Tuesday, 1 September 2015

qadiyaniyat par 9th class.قادیانیت پر نویں کلاس

0 comments
از غلام نبی نوری
سرکارکی خفیہ سرپرستی
مذہبی اختلافات کو پروان چڑھانا سامراجی حکمت عملی کا ایک حصہ تھا جس نے ہندوستانی معاشرے کو درجنوں چھوٹے چھوٹے متحارب گر و ہوں میں تقسیم کر دیا۔مختلف مذہبی تنظیموں کے درمیان اختلافات کو بڑھانے کے لیے برطانوی انٹیلے جنس نے اشتعال انگیز اور بد زبانی سے لبریز مواد اپنے آلہ کاروں کے ذریعے پھیلانا شروع کر دیا۔ مذہبی مہم جوؤں نے اپنے مخالفین پر حملوں کے لیے پریس کو بڑی آزادی سے استعمال کی تاکہ انہیں بے فائدہ مذہبی تنازعات میں مشغول رکھا جا سکے۔١٨٨٦ حکومت نے ہندوستان میں آٹھ ہزار نو سو تریسٹھ رسالوں کو مندرج کیا جن میں سے ایک ہزار چارسو پچاسی اردو میں ،ایک ہزار تین سو باون بنگالی میں ہندی میں آٹھ سو تینتالیس ہندی میں ، چھ سو نو اسی انگریزی میں اور بقیہ دیگر زبانوں میں تھے۔ ان میں سے زیادہ تر مذہبی تنازعات سے بھرے ہوتے تھے۔نیو یارک میں منعقدہ تبلیغی مجلس لندن کی اطلاع۔١٨٨٦۔صفحہ نمبر ٣١٩)
مرزا غلام احمد نے ایک مخصوص انداز میں ہندو اورعیسائی مذہبی رہنماؤں کے خلاف مذہبی تنازعات شروع کئے۔ آپ نے ان کو مباہلوں کے لیے للکارا۔ان کی مذمت میں الہام اور وحی پیش کی اور ان کے خلاف ذلیل زبان استعما ل کر کے انہیں اشتعال دلایا کہ وہ جوابی کارروائی کریں آپ کی اس ذلیل جنگ کا نتیجہ اسلام کے خلاف بہت سی توہین آمیز تحریروں کی صورت میں نکلا۔ (مولانا مظہر علی اظہر۔”ستیارتھ پرکاش اور غلام احمد ”۔لاہور ) حکومت پنجاب نے صوبے میں موجود مختلف گروہوں اور فرقوں کے درمیان ان تنازعات کا قریبی جائزہ لیا۔اعلی برطانوی حکام کو مذہبی لڑائی بھڑکانے میں مرزا غلام احمد کی سرگرمیوں کی خصوصی رپورٹ دی گئی۔١٨٩٣ء میں امرتسر کے ایک میڈیکل مشنری ہنری مارٹن کلارک کے ساتھ آپ نے ایک مذہبی مباحثہ کیا جس کے نتیجے میں امرتسر میں مرزا غلام احمد اور عبداللہ آتھم کے درمیان بحث چھڑ گئی جو کہ مسلمان سے عیسائی ہواتھا اور سیالکوٹ میں ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر تھا۔حکومت پنجاب کے محکمہ داخلہ کی روداد میں ایسے مباحث کا ایک سلسلہ دیا گیا ہے جو مسلمانوں اورعیسائیوں کے درمیان مختلف عنوانات کے تحت ہوئے تھے عیسائیوں کی طرف سے ہنری مارٹن اور عبداللہ آتھم جبکہ مسلمانوں کی نام نہاد نمائندگی کے لیے مرزا غلام احمد قادیانی پیش ہوتے تھے۔یہ مباحثہ کسی بھی فریق کی کامیابی کے بغیر چودہ دن جاری رہنے کے بعد ختم ہو گیا۔مرزا صاحب نے فریق مخالف یعنی پادری آتھم کی پندرہ ماہ کے اندر اندر موت کی پیش گوئی کی۔یہ آپ کو خواب میں خدا کی طرف سے وحٰ کی صورت میں بتایا گیا تھا آپ نے تسلیم کیا کہ آتھم کی موت نہ ہونے کی صورت میں آپ کے بیشک بے عزت کیا جائے اور جھوٹی بات پر اڑے رہنے پر پھانسی دے دی جائے۔ (حکومت پنجاب۔روداد محکمہ داخلہ۔جنوری تا جولائی ١٨٩٤ منجانب جے۔جے سائم ناظم ہدایات عامہ پنجاب۔بجانب چیف سیکرٹری حکومت پنجاب۔نمبر ٤٥٧ بتاریخ ١٨٩٤۔٢۔٢٢ انڈیا آفس لائبریری۔لندن )
٤ستمبر ١٨٩٧ ء کو پندرہ ماہ کی میعاد ختم ہو گئی اور آتھم نہ مرا۔عیسائی پادریوں نے احمدیوں کا مذاق اُڑایا اور قادیانی شاطر کی مذمت کی۔ مرزا صاحب بے حیائی سے اپنی اس پیش گوئی کی تکمیل پر اڑے رہے۔آپ کا کہنا تھا کہ آتھم نے دراصل سچائی کی طرف رجوع کر کے خود کر بچا لیا۔سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور نے ”ایک خطرناک جنونی ” کے عنوان سے لکھا :
” پنجاب میں ایک مشہور جنونی ہے جس کا ہمیں پتا چلا ہے کہ گورداسپور میں ہے اور اپنے آپ کومسلمان اورمسیح موعود کہتا ہے۔امرتسر میں ایک مقامی عیسائی شریف آدمی کے بارے میں موت کی پیش گوئیوں نے چند ماہ تک شہر میں ہیجان برپا کئے رکھا لیکن بد قسمتی سے اس کے الہامی دعوے بری طرح سے اسی کو واپس مل گئے اور مرنے والا ابھی زندہ ہے۔ اس طرح کا جنونی شخص لازمی طور پر پولیس کی نگرانی میں ہے۔جہاں کہیں بھی وہ باہر پرچار کرنے کے لیے جاتا ہے تو امن کو شدید خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اس کے کافی پیروکار ہیں جو جنون میں اس سے تھوڑے سے کم تر ہیں۔یقیناً ایسے آدمی کے بے سود الہامات و تخیلات سے کسی سیاسی خطرے کا اندیشہ نہیں ہو سکتا، لیکن اس کے پاگل پن میں ایک طریق کار ہے۔بلا شبہہ اس میں تعلیمی قابلیت ہے اور اس کی تحریریں ضخیم جلدوں میں ہیں۔یہ تمام باتیں ایک خطرہ کی نشاندہی کرتی ہیں۔یہ درست ہے کہ راسخ العقیدہ لوگوں میں وہ ایک ملعون شخص ہے جس کی شہرت مدراس جیسی دور دراز جگہ پر بھی پہنچ گئی ہے ”۔ (سول اینڈ ملٹی گزٹ۔٢٤ اکتوبر ١٨٩٤)
آتھم کی طرح مرزا صاحب نے ایک ریٹائر ڈ پولیس ملازم پنڈت لیکھ رام پشاوری آریہ سماجی کے ساتھ مباحثہ شروع کیا۔ آپ نے پیش گوئی کی کہ لیکھ رام فروری ١٨٩٨ تک مر جائے گا اس کو بنی اسرائیل کے ایک بچھڑے کے طور پر پیش کیا گیا۔چھ مارچ ١٨٩٧ کو لاہور میں لیکھ رام پر اسرار طور پر قتل ہو گیا۔جس سے پنجاب میں وسیع پیمانے پر فرقہ وارانہ تناؤ پیدا ہو گیا۔اس صورت حال کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے مرزا صاحب نے اپنے دعوے پر مزید زور دیا۔ ایک آریہ سماج رہنما لالہ لاجپت رائے اس واقع کے سلسلے میں بیان کرتا ہے :
”آریہ سماج کی تاریخ میں مارچ ١٨٩٧ء میں لیکھ رام کا قتل ایک یادگار واقعہ ہے۔وہ ایک پر لگن آریہ سماجی اورسوامی دیانند کا مخلص پیروکار تھا۔ پریتی ندھی سبھانے اسے گزر اوقات کے لیے کچھ رقم دے رکھی تھی۔وہ شائستہ نہ تھا قتل کے بعد لاہور میں اس کی ارتھی جلائی گئی۔قاتل کی نشاندہی کے لیے ایک کمیٹی قائم کا کام لاجپت کے سپرد کیا گیا۔ پولیس اور سماج نے ملزم کو ڈھونڈنے کے لیے اپنے اپنے آلہ کاروں کی ذمہ داری لگائی،مگر مسلمانوں نے ان کے تمام منصوبے تلپٹ کر دئیے۔دو یا تین آدمی گرفتار ہوئے۔مگر عدم شناخت کی وجہ سے اُنہیں چھوڑ دیا گیا۔لوگ مکمل طور پر جانتے تھے کہ اس کے پیچھے ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ لاہور کے مسلمان قاتل کے ہمدرد تھے اور یہ قتل ایک بڑی سازش کا نتیجہ تھاجس میں لاہو ر کے مسلمان رئیس شامل تھے جنہوں نے قاتل کو پناہ دی اور بھاگ جانے میں مدد دی ”۔ (لاج پت رائے۔”خود نوشت تحریریں ”۔مدیر و جے چند ر جوشی۔دلی۔١٩٦٥۔صفحہ نمبر ٧٥)
The Civil & amp; Military Gazzette,24October 189
Lajpat Rai,Autobiographical Writings-edit by V. C. Joshi, Delhi, 1965,p.7
...............جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔