متعلق بات کرتے ہیں مرزا غلام احمد نے اپنی تحریروں کے ٢٤ صفحات (١٨٨٢تا ١٨٩٤) کا حوالہ دیا ہے جن میں آپ نے برطانوی سامراج کی تعریفیں کی ہیں۔( ٢٤ فروری ١٨٩٨ کو لیفٹیننٹ گورنر پنجاب سرولیم میکورتھ ینگ کے نام میموریل اس کے بعد کی دہائی میں آپ نے اپنی سیاسی خدمات کا زبردست ڈھنڈورا پیٹا اور اپنے آقاؤں سے وفاداری اور عالم اسلام کی مذمت میں بہت کچھ لکھا اور انہیں وحی کی تائید عطا کی۔)آپ اپنے آپ کو ان حدوں تک لے گئے کہ ایک برطانوی جاسوس کے طور پر خدمات سرانجام دینے پر تیار تھے۔برطانوی حکومت کو اپنی سیاسی خدمات پیش کرتے وقت آپ ہندوستان کے ان علما ء کے نام معلوم کرنے پر اُتر آئے جو برطانوی ہند کو دار الحرب قرار دیتے تھے یا جہاد کو ایک ناگزیر ضرورت سمجھتے تھے۔وہ اسلامی شریعت کی رو سے دار الحرب میں نماز جمعہ کی بجائے نماز ظہر ادا کرنے کے حامی تھے۔ برطانیہ کے ان دشمنوں کو بے نقاب کرنے کے لیے مرزا صاحب نے یکم جنوری ١٨٩٨ ء کو وائسرائے کو ایک میموریل روانہ کیا جس میں یہ تجویز پیش کی گئی تھی کہ جمعہ کو چھٹی کا دن قرار دیا جائے اور اس تجویز کی تائید کے لیے تمام سرکردہ مسلمان علماء کے پاس بھجوایا جائے۔اس کے حاشیے میں آپ نے یہ واضح کر دیا کہ جو اس کی توثیق نہیں کرے گا وہ اپنے آ پ کو حکومت کا مخالف اور انگریز کا دشمن ثابت کرے گا۔
Mir Qasim Ali Qadian ,Tabligh-e-Risalat ,vol v,Qadian,1922 p.
جاسوس پیغمبر نے گورنر جنرل ہند کو ایک درخواست بھیجی جس میں یہ پیش کش کی کہ وہ ”خدا کی طرف سے بھیجی گئی برطانوی حکومت ”کے بد خواہوں کو بے نقاب کرے گا اور بڑے خلوص سے التجاء کی کہ علماء کی طرف سے خطبہ جمعہ میں برطانوی راج کی برکات کا تذکرہ کیا جائے۔یہ بھی خواہش کی گئی کہ اگر گورنمنٹ چاہے تو وہ قادیانی خفیہ ذرائع سے تیار کی گئی برطانیہ مخالف بیوقوف علمائے ہند کی فہرست بھی حکومت کو پیش کر سکتے ہیں۔ دانا حکومت اسے ایک حکومتی راز کے طور پر سنبھال کر رکھے تاکہ اس پر مستقبل میں عمل درآمد کیا جا سکے۔آپ نے نمونہ تحریر کا ایک خاکہ اس کے ساتھ منسلک کیا جس میں نام، جگہ اور کیفیت وغیرہ کے خانے بنے ہوئے تھے تاکہ برطانیہ مخالف علماء ہند کے ناموں کا اندراج کیا جا سکے۔
Tabligh-e-Risalat , vol. v,p.11
اس جاسوسی کے علاوہ آپ نے بڑے شاطرانہ انداز میں علماء کو غیر ضروری مذہبی مباحث میں الجھائے رکھا۔آپ نے ان کے خلاف بڑی غلیظ اور اشتعال انگیز زبان استعمال کی اور ان کی کردار کشی کرتے رہے۔ان جہادی علماء کے خلاف جو ہندوستان میں برطانوی سامراجیت کے خلاف بر سر پیکار تھے۔ان کے خلاف جنگ چھڑنے کے بعد آپ نے ہند و اور عیسائی مذاہب کے ساتھ مباحثے شروع کر دئیے تاکہ برطانوی حکمت عملی ”لڑاؤ اور حکومت کرو ” کی محافظت میں فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی کو ہوا دی جا سکے۔ہر مذہب کے لوگوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ وہ اپنے تحفظ اور بقاء اور اپنے نظریات کی تشہیر کے لیے حکومت کا مکمل ساتھ دے۔ علماء کو مذہبی مباحث میں عیاری کے ساتھ الجھانے کے بعد آپ ان کے حملہ کا نشانہ برطانوی سامراجیت سے ہٹا کر ارتدادِ احمدیت پر منتقل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔آپ نے اپنے مخالفین کے لیے موت اور ذلت کی پیش گوئیاں کیں اور جب آپ کی پیش گوئیاں غلط ثابت ہو گئیں تو وہ اپنے بیانات کی تشریح میں احمقانہ انداز میں دور کی کوڑیاں لائے۔آپ کو ہمیشہ شرمندگی اُٹھانی پڑی۔ آپ کے کردار کی ایک اہم بات آپ کی ہر پیش گوئی کی تکمیل کے لیے بے شرمی پر مبنی اصرار تھا۔انصاف کے کسی بھی معیار پر یہ آسانی سے کہا جا سکتا ہے کہ منجم آپ سے بہتر پیش گوئیاں کر سکتے ہیں کیونکہ ان کے اکثر قیاسیات صحیح ثابت ہوئے ہیں۔مرزا صاحب کی نبوت کا سب سے بڑا مواد آپ کی پیش گوئیاں ہیں جو زیادہ تر آپ کے معاشی مفاد یعنی منی آڈروں کی وصولی، چندوں اور تحائف کا حصول اور آپ کے دشمنوں کی ذلت اور موت اور مقدمے بازی میں آپ کی کامیابی پر منتج ہوتی تھیں۔
Mirza Ghulam Ahmad , Haqiqat-ul- wahi,Qadian ,1907
دلچسپ پیش گوئیوں میں ایک آپ کی محمدی بیگم سے شادی کی شدید تمنا ہے جو کہ آپ کے قریبی رشتے داروں میں ایک پرکشش اور خوب صورت لڑکی تھی یہ پیش گو ئی کی کہ وہ بہر حال آپ کی دلہن بنے گی، مگر ایسا نہ ہو سکا۔آپ نے اپنی پیش گوئیوں میں اسے آسمانی دلہن قرار دیا۔خوف،تحریص اور دباؤ کے ہر حربے کے باوجود اس لڑکی کے والد نے مرزا صاحب کی خواہشات کے آگے سر تسلیم خم نہ کیا۔ اس فسانہ رسوائی نے ہندو اور عیسائی مخالفین کو ہمارے نبی اکرمﷺ کی حیات طیبہ پر بڑی ہوشیاری سے کیچڑ اچھالنے کا موقع فراہم کر دیا۔ کیونکہ مرزا صاحب بھی اپنے آپ کو اسلام کا علمبردار اور ہمارے حضور ؐ کے ظلی نبی ہونے کا دعویدار تھا۔ مرزا صاحب کی زندگی کے دوران میں ہی محمدی بیگم کی شادی مرزا سلطان محمود سے ہو گئی اور نہ تو مرزا سلطان محمود نے مرزا صاحب کے الہامات کے مطابق وفات پائی اور نہ ہی محمدی بیگم بیوہ ہو کر آپ کے نکاح میں آئی۔
مرزا صاحب کی اپنی تحریریں پڑھ کر بعض اوقات کراہت سی محسوس ہوتی ہے،جن میں وہ برطانوی سامراج کی قصیدہ گوئی کرتے ہیں اور بلا شبہہ اپنے آپ کو ایک کاسہ لیس اور خوشامدی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ جب کبھی وہ برطانوی راج کے متعلق بات کرتے ہیں مرزا غلام احمد نے اپنی تحریروں کے ٢٤ صفحات (١٨٨٢تا ١٨٩٤) کا حوالہ دیا ہے جن میں آپ نے برطانوی سامراج کی تعریفیں کی ہیں۔( ٢٤ فروری ١٨٩٨ کو لیفٹیننٹ گورنر پنجاب سرولیم میکورتھ ینگ کے نام میموریل اس کے بعد کی دہائی میں آپ نے اپنی سیاسی خدمات کا زبردست ڈھنڈورا پیٹا اور اپنے آقاؤں سے وفاداری اور عالم اسلام کی مذمت میں بہت کچھ لکھا اور انہیں وحی کی تائید عطا کی۔)آپ اپنے آپ کو ان حدوں تک لے گئے کہ ایک برطانوی جاسوس کے طور پر خدمات سرانجام دینے پر تیار تھے۔برطانوی حکومت کو اپنی سیاسی خدمات پیش کرتے وقت آپ ہندوستان کے ان علما ء کے نام معلوم کرنے پر اُتر آئے جو برطانوی ہند کو دار الحرب قرار دیتے تھے یا جہاد کو ایک ناگزیر ضرورت سمجھتے تھے۔وہ اسلامی شریعت کی رو سے دار الحرب میں نماز جمعہ کی بجائے نماز ظہر ادا کرنے کے حامی تھے۔ برطانیہ کے ان دشمنوں کو بے نقاب کرنے کے لیے مرزا صاحب نے یکم جنوری ١٨٩٨ ء کو وائسرائے کو ایک میموریل روانہ کیا جس میں یہ تجویز پیش کی گئی تھی کہ جمعہ کو چھٹی کا دن قرار دیا جائے اور اس تجویز کی تائید کے لیے تمام سرکردہ مسلمان علماء کے پاس بھجوایا جائے۔اس کے حاشیے میں آپ نے یہ واضح کر دیا کہ جو اس کی توثیق نہیں کرے گا وہ اپنے آ پ کو حکومت کا مخالف اور انگریز کا دشمن ثابت کرے گا۔
Mir Qasim Ali Qadian ,Tabligh-e-Risalat ,vol v,Qadian,1922 p.
جاسوس پیغمبر نے گورنر جنرل ہند کو ایک درخواست بھیجی جس میں یہ پیش کش کی کہ وہ ”خدا کی طرف سے بھیجی گئی برطانوی حکومت ”کے بد خواہوں کو بے نقاب کرے گا اور بڑے خلوص سے التجاء کی کہ علماء کی طرف سے خطبہ جمعہ میں برطانوی راج کی برکات کا تذکرہ کیا جائے۔یہ بھی خواہش کی گئی کہ اگر گورنمنٹ چاہے تو وہ قادیانی خفیہ ذرائع سے تیار کی گئی برطانیہ مخالف بیوقوف علمائے ہند کی فہرست بھی حکومت کو پیش کر سکتے ہیں۔ دانا حکومت اسے ایک حکومتی راز کے طور پر سنبھال کر رکھے تاکہ اس پر مستقبل میں عمل درآمد کیا جا سکے۔آپ نے نمونہ تحریر کا ایک خاکہ اس کے ساتھ منسلک کیا جس میں نام، جگہ اور کیفیت وغیرہ کے خانے بنے ہوئے تھے تاکہ برطانیہ مخالف علماء ہند کے ناموں کا اندراج کیا جا سکے۔
Tabligh-e-Risalat , vol. v,p.11
اس جاسوسی کے علاوہ آپ نے بڑے شاطرانہ انداز میں علماء کو غیر ضروری مذہبی مباحث میں الجھائے رکھا۔آپ نے ان کے خلاف بڑی غلیظ اور اشتعال انگیز زبان استعمال کی اور ان کی کردار کشی کرتے رہے۔ان جہادی علماء کے خلاف جو ہندوستان میں برطانوی سامراجیت کے خلاف بر سر پیکار تھے۔ان کے خلاف جنگ چھڑنے کے بعد آپ نے ہند و اور عیسائی مذاہب کے ساتھ مباحثے شروع کر دئیے تاکہ برطانوی حکمت عملی ”لڑاؤ اور حکومت کرو ” کی محافظت میں فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی کو ہوا دی جا سکے۔ہر مذہب کے لوگوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ وہ اپنے تحفظ اور بقاء اور اپنے نظریات کی تشہیر کے لیے حکومت کا مکمل ساتھ دے۔ علماء کو مذہبی مباحث میں عیاری کے ساتھ الجھانے کے بعد آپ ان کے حملہ کا نشانہ برطانوی سامراجیت سے ہٹا کر ارتدادِ احمدیت پر منتقل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔آپ نے اپنے مخالفین کے لیے موت اور ذلت کی پیش گوئیاں کیں اور جب آپ کی پیش گوئیاں غلط ثابت ہو گئیں تو وہ اپنے بیانات کی تشریح میں احمقانہ انداز میں دور کی کوڑیاں لائے۔آپ کو ہمیشہ شرمندگی اُٹھانی پڑی۔ آپ کے کردار کی ایک اہم بات آپ کی ہر پیش گوئی کی تکمیل کے لیے بے شرمی پر مبنی اصرار تھا۔انصاف کے کسی بھی معیار پر یہ آسانی سے کہا جا سکتا ہے کہ منجم آپ سے بہتر پیش گوئیاں کر سکتے ہیں کیونکہ ان کے اکثر قیاسیات صحیح ثابت ہوئے ہیں۔مرزا صاحب کی نبوت کا سب سے بڑا مواد آپ کی پیش گوئیاں ہیں جو زیادہ تر آپ کے معاشی مفاد یعنی منی آڈروں کی وصولی، چندوں اور تحائف کا حصول اور آپ کے دشمنوں کی ذلت اور موت اور مقدمے بازی میں آپ کی کامیابی پر منتج ہوتی تھیں۔
Mirza Ghulam Ahmad , Haqiqat-ul- wahi,Qadian ,1907
دلچسپ پیش گوئیوں میں ایک آپ کی محمدی بیگم سے شادی کی شدید تمنا ہے جو کہ آپ کے قریبی رشتے داروں میں ایک پرکشش اور خوب صورت لڑکی تھی یہ پیش گو ئی کی کہ وہ بہر حال آپ کی دلہن بنے گی، مگر ایسا نہ ہو سکا۔آپ نے اپنی پیش گوئیوں میں اسے آسمانی دلہن قرار دیا۔خوف،تحریص اور دباؤ کے ہر حربے کے باوجود اس لڑکی کے والد نے مرزا صاحب کی خواہشات کے آگے سر تسلیم خم نہ کیا۔ اس فسانہ رسوائی نے ہندو اور عیسائی مخالفین کو ہمارے نبی اکرمﷺ کی حیات طیبہ پر بڑی ہوشیاری سے کیچڑ اچھالنے کا موقع فراہم کر دیا۔ کیونکہ مرزا صاحب بھی اپنے آپ کو اسلام کا علمبردار اور ہمارے حضور ؐ کے ظلی نبی ہونے کا دعویدار تھا۔ مرزا صاحب کی زندگی کے دوران میں ہی محمدی بیگم کی شادی مرزا سلطان محمود سے ہو گئی اور نہ تو مرزا سلطان محمود نے مرزا صاحب کے الہامات کے مطابق وفات پائی اور نہ ہی محمدی بیگم بیوہ ہو کر آپ کے نکاح میں آئی۔
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔