Tuesday 18 December 2018

عملیات مخفی مجربات نوری

0 comments

Wednesday 26 September 2018

لا مہدی الا عیسی والی روائت پر جواب

0 comments

                       لا مہدی الا عیسی والی روائت پر جواب

مرزائیوں قادیانیوں کی طرف سے پیش کی جانے والے روائت لامہدی الا عیسی کا مکمل جامع جواب 
از قلم فقیر مدینہ غلام نبی قادری نوری 

Sunday 24 September 2017

عقل ہوتی تو خدا سے نہ لڑائی لیتے

0 comments
عقل ہوتی تو خدا سے نہ لڑائی لیتے
مربی صاحب آپ کو پوسٹ میں یہ غلطی تو نظر آگئی کہ مرز ا جی نے حضور ﷺ کی قبر کو نہیں
بلکہ غار ثورا کو متعفن اور زلیل کہا ہے لیکن نہ جانے کیوں آپ یہ بات بھول رہے ہیں
کہ حضور ﷺ کے قدم مبارک جس جگہ پر پڑ جائیں وہ تاقیامت نشانی بن جاتی ہے
یہ وہ قدم ہیں جن کے بارے میں اللہ کا قرآن ارشاد فرماتا ہے
لا اقسم بھٰذا البلد o وانت حل بھٰذا لبلد ۔
آپ کا ماننا ہے کہ یہ گستاخی مرز ا جی نے حضور ﷺ کی قبر کے بارے
میں نہیں کی بلکہ غارثورکے بارے میں کی ہے تو جب حضور ﷺ نے
غار ثور میں قیام فرمایا تو کیا اُس کی فضیلت بلند نہ ہوئی؟ کیا وہ متعفق بدبودار
اور حشرات الارض کی نجاست کی جگہ رہ گئی؟؟؟؟
اللہ عزوجل آپ سمیت تمام مرزائی حضرات کو عقل سلیم عطا فرمائے

Tuesday 4 July 2017

مرزا قادیانی گستاخ تھا

0 comments

                                 مرزا قادیانی گستاخ تھا

 





















"اللہ کی شان میں گستاخی" "اللہ کی گستاخی اللہ چور" "اللہ کی گستاخی۔ اللہ گونگا" "امت مسلمہ کی گستاخی 2" "امت مسلمہ کی گستاخی" "تہزیبی رسول" "جو مرزا کو نہ مانے وہ کافر" "جو ہمیں نہیں مانتا وہ حرامدہ ہے" "حدیث کی توہین" "حضرت ابو ہریرا کی شان میں گستاخی" "حضرت عیسی کی شان میں گستاخی" "عیسی کی شان میں گستاخی" "قادیان میں رسول" "قرآن کی تو ہیں۔" "قرآن کی توہین" "محمد رسول اللہ ہونے کا دعویٰ" "محمد ہونے کا دعویٰ گستاخی" "مرزا قادیانی کے نہ ماننےوالے مشرک اور عیسائی" "میری ان کتابوں کو ہر مسلمان محبت کی نظر سے دیکھتا ہے اور اس کے معارف سے فائدہ اٹھاتا ہے اور میری دعوت کی تصدیق کرتا ہے اور اسے قبول کرتا ہے۔ مگر رنڈیوں (بدکارعورتوں) کی اولاد نے میری تصدیق نہیں کی۔‘‘" "نبی پاک کی شان میں گستاخی" "ہمارے دشمن بیابانوں کے خنزیر عورتیں کتیوں سے بڑھ گئیں" 

Monday 10 April 2017

مرزا غلام قادیانی کی سیرت و کردار

0 comments



















Sunday 12 February 2017

Qadiani Kafir Fatwa Imam E Azam Abu Hanifa R.A

0 comments
بسم اللہ الرحمن الرحیم ،
 آج کل اکثر گروپس میں مرزائی قادیانی اپنی خفیہ سازشوں کو پایا تکمیل تک پہنچانے کے لیے مسلمانوں کے بھیس میں چھپ کر سادہ فہم عوام کو مختلف اسلامی موضوعات پر بحث و مکالمات کرکے گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ، لیکن مجاہدین ختم نبوت ﷺ کی ٹیم بھی میدان میں آچکی ہے جو ایسی کالی بھیڑوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر بے نقاب کرتی ہے اور ان کے کفریہ عقائد کو عوام کے سامنے ایکسپوز کرتی ہے،
 گزشتہ رات میرا ایک گروپ میں ایک مرزائی کے ساتھ موضوع حیات و فات مسیح پر مناظرہ ہوا، اور ہر بار کی طرح مرزائی دم دبا کر بھاگ نکلا، احتتام مناظرہ پر ہمارے ہی کچھ مسلم احباب نے اپنے تبصرے شروع کر دیے جن میں سے اکثر دیکھنے میں آیا کہ کچھ لوگ امام اعظم ابو حنیفہ ؒ کا ایک فتویٰ پیش کر رہے تھے کہ امام اعظم نے فرمایا ہے کہ حضور ﷺ آخری نبی ہیں ، اب حضور ﷺ کے بعد کسی بھی مدعی نبوت سے دلیل طلب کرنا کفر ہے ، اس لیے مرزائیوں سے مناظرہ کرنے والا بھی کافر ہوجاتا ہے،
 یہ پُوسٹ انھی احباب کے لیے لگا رہا ہوں جن کے زہن میں یہ سوال ہوگا کہ مرزائی یا کسی بھی مدعی نبوت کے ماننے والوں سے ہم مناظرے مباحثے مکالمے کیوں کرتے ہیں،
 درحقیقت ہمارے اُن بھائیوں کو فتویٰ کی اصل نوعیت کی سمجھ نہیں ہوتی اس وجہ سے وہ مسلم مجاہدین ختم نبوت ﷺ و مناظرین ختم نبوت ﷺ پر طرح طرح کے کفرکے فتوے داغنے شروع کر دیتے ہیں،
 کسی بھی نبی کی نبوت کی دلیل معجزہ ہوتا ہے ، امام اعظم رحمتہ اللہ نے جو فتویٰ دیا ہے اُس کا مطلب یہ ہے کہ بعد از رسول کریم ﷺ کسی بھی مدعی نبوت سے اُس کے سچا ہونے پر معجزہ کی دلیل طلب کرنا کفر ہے ،کیونکہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کےآخری نبی ہیں ، اور اس بات پر ہر مسلمان کا ایمان کامل ہے، تو کسی بھی نئے مدعی نبوت سے اُس کی نبوت کی صداقت پر معجزہ بطور دلیل طلب کرنا عقیدہ ختم نبوت ﷺ کے منافی ہوگا ، اس لیے حضور ﷺ کے بعد کسی بھی مدعی نبوت سے دلیل طلب کرنا کفر ہے،
 رہی بات مرزائیوں قادیانیوں سے مناظرہ کرنے کی تو اس زمن میں یہ بات عرض کرتا چلوں کہ ہم ( تمام مجاہدین اکرام ) مرزائیوں قادیانیوں یا کسی بھی مدعی نبوت سے اُس کی نبوت کے سچا ہونے پر دلیل طلب نہیں کرتے بلکہ اُن کر عقائد کو قرآن و سنت کی روشنی میں گمراہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ قرآں و سنت کی روشنی میں اپنے عقیدے درست کر لیں۔ ہمارا مقصد اُن سے مکالمات کرکے اُن کی اصلاح کرنا ہوتا ہے ،
 کیونکہ مناظرہ میں دوفریقین اپنے زہن میں آئے دلائل کا تبادلہ خیال کرتے ہیں تو ان میں سے جو حق پر ہوتا ہے وہ باطل کی تردید کرتا ہے،
ہمارا مقصد دعوت دین ہے۔
 منجانب، غلام نبی نوری

بولے جانے والے چند کفریہ کلمات....

0 comments
بولے جانے والے چند کفریہ کلمات....
میں یہاں پر کچھ کفریہ کلمات اپنےدوستوں کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ جو عام طور پر ہمارے مسلمان بھائی بہن بول ڈالتے ہیں۔جن سے ان کا ایمان ضائع ہوجاتا ہے اور ان کو خبر بھی نہیں ہوتی۔ اسی لئے علماء کرام فرماتے ہیں کہ فرائض علوم کو ضرور سیکھئے ۔
1۔ جیسے کوئی مصیبت کے وقت کہے۔" اللہ نے پتہ نہیں مصیبتوں کے لئے ہمارا گھر ہی دیکھ لیا ہے"
2۔ یا موت کے وقت کوئی کہہ دے۔"پتہ نہیں اللہ کو اس شخص کی بڑی ضرورت تھی جو اس کو اپنے پاس اتنی کم عمر میں بلا لیا"۔
3۔ یا کہا ۔ نیک لوگوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ جلدی اٹھا لیتا ہے کیوں کہ ایسوں کی اللہ عَزَّوَجَلَّ کو بھی ضَرورت پڑتی ہے
4۔ یااللہ ! تجھے بچّوں پر بھی ترس نہیں آیا۔
5۔ االلہ ! ہم نے تیرا کیابِگاڑا ہے! آخِر ملکُ الموت کوہمارے ہی گھر والوں کے پیچھے کیوں لگا دیا ہے
6۔ اچّھا ہے جہنَّم میں جائیں گے کہ فلمی اداکار ئیں بھی تو وہیں ہوں گی نہ مزہ آجائے گا۔
7۔ اکثر لوگ فیس بک پر اس طرح کے لطائف لکھ ڈالتے ہیں۔ یہ بھی کفر ہے۔ جیسے اگر تم لوگ جنّت میں چلے بھی گئے تو سگریٹ جلانے کیلئے تو ہمارے ہی پاس (یعنی دوزخ میں)آنا پڑے گا
8۔ آؤ ظہر کی نماز پڑھیں ، دوسرے نے مذاق میں جواب دیا :یا ر ! آج تو چُھٹّی کا دن ہے ، نَماز کی بھی چُھٹّی ہے ۔
9۔ کسی نے مذاق میں کہا:''بس جی چاہتا ہے یہودی یا عیسائی یا قادیانی بن جاؤں۔ ویزہ تو جلدی مل جاتا ہے نا۔
10۔ صبح صبح دعا مانگ لیا کرو اس وقت اللہ فارِغ ہوتا ہے
11۔ اتنی نیکیاں نہ کرو کہ خُدا کی جزا کم پڑجائے
12۔ خُدا نے تمہارے بال بڑی فرصت سے بنائے ہیں
13۔ زید نے کہا:یار!ہوسکتا ہے آج بارش ہوجائے۔ بکرنے کہا:''نہیں یار ! اللہ تو ہمیں بھول گیا ہے۔
14۔ کسی نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا مذاق اڑایا توکافر ہے۔
15۔ دنیا بنانے والے کیا تیرے من میں سمائی؟ تو نے کاہے کو دنیا بنائی؟ (گانا)
16۔ حسینوں کو آتے ہیں کیا کیا بہانے ۔ خدا بھی نہ جانے تو ہم کیسے جانے (گانا)
17۔ میری نگاہ میں کیا بن کے آپ رہتے ہیں ۔ قسم خدا کی ' خدا بن کے آپ رہتے ہیں ۔ (گانا) اس طرح کے بے شمار گانے جو ہمارے مسلما ن اکثر گنگناتے دیکھائی دیتے ہیں۔
18۔ نَماز کی دعوت دینے پر کسی نے کہا:''ہم نے کون سے گُناہ کئے ہیں جن کو بخْشوانے کیلئے نَماز پڑھیں۔
19۔ایک نے طبیعت پوچھی تو دوسرے نے مذاق کرتے ہوئے جواب دیا: نصْرمِّنَ اللہِ وَ ٹِّھیک ۔ کہہ دیا ۔کہنے والے پر حکم کفر ہے کہ آیت کو تبدیل کرنے کی کوشش ہے۔
20۔ رَحمٰن کے گھر شیطان اور شیطان کے گھر رَحمٰن پیدا ہوتا ہے۔
21۔مسلمان بن کر امتحان میں پڑ گیا ہوں۔
وغیرہ وغیرہ۔۔ مزید تفصیل کےلئے مکتبۂ المدینہ کی "کفریہ کلمات " نامی کتاب کا مطالعہ فائدہ مند رہے گا۔
رحمتُ اللعالمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشادِمُعظَّم ہے:''ان فِتنوں سے پہلے نیک اعمال کے سلسلے میں جلدی کرو !جو تاریک رات کے حِصّوں کی طرح ہوں گے، ایک آدَمی صُبح کو مومِن ہو گا اور شام کو کافِر ہوگااور شام کو مومِن ہوگااور صُبح کو کافِر ہوگا ۔ نیز اپنے دین کو دُنیاوی سازو سامان کے بدلے فروخت کر دے گا۔ '' (مُسلِم حدیث118ص73)
درسِ ہدایت:۔ اللہ عزوجل کی شان میں ہرگزہرگز کوئی ایسا لفظ زبان سے نہ نکالنا چاہے جن سے ان کا ایمان ضائع ہونے کا خطرہ ہو۔ آج کل لوگ بہت لا پرواہی کرتے ہیں اور خداوند تعالیٰ کی شان میں کفریہ الفاظ بول کر ایمان گنوا دیتے ہیں اور وہ دنیا و آخرت میں عذاب کے حق دار بن جاتے ہیں۔اللہ تعالی ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے۔ اور ہمیں کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے ایمان کی حالت میں اس دنیا سے رخصت فرمائے۔ آمین..
#Ghulam_Nabi_Noori
میں یہاں پر کچھ کفریہ کلمات اپنےدوستوں کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ جو عام طور پر ہمارے مسلمان بھائی بہن بول ڈالتے ہیں۔جن سے ان کا ایمان ضائع ہوجاتا ہے اور ان کو خبر بھی نہیں ہوتی۔ اسی لئے علماء کرام فرماتے ہیں کہ فرائض علوم کو ضرور سیکھئے ۔



Sunday 7 February 2016

مرزا کی عیش پرستی اور مقامِ نبوت ۔

0 comments

مرزا کی عیش پرستی اور مقامِ نبوت ۔


مرزا کی عیش پرستی اور مقامِ نبوت ۔
ایک قصہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک مشہور شاعر ڈاکٹر ٹیگور سے کسی نے سوال کیا کہ برہمو سماج کی ناکامی کا سبب کیا ہے ؟ حالانکہ اس کے اصول بہت منصفانہ صلح کل کے تھے اس کی تعلیم تھی کہ سارے مذاہب سچے اور کل مذہبوں کے بانی اچھے اور نیک لوگ تھے ۔ اس میں عقل اور منطق کے خلاف کوئی چیز نہ تھی اور موجودہ تمدن موجودہ فلسفہ اور موجودہ حالات کو دیکھ کر بتایا گیا تھا ۔ تاہم اس نے کامیابی حاصل نہ کی ۔ فلسفی شاعر نے جواب میں کتنا اچھا نکتہ بیان کیا کہ یہ اسلئے ناکامیاب ہوا کہ اس کے پیچھے کوئی شخصی زندگی اور عملی سیرت نہ تھی ۔ یہ ایک اٹل سچائی ہے کہ عمل کے بغیر وعظ کسی بھی زمانے میں قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا ۔ اور خدا کی نگاہ میں تو یہ چیز بہت ہی ناپسندیدہ ہے ۔ کیونکہ اس سے تضاد لازم ہے اور جو منجانب اللہ ہو اُس میں تضاد نہیں ہو سکتا کیونکہ تضاد چاہے قول کا عمل سے ہو یا قول کا قول سے بہرحال تضاد ہی کہلائے گا اسلئے اللہ تعالیٰ قرآن میں کئی مقامات پر اس کی ممانعت فرماتا ہے ۔ (کیوں تم کہتے ہو جو کرتے نہیں ۔القرآن) اسلئے یہ تضاد کسی نبی کی سیرت اور گفتار میں نظر نہیں آ سکتا ۔ کیونکہ پھر وہ کلام اور انسان منجانب اللہ نہیں رہے گا ۔
انبیاء کرام لوگوں سے دنیا چھڑوانے آتے ہیں نہ کے دنیا داری کی لت میں مبتلا کرنے حضرت محمد ﷺکا فرمان ہے’’ الدنیا جیفۃ وطالبہا کلاب‘‘ دنیا ایک مردار بدبودار ہے اور اس کے چاہنے والے کتے ہیں ۔
یہ بات مرزا اور اُس کے مریدوں کو بھی مسلم تھی چنانچہ مرزا کا ایک صحابی غلام رسول راجیکی لکھتا ہے ۔ایسا ہی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام(مرزا قادیانی) کی بارگاہ عالی میں جب بعض لوگوں کی طرف سے دنیاوی مقاصد کے حصول کے لئے دعا کی درخواست ہوتی اور ان کے خطوط موصول ہوتے تو حضور انور اکثر فرمایا کرتے تھے ۔
’’ہم جس دنیا کو چھڑانے کے لئے آئے ہیں یہ لوگ وہی دنیا ہم سے مانگتے ہیں۔‘‘
کاش ہمارے یہ دوست جو ہم سے دنیا کے متعلق دعا کراتے ہیں یہ اصلاحِ نفس اور خدمت اسلام کے متعلق بھی اپنے دلوں میں ایسی ہی تڑپ محسوس کریں جیسا کہ دنیا کے لئے محسوس کرتے ہیں پھر حضور اقدر علیہ الصلوۃ والسلام(مرزا قادیانی) یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ کئی دوستوں کی درخواستیں دعا کے متعلق اس غرض سے ہوتی ہیں کہ ان کا فلاں کام ہو جائے اور مال و دولت مل جائے یا بیوی اور بچے مل جائیں اور بیماروں کو صحت ہو جائے مگر ایسی درخواستیں بہت کم ہوتی ہیں جن میں یہ لکھا ہو کہ آپ میرے لئے دعا کریں کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی اور رسول کی محبت نصیب ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔حضور اقدر علیہ الصلوۃ واسلام( مرزا قادیانی) یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ مومنوں کا کام تو یہ ہے کہ ان کا ہر ایک شغل دین سے تعلق رکھنے والا ہو اور جیسے کافر لوگ دنیا اور دنیا کے مال و دولت اور ہر ایک چیز سے کفر کی بقاو ترقی کے لئے کوشش کرتے ہیں ایسے ہی مومنوں کو چاہیے کہ وہ ان کے مقابل میں غیرت کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی جان و مال اور گھر بار کو دین کی خدمت میں لگاکر دین کو دنیا میں قائم کر دیں ۔ (حیات قدسی ص135از غلام رسول راجیکی)
مرزا غلام قادیانی اپنی اس تعلیم میں کہاں تک مخلص اور سچے تھے اس بات کا اندازہ تو مرزا غلام قادیانی کے اُسی مقدس فراڈ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جو 50اور 5کے نام پر غریب اور معصوم عوام کے ساتھ کیا گیا قادیانی حضرات اس مکر و فریب اور ٹھگ بازی کو اندھی عقیدت کے چشمے سے جیسے مرضی دیکھیں یا اپنی آنکھیں پھوڑ ڈالیں انہیں حق ہے اور ہم کو بھی کہ ہم مرزا غلام قادیانی کے اس بیہودہ فعل کو حضرت محمد ﷺکے اس قول کی روشنی میں دیکھیں ’’الدنیا زور لایحصل الا بالزور ‘‘دنیا مکروفریب ہے اور بغیر مکروفریب کے حاصل نہیں ہو سکتی۔مرزا غلام قادیانی دنیا طلبی،عیش پرستی،اور دولت کی ہوس میں اس قدر اندھے تھے کہ کسی غریب یا مجبور کی مجبوری کاعلم ہوتا توجھٹ سے راستہ میں گھات لگا کر بیٹھ جاتے تھے ایسا ہی ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ ’’پٹیالہ کے ایک رئیس کے ہاں کوئی لڑکا پیدا نہ ہوا ۔ مرزا صاحب کے خواص سے دعا کی سفارش کروائی ۔ ان کو جواب دیا کہ محض رسمی طور پر دعا کے لئے ہاتھ اُٹھا دینے سے دعا نہیں ہوتی ۔ دوباتیں ہونی ضروری ہیں ۔ گہرا تعلق ہو یا دینی خدمت ۔ رئیس سے کہو کہ ایک لاکھ روپیہ دے تو پھر ہم دعا کریں گے ۔‘‘(سیرت المہدی جلد اول ص257)
ایک ستم یہ بھی ہے کہ مرزا غلام قادیانی کے لئے ایک خاص فرشتہ ’’ٹیچی ٹیچی‘‘ بروقت روپے پیسے کی رسدکے لئے خاص تھا۔ (حقیقت الوحی ص332،خزائن ج 22ص345-346)۔
شاہانہ لائف سٹائل کی کچھ جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں ۔
’’لدھیانہ کا ایک شخص تھا جس نے ایک دفعہ مسجد میں مولوی محمد علی صاحب خواجہ کمال الدین صاحب اور شیخ رحمت اللہ کے سامنے کہا کہ ہم جماعت کے لئے مقروض ہو کر اپنے بیوی اور بچوں کا پیٹ کاٹ کر چندہ میں روپیہ بھیجتے ہیں مگر یہاں بیوی صاحبہ کے کپڑے اور زیورات بن جاتے ہیں ۔ ‘‘(خطبہ میاں محمود احمد خلیفہ قادیاں،اخبار الفضل جلد 26،21اگست 1938 ؁ء)
مرزا غلام قادیانی نے اپنی لاڈلی اور چہیتی بیوی نصرت جہاں بیگم کو جو زیورات پہنائے اس کی کل رقم 3505روپے ہے ۔ (قادیانی نبوت ص85)اس زمانہ میں سونا تقریباً بیس روپے تولہ تھا اب اس زمانہ سے خود ہی مرزا غلام قادیانی کی بیوی کے زیورات کی مالیت کا اندازہ لگا لیں کہ اُنہوں نے دین کو دنیا پر کہاں تک مقدم رکھا۔
’’اوائل میں حضرت صاحب انٹر کلاس میں سفر کرتے تھے اور اگر بیوی صاحبہ ساتھ ہوتی تھیں تو ان کو دیگر مستورات کے ساتھ تھرڈ کلاس میں بٹھا دیا کرتے تھے ۔ لیکن آخری سالوں میں حضور ایک سالم سیکنڈ کلاس کمرہ اپنے لئے ریزرو کرا لیا کرتے تھے اور اسی میں حضرت بیوی صاحبہ اور بچوں کے ساتھ سفر کرتے تھے اور حضور کے اصحاب دوسری گاڑی میں بیٹھتے تھے ۔‘‘(سیرت المہدی حصہ دوم ص101روایت نمبر:427)
عیش پرستی کی بھی کچھ جھلکیاں ملاحظہ ہوں۔
1۔پرندوں کا گوشت آپ کو بہت مرغوب تھا ۔ مرغ اور بٹیر کا گوشت بھی آپ کو پسند تھا ۔ کباب،پلاؤ،انڈے ،فیرینی،اس وقت کہہ کر پکواتے تھے ۔جب ضعف معلوم ہوتا تھا ۔ میوہ جات بھی آپ کو پسند تھے ۔ موجودہ زمانہ کی ایجادات برف،سوڈا،لیمن بھی پیا کرتے تھے ۔ بلکہ موسم گرما میں برف امرتسر یا لاہور سے بھی منگوا لیا کرتے تھے۔(سیرت المہدی حصہ دوم ص132-135)
ڈاکٹر عبد الحکیم خان مرحوم جو مرزا قادیانی کے مرید تھے ۔ مرزائیت سے توبہ کرنے کے بعد اُنہوں نے لاہور میں جو تقریر کی اُس میں اپنے تائب ہونے کی وجہ بیان فرمائی کہ :اُن کے ذمہ مرزا قادیانی نے ایک خاص خدمت کر رکھی تھی ۔ ہر مہینے وہ مرزا قادیانی کے لئے ایک تولہ خالص مشک مہیا کرتے تھے ۔ جو ساٹھ ستر روپیہ تولہ ملتی تھی ۔ حکیم نورالدین کے مشورے سے ایک یا قوتی تیار کرتے تھے ۔ جو مرزا قادیانی استعمال کرتے تھے ۔ بٹالہ سے روزانہ سوڈے کی بوتلیں اور برف مرزا قادیانی کے لئے جاتی تھی ۔ خوردونوش میں بھی بہت سے تکلفات کو دخل تھا ۔ ان چیزوں پر مریدوں کا روپیہ بے دریغ صرف ہوتا تھا ۔ ایک دن جب وہ یا قوتی تیار کر رہے تھے ان کے دل میں یہ خیال آیا کہ جناب رسول اللہ ? تو ایسی سادہ زندگی بسر کرتے تھے کہ ایک روایت کے مطابق نبوت کے گھر میں تین دن متواتر ایک وقت جوکی روٹی سے کسی کا پیٹ نہ بھرا تھا ۔ اور مرزا قادیانی دعویٰ تو فنا فی الرسول ہونے کا کرتا ہے ۔ لیکن تنعیم دوستی کا یہ عالم ہے جب ڈاکٹر صاحب نے اپنا یہ شبہ مرزا قادیانی پر ظاہر کیا تو ان سے کوئی جواب سوائے ہیر پھیر کے نہ بن پڑا ۔چنانچہ ڈالٹر صاحب مرزائیت ترک کر کے مسلمان ہو گئے ۔
مرزائی حضرات کے لئے ڈاکٹر صاحب کے بیان پر اعتبار کرنا مشکل ہو سکتا ۔کیونکہ وہ ڈاکٹر صاحب کو مرزا قادیانی کا دشمن مانتے ہیں ۔ تو اس ضمن میں مندرجہ ذیل حوالے جات خوف خدا رکھنے والی آنکھوں سے پڑھنے کے لائق ہیں ۔
1۔ پہلی مشک ختم ہو چکی ہے ۔ اسلئے پچاس روپے بذریعہ منی آرڈر آپ کی خدمت میں ارسال ہیں ۔ دوتولہ مشک خالص دو شیشیوں میں ارسال فرماویں ۔ آپ بے شک ایک تولہ مشک بہ قیمت خرید کر کے بذریعہ وی۔پی بھیج دیں ۔ (خطوط امام بنام غلام ص2-3)
2۔ مخدومی سیٹھ صاحب سلمہ اسلام علیکم رحمتہ اللہ وبرکاتہ۔۔۔۔کل کی تاریخ عنبر بھی پہنچ گیا ۔ آپ میری طرف سے ان مہربان دوست کی خدمت میں شکریہ ادا کر دیں ۔(مکتوب نمبر67،مکتوبات احمدیہ ج 5حصہ اوّل ص26-27)
3۔ میں اس کو اپنے مولا کریم کے فضل سے اپنے لئے بے اندازہ فخر کا موجب سمجھتا ہوں کہ حضور (مرزا قادیانی) بھی اس ناچیز کی تیارکردہ مفرح عنبری کا استعمال فرماتے ہیں ۔(خطوط امام بنام غلام ص8)
4۔ اسی طرح مکتوب احمدیہ جلد پنجم نمبر2ص14پر شہوت کو اُبھارنے والی دوا مرزا نے استعمال کی اور حکیم نورالدین کو بھی یہی دوا کو استعمال کرنے کا مشورہ دیا اسی طرح سیرت المہدی جلد سوئم ص50-51پر شہوت اُبھارنے کے لئے ایک افیون سے تیار کردہ الہامی نسخہ درج کیا گیا ہے ۔ جو مرزا نے استعمال بھی کیا اور دوسروں کو بھی کرایا ۔
اسلئے ڈاکٹر صاحب کا بیان جھٹلایا نہیں جا سکتا ۔ اور ایسی قیمتی مقویات جو شہوت کو اُبھارنے کے لئے دنیا میں مشہور ہیں ۔کیا کسی نبی کی شان کے شایان ہیں ؟ خود سوچیں کے شہوت کے زیرِ اثر رہ کر کوئی انسان عبادت الٰہی کیسے کر سکتا ہے ؟ اور یہ بھی سوچیں کہ ایک زاہد و عابد جس کا دعویٰ فنا فی الرسول ہونے کا ہو کیا ایسے شہواتی مقویات کا محتاج ہوا کرتا ہے انبیاء اپنے مریدوں سے ریاضت اور اطاعت کا کام لیتے ہیں ۔ لیکن مرزا غلام قادیانی مقویات کٹوانے اور بنوانے کا کام لیتے ہیں سبحان اللہ شاید کوئی بے حیائی کا لباس اوڑھ کر اور مرزا غلام قادیانی کی بے شرم زبان اپنے منہ میں رکھ کر کہہ دے کہ یہ بھی مرزا غلام قادیانی کی صداقت کا ایک ثبوت ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جس میں حیاء اور غیرت نہ ہو وہ جو مرضی کرتا اور کہتا رہے کسی کو کیا فرق پڑتا ہے ۔
ایسے ہی مرزا کا بے شرمی میں لپٹا ہوا یہ دعویٰ بھی قابل غور رہے کہ اللہ تعالیٰ کی مجھ سے یہ عادت ہے کہ جو نقد روپیہ آنے والا ہو یا اور چیزیں تحائف کے طور پر ہوں ۔ ان کی خبر قبل از وقت بذریعہ الہام یا خواب مجھ کو دے دیتا ہے اور اس قسم کے نشان پچاس ہزار سے کچھ زیادہ ہوں گے ۔ (حقیقت الوحی 333،خزائن ج 22ص346)
حضرت محمد ﷺکے قول کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ بدبودار اور کتوں کے کام ہیں ۔ لیکن اگر قادیانی عینک لگا کر دیکھا جائے تو یہ خارق عادت یا معجزات ہیں جن کی بنا پر مرزا غلام قادیانی فرماتے ہیں کہ اگر یہ معجزات ہزار انبیاء پر تقسیم کئے جائیں تو کئی کی نبوت ثابت ہو جاتی ۔ یہ تو شکر خدا کا ہے کہ یہ منطق فرعون اور قارون کے دماغ میں نہیں سمائی ورنہ وہ ایسے نشانوں سے پتہ نہیں کتنے لوگوں کی خدائی ثابت کر جاتے ۔

Wednesday 6 January 2016

The Education Of Hadees Part 3 علم حدیث مکمل

0 comments
The Education Of Hadees Part 3 علم حدیث مکمل
حدیث میں درجہ بندی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟فتوحات کی کثرت کی بنا پر جب مختلف قبیلوں اور دور دراز علاقوں میں اسلام پھیلنے لگا تو حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم مختلف جگہوں میں قیام پذیر ہوگئے، اس طرح مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ علم حدیث کے حامل کبارِ صحابہ اس دنیا سے پردہ فرمانے لگے جس کے نتیجہ میں علمِ حدیث کے حاملین کی کمی ہونے لگی، دھیرے دھیرے حق کے خلاف باطل سرابھارنے لگا ،لوگ اپنے اپنے مقاصد کے لیے حدیثیں اپنی طرف سے بناکرحضور اکرم ﷺ کی طرف اس کی نسبت کرنے لگے،مثلاً بددین لوگوں نے اپنے عقائد کے تائید میں،سیاسی گروہ سے تعلق رکھنے والوں نے اپنے پیشوا کی فضیلت اور مخالفین کی مذمت میں،بادشاہوں کو خوش کرنے کی لیےاورغیر محتاط مقررین اپنی تقریر میں رنگ جمانے کے لیے حدیثیں گڑھنےلگے،تو ان نازک حالات کے پیشِ نظر علماءِ وقت نے حدیث کی تدوین نیز اسے کتابی شکل میں لانے کی ضرورت کو محسوس کیا؛ چنانچہ علماء اور طالبینِ حدیث اس کام کے لیے کمربستہ ہوگئے، انہوں نے حدیث کی حفاظت کی اہمیت کے پیش نظر دوردراز کے متعدد اسفار کئے، اس وقت محدثین کرام علمِ حدیث کی خدمت کو شب بیداری سے افضل سمجھتے تھے اور انہوں نے اپنی عمر عزیز کا بیشتر حصہ اس اہم کام کے لیے صرف کردیا،اور من گھڑت روایتیں پیش کرنے والے راویوں کی حقیقت کو کھول کر رکھ دیا،صحیح اور موضوع روایتوں کو الگ الگ کردیا،صحیح اور ضعیف احادیث کی پہچان کے لیے اصول مقرر کیے،جس کو حدیث کا علم کہتے ہیں ،ان علوم کو جانے بغیر کوئی شخص احادیث میں کلام نہیں کرسکتا۔موجودہ زمانے میں احادیث پرصحیح یا ضعیف کا حکم لگاناموجودہ زمانے میں کسی حدیث کو علم حدیث میں مہارت کے بغیرصحیح یا ضعیف ہونے کا حکم نہیں لگایا جاسکتا ،اس لیے کہ کتابوں میں نقل کرنے سے پہلے ائمہ جرح وتعدیل راویوں کی پوری چھان بین کرتےتھے، ان کی صفات باوثوق ذریعے سے معلوم کرتے،اور علم حدیث کے تمام شرائط پر اس راوی اورروایت کو پرکھا اورجانچا جاتا تھا،اس کے بعد حدیث کا درجہ متعین کیا جاتا تھا،الغرض!ماہرین علم حدیث نے مجموعی طور پر جس حدیث کو ضعیف یا صحیح لکھا ہے ،موجودہ زمانہ میں اسی حدیث کو ضعیف یا صحیح کہا جاسکتا ہے-البتہ جن احادیث کے بارے میں صحت وضعف کا پتہ نہ چل سکے اور باوجود تلاش وجستجو کے کسی کی کوئی تصریح اس حدیث کے متعلق نے مل سکے تو پھر کتب اسماء رجال سے ہر راوی کے متعلق جملہ آراء کو جمع کیا جائے اور معتدل وحقیقت پسندانہ تبصرہ کرنے والوں کی رائے کو اہمیت دی جائے اور اس کی روشنی میں کسی حدیث کے بارے میں صحت وضعف کا فیصلہ کیا جائے ؛یہی محتاط طریقہ ہے،بلا تحقیق وجستجو کے کسی حدیث پر حکم لگانا نہایت غلط طریقہ ہے۔علوم حدیثمجموعی طور پر علم حدیث کی درج ذیل قسمیں بیان کی جاتی ہیں۔۱۔ نقل حدیث کی کیفیت و صورت ۔ نیز یہ کہ وہ کس کا فعل وتقریر ہے ۔۲۔نقل حدیث کے شرائط۔ ساتھ ہی یہ بھی کہ نقل کی کیا کیفیت رہی ۔۳۔ اقسام حدیث باعتبار سند و متن ۔۴۔احکام اقسام حدیث ۔۵۔احوال راویان حدیث ۔۶۔ شرائط راویان حدیث ۔۷۔ مصنفات حدیث ۔۸۔اصطلاحات فن ۔راویوں کی تعداد کے اعتبار سے حدیث کی قسمیںحدیث نقل کرنے والے کو راوی کہتے ہیں،اس لحاظ سے حدیث کی چار قسمیں ہیں،متواتر،مشہور،غریب،عزیز۔متواتر:وہ حدیث ہے جس کو رسول اللہ ﷺ سے آج تک اتنی بڑی جماعت نقل کرتی آئی ہو کہ عادتاً ان کا جھوٹ پر متفق ہوجانا ناقابل تصور ہو۔مشہور:وہ حد یث ہے جس کو ہر زمانے میں تین یا اس سے زیادہ راویوں نے نقل کیا ہو،اگر سلسلہ سند میں کہیں بھی راویوں کی تعداد کسی زمانے میں تین سے کم ہوگئی ہو تو خبر مشہور باقی نہیں رہے گی۔عزیز:وہ حدیث ہے جس کی روایت کرنے والے کسی زمانے میں دو سے کم نہ ہوں۔غریب:وہ حدیث ہے جس کے سلسلہ سند میں کسی زمانے میں بھی راوی کی تعداد صرف ایک رہ گئی ہو،حدیث غریب کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ غیر معتبر ہوتی ہے؛ بلکہ حدیث غریب کبھی صحیح کبھی حسن اور کبھی ضعیف کے درجے کی ہوتی ہے۔مقبول حدیث کی پہچان اور اس کی قسمیںمقبول یعنی وہ حدیث جس کی رسول اللہ ﷺ کی طرف نسبت کا درست ہونا راجح ہو،اس کی چار قسمیں ہیں،صحیح لذاتہ،صحیح لغیرہ،حسن لذاتہ،حسن لغیرہ۔صحیح لذاتہ:وہ حدیث ہےجس کو عادل اور قوی الحفظ راویوں نے اس طرح نقل کیا ہو کہ سند میں کہیں انقطاع نہ ہو اور وہ علت اور شذوذ سے محفوظ ہو۔(عادل سے مراد جو گناہوں اور دنائت کی باتوں سے بچتا ہو،قوی الحفظ وہ ہے جو سنی ہوئی بات کو بغیر کمی بیشی کے محفوظ رکھ سکتا ہواصطلاح میں اس کو ضبط کہتے ہیں،علت روایت میں پائی جانے والی ایسی پوشیدہ کمزوری کو کہتے ہیں جس پر اہل فن ہی واقف ہوسکیں،شذوذ کا مطلب یہ ہے کہ راوی نے سند یا حدیث کے مضمون میں اپنے سے بہتر راوی کی مخالفت کی ہو)۔صحیح لغیرہ:وہ حدیث ہےجس کا راوی ضبط میں تھوڑا کمزور ہو؛لیکن دوسری کئی سندوں سے منقول ہونے کی وجہ سے صحیح کے درجے میں آجائے۔حسن لذاتہ:وہ حدیث ہے جس کا راوی عادل ہو؛ لیکن ضبط میں کچھ کم ہواور اس میں شذوذ و علت پائی جائے۔حسن لغیرہ:وہ حدیث ہے جس کی سند میں کوئی راوی عدل یا ضبط کے اعتبار سے کمزور ہو ؛لیکن کثرت طرق کی وجہ سے اس کی تلافی ہوجائے۔ضعیف حدیث کی پہچان اور اس کی قسمیںحدیث ضعیف:وہ حدیث ہے جس کی سند میں اتصال نہ ہو یا راوی عادل نہ ہو یا راوی کا حافظہ بہتر اور قابل اعتماد نہ ہو،حدیث ضعیف کی بہت قسمیں ہیں،بنیادی طور پر دو اسباب کی وجہ سے حدیث ضعیف کہلاتی ہے(۱)سند میں کسی مقام پرراوی کا چھوٹ جانا(۲)حدیث کے راویوں میں جن اوصاف کا پایاجانا ضروری ہے وہ نہ پائے جائیں۔چند اصطلاحات ِحدیثحضورﷺ سے جو چیز منقول ہوا سے‘‘حدیث مرفوع’’اور جو صحابی سے منقول ہو اسے ‘‘حدیث موقوف’’ اور جو تابعی سے منقول ہواسے‘‘حدیث مقطوع’’ کہتے ہیں ، حدیث کے ناقل کو ‘‘راوی’’اور حدیث کو‘‘روایت’’ کہتے ہیں اور ناقلین کے نام کے مجموعہ کو‘‘سند’’ اور اصل مضمون کو ‘‘متن’’ کہتے ہیں۔کتب احادیث کی چند قسمیںصحیح:وہ کتب حدیث ہیں جن میں مؤلف نے صحیح احادیث کے نقل کرنے کا اہتمام کیا ہو،جیسے مؤطا امام مالک ، بخاری،مسلم،ترمذی،ابوداؤد،نسائی،ابن ماجہ،صحیح ابن خزیمہ اور صحیح ابن حبان،ان کتابوں میں مؤلفین نے اپنی دانست میں صحیح وحسن روایات کو نقل کرنے کا اہتمام کیا ہے اور اگر کہیں کسی مصلحت سے قصداً ضعیف روایت نقل کی ہیں تو ان کا ضعف بھی ظاہر کردیا ہے۔جامع:وہ کتابیں جن میں آٹھ قسم کی مضامین ہوں ‘‘عقائد، احکام، رقاق، آداب، تفسیر، سیر،مناقب،فتن’’بخاری اور ترمذی بحیثیت جامع زیادہ ممتاز ہیں۔سنن:وہ کتب جن میں فقہی ترتیب سے روایات جمع کی گئی ہوں،جیسے ابوداؤد اور ترمذی وغیرہ۔مصنف:ایسی کتابیں جو فقہی ترتیب پر مرتب کی جاتی ہیں؛ مگر ان میں احادیث مرفوعہ کے ساتھ صحابہ وتابعین کے فتاویٰ بھی مذکور ہوں ،جیسے مصنف عبدالرزاق اور مصنف ابن ابی شیبہ۔مسند: وہ کتابیں ہیں جن میں ہر صحابی کی مرویات کو ایک جگہ جمع کیا گیا ہو جیسے مسند احمد بن حنبل وغیرہ۔معجم:جس میں ایک استاذ کی مرویات کو راوی نے جمع کیا ہو جیسے طبرانی کی معجم وغیرہ۔( حدیث کا یہ ایک مختصر تعارف تھا اس عنوان کے تحت تمام تفصیلات آگےملاحظہ فرمائیں)================================================

The Education Of Hadees Pat 2 علم حدیث مکمل

0 comments

The Education Of Hadees Pat 2 علم حدیث مکمل 

حدیث پڑھنے کا فائدہحدیث پڑھنے والا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ایک نورانی سلسلہ قائم ہوجاتا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ بار بار درود شریف پڑھنے کی توفیق ملتی ہے، جو سعادتِ دارین کا باعث ہے جس کے بے شمار فوائد ہیں، اس طرح علم حدیث کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ اس سے زندگی میں نبوی طریقوں پر عمل پیرا ہونا آسان ہوجاتا ہے جس کا اللہ نے قرآن میں ‘‘اَطِیْعُواالرَّسُوْلَ’’(رسول کی اطاعت کرو)کے ذریعہ حکم دیا ہے، جب کسی ذاتِ بابرکت کے حالات کا عرفان ہوتا ہے تو اس کی تعلیمات پر چلنا اور احکامات کو بجالاناآسان ہوجاتا ہے،حدیث پڑھنے اور اس پر عمل کرنے والا حضور ﷺ کی اس دعا میں شامل ہوجاتا ہے: اللہ اس بندہ کو آسودہ حال رکھے جس نے میری بات(حدیث) سن کر یاد کیا پھر اسے اسی طرح دوسروں تک پہونچایا۔تدوینِ حدیثحدیث کی عظمت وفضیلت اور زندگی کے ہرشعبہ میں اس کی ضرورت کے پیشِ نظر حدیث کی حفاظت وصیانت اور کتابت کا اہتمام زمانۂ رسالت ہی سے کیا گیا؛ چنانچہ احادیث کی تحریر سے قطعِ نظرصحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے علم حدیث کے اصول اور حفظ وضبط کے لیے اللہ کی عطا کردہ غیرمعمولی حافظہ کی تیزی اور ذہن کی سلامتی کا سہارا لیا۔حفاظتِ حدیث کے طریقےعہدِ رسالت اور عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں حفاظتِ حدیث کے لیے تین طریقے (حفظِ روایت، تعامل اور تحریر وکتابت) اپنائے گئے تھے جو یہاں ذکر کئے جاتے ہیں۔حفظِ روایتحفاظتِ حدیث کا پہلا طریقہ احادیث کو یاد کرنا ہے اور یہ طریقہ اس دور کے لحاظ سے انتہائی قابل اعتماد تھا، اہلِ عرب کو اللہ تعالیٰ نے غیرمعمولی حافظے عطا فرمائے تھے، وہ صرف اپنے ہی نہیں بلکہ اپنے گھوڑوں تک کے نسب نامے ازبر یاد کرلیا کرتے تھے، ایک ایک شخص کو ہزاروں اشعار حفظ ہوتے تھے ،یہی نہیں بلکہ؛یہ حضرات بسااوقات کسی بات کو صرف ایک بار سن کر یادیکھ کر پوری طرح یاد کرلیتے تھے، تاریخ میں اس کی بے شمار مثالیں ہیں، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے متعلق مشہور ہے کہ ان کے سامنے عمر بن ابی ربیعہ شاعر آیا اور ستر اشعار کا ایک طویل قصیدہ پڑھ گیا، شاعر کے جانے کے بعد ایک شعر کے متعلق گفتگو چلی، ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مصرعہ اس نے یوں پڑھا تھا، جو مخاطب تھا اس نے پوچھا کہ تم کو پہلی دفعہ میں کیا پورا مصرعہ یاد رہ گیا؟ بولے کہو تو پورے ستر شعر سنادوں اور سنادیا۔علماء اسلام کا خیال ہے کہ علاوہ اس کے کہ عرب کا حافظہ قدرتی طور پر غیرمعمولی تھا یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ قرآن مجید کے متعلق جس نے ‘‘وَإِنَّالَہُ لَحَافِظُوْنَ’’ کا اعلان کیا تھا اسی نے قرآن کی عملی شکل یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی حفاظت جن کے سپرد کی تھی ان کے حافظوں کو غیبی تائیدوں کے ذریعہ سے بھی کچھ غیرمعمولی طور پر قوی تر کردیا تھا، وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کو محفوظ کرنااپنے لیے راہِ نجات سمجھتےتھے، خاص طور پر جب کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ان کے سامنے آچکا تھا:‘‘نَضَّرَ اللَّهُ عَبْدًا سَمِعَ مَقَالَتِي فحفظھا ووعاھا واداھا کماسمع’’۔(ترمذی، باب ماجاء فی الحث علی تبلیغ السماع، حدیث نمبر:۲۵۲۸۔ ابن ماجہ، باب من بلغ علی، حدیث نمبر:۲۲۶۔ مسنداحمد، حدیث جبیر بن مطعم، حدیث نمبر:۱۶۷۸۴۔ مسند شافعی، فدب حامل فقہ غیرفقیہ، حدیث نمبر:۱۱۱۵)اللہ اس بندہ کو آسودہ حال رکھے جس نے میری بات(حدیث) سن کر یاد کیا پھر اسے اسی طرح دوسروں تک پہونچایا۔طریقۂ تعاملحفاظتِ حدیث کا ایک اور طریقہ جو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے اختیار کیا تھا وہ تعامل تھا ؛یعنی صحابۂ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال پر بجنسھا عمل کرکے اسے یاد کرتے تھے، ترمذی شریف اور دیگر حدیث کی کتابوں میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ انھوں نے کوئی عمل کیا اور اس کے بعد فرمایا: ‘‘ھٰکَذَا رَأَیْتُ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّیَ اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ’’ بلاشبہ یہ طریقہ بھی نہایت قابلِ اعتماد ہے اس لیے کہ انسان جس بات پر خود عمل پیرا ہوتا ہے تو وہ ذہن میں اچھی طرح راسخ ہوجاتی ہے۔طریقۂ کتابتحدیث کی حفاظت کتابت وتحریر کے ذریعہ سے بھی کی گئی ہے، تاریخی طور پر کتابتِ حدیث کو چار مراحل پر تقسیم کیا جاتا ہے:(۱)متفرق طور سے احادیث کو قلمبند کرنا۔(۲)کسی ایک شخصی صحیفہ میں احادیث کو جمع کرنا جس کی حیثیت ذاتی یاد داشت کی ہو۔(۳)احادیث کو کتابی صورت میں بغیر تبویب(ابواب) کے جمع کرنا۔(۴)احادیث کو کتابی شکل میں تبویب (ابواب)کے ساتھ جمع کرنا۔عہدِرسالت اور عہدِ صحابہ میں کتابت کی پہلی دوقسمیں اچھی طرح رائج ہوچکی تھیں، منکرینِ حدیث عہدِرسالت میں کتابتِ حدیث کو تسلیم نہیں کرتے اور مسلم وغیرہ کی اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں جو ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘لَاتَکْتُبُوْا عَنِّیْ وَمَنْ کتب عنی غَیْرَالْقُرْآن فَلْیَمْحُہٗ’’ منکرینِ حدیث کا یہ کہنا ہے کہ حضورﷺ کا کتابتِ حدیث سے منع فرمانا اس بات کی دلیل ہے کہ اس دور میں حدیثیں نہیں لکھی گئیں؛ نیزاس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ احادیث حجت نہیں؛ ورنہ آپ انھیں اہتمام کے ساتھ قلمبند فرماتے؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کتابتِ حدیث کی یہ ممانعت ابتداء اسلام میں تھی۔ذیل میں ہم کتابتِ حدیث سے ممانعت کی وجوہ اور اس کے متعلق اعتراضات کے جوابات پیش کررہے ہیں،کاتبین کی سہولت کے باوجود عمومی طور پر حدیث کی کتابت اور تدوین کی جانب توجہ نہ دینے کے درجِ ذیل اسباب ہیں:(۱)اپنے فطری قوتِ حافظہ کی حفاظت مقصود تھی؛ کیونکہ قیدِ تحریر میں آجانے کے بعد یادداشت کے بجائے نوشتہ پر اعتماد ہوجاتا۔(۲)قرآن کریم کے لفظ اور معنی دونوں کی حفاظت مقدم اور ضروری تھی اس لیے لکھنے کا اہتمام کیا گیا ،جب کہ حدیث کی روایت بالمعنی بھی جائز تھی؛ اس لیے حدیث کے نہ لکھے جانے میں کوئی نقصان نہیں تھا۔(۳)عام مسلمانوں کے اعتبار سے یہ اندیشہ تھا کہ قرآن اور غیرقرآن یعنی حدیث ایک ہی چمڑے یاہڈی پر لکھنے کی وجہ سے خلط ملط ہوسکتے ہیں؛ اس لیے احتیاطی طور پر رسول اللہﷺنے قرآن کریم کے علاوہ احادیث نبویہ کو لکھنے سے منع فرمایا؛ چنانچہ حضرت ابوسعید خدریؓ اور حضرت ابوہریرہؓ سے مروی حدیث جس میں کتابتِ حدیث سے ممانعت فرمائی گئی اسی مصلحت پر مبنی ہے۔(۴)ابتداءِ اسلام میں تحریرِ حدیث کی ممانعت تھی پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عوارضات کے ختم ہونے کے بعد تحریرِ حدیث کی اجازت مرحمت فرمائی جس کے متعلق درجِ ذیل احادیث سے تائید ہوتی ہے:(۱)حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص فرماتے ہیں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنتا تھا اسے محفوظ رکھنے کی غرض سے لکھ لیا کرتا تھا ،قریش کے لوگوں نے مجھے منع کیا کہ تم ہربات رسول اللہﷺ سے لکھ لیا کرتے ہو؛ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان ہیں ،ان پر بھی خوشی اور غصہ دونوں حالتیں طاری ہوتی ہیں؛ چنانچہ میں لکھنے سے رُک گیا اور رسول اللہﷺ کے پاس جاکر یہ بات میں نے عرض کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگشتِ مبارک سے اپنے دہنِ مبارک کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:‘‘اكْتُبْ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَايَخْرُجُ مِنْهُ إِلَّاحَقٌّ’’۔(ابوداؤد،بَاب فِي كِتَابِ الْعِلْمِ حدیث نمبر:۳۱۶۱)تم لکھتے رہو؛ کیونکہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، میرے منہ سے حق بات ہی کا صدور ہوتا ہے۔(۲)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں مجھ سے زیادہ حدیثوں کا جامع کوئی نہیں ہے سوائے عبداللہ بن عمرو کے؛ کیونکہ وہ لکھتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا۔(بخاری شریف، کتاب العلم، باب کتابۃ العلم:۱/۲۲)(۳)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے منقول ہے کہ ایک انصاری شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے حافظہ کی کمزوری کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘اسْتَعِنْ بِيَمِينِكَ’’ (یعنی اسے لکھ لو)۔(ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي الرُّخْصَةِ فِيهِ، حدیث نمبر:۲۵۹۰)اس قسم کی احادیث اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ کتابتِ حدیث کی ممانعت کسی امرِعارض کی بناپر تھی اور جب وہ عارض مرتفع ہوگیا تواس کی اجازت؛ بلکہ حکم دیا گیا؛ اسی لیے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ کے دور میں حدیث کے کئی مجموعے (جو ذاتی نوعیت کے تھے) تیار ہوچکے تھے، جیسے صحیفۂ صادقہ، صحیفۂ علی، کتاب الصدقہ، صحفِ انس بن مالک، صحیفۂ سمرہ بن جندب، صحیفۂ سعد بن عبادہ اور صحیفۂ ہمام بن منبہ رضی اللہ عنہم، یہ صحیفے اس بات کی وضاحت کے لیے کافی ہیں کہ عہدِ رسالت اور عہدِ صحابہ میں کتابتِ حدیث کا طریقہ خوب اچھی طرح رائج ہوچکا تھا؛ لیکن اتنی بات ضروری ہے کہ خلفائے ثلاثہ کے دور میں قرآن کی طرح تدوین واشاعتِ حدیث کا اہتمام نہیں ہوا؛ لیکن حضورﷺ کی زندگی عہدِ صحابہ میں بجائے ایک نسخہ کے ہزاروں نسخوں کی صورت میں موجود ہوچکی تھی اس اعتبار سے تدوینِ حدیث کی ایک صورت خود صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگی تھی۔مدوّنِ اوّلسب سے پہلے حدیث کی تدوین اور اس کو کتابی شکل میں جمع کرنے کا حکومت کی جانب سےحکم حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ(۱۰۱ھ) نے دیا ہے، آپ کے مبارک دور میں احادیث کی باضابطہ تدوین کی تحریک پیدا ہوئی ہے، اس لیے کہ اب قرآن کریم سے احادیث کے اختلاط والتباس کا اندیشہ نہ تھا، صحیح بخاری میں ہے۔(۱)َكَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ إِلَى أَبِي بَكْرِ بْنِ حَزْمٍ انْظُرْ مَا كَانَ مِنْ حَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاكْتُبْهُ فَإِنِّي خِفْتُ دُرُوسَ الْعِلْمِ وَذَهَابَ الْعُلَمَاءِ..الخ(بخاری،باب کیف یقبض العلم،۱۷۵/۱)حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ابوبکر بن حزم کو لکھا کہ آنحضرتﷺ کی احادیث پر نظر رکھیں اورانہیں لکھ لیں؛کیونکہ مجھے علم کے مٹ جانے اور علماء کے اٹھ جانے کا ڈر ہےالغرض اس طرح تدوینِ حدیث کے اس اہم کام کا آغاز ہوا جس کے نتیجہ میں پہلی ہجری کے آخر میں حدیث کی بہت سی کتابیں وجود میں آگئی تھیں، جیسے: کتب ابی بکر، رسالہ سالم بن عبداللہ فی الصدقات، دفاتر الزھری، کتاب السنن لمکحول، ابواب الشعبی۔یہ حدیث کی کتابوں میں تبویب کی ابتداء تھی، دوسری صدی ہجری میں تدوینِ حدیث کا یہ کام نہایت تیزی اور قوت کے ساتھ شروع ہوا؛ چنانچہ اس دور میں حدیث کی لکھی گئی کتابوں کی تعداد بیس سے بھی زیادہ ہے جن میں سے چند مشہور کتابیں یہ ہیں:کتاب الاثار لابی حنیفہ، المؤطا للامام مالک، جامع معمربن راشد، جامع سفیان الثوری، السنن لابن جریج، السنن لوکیع بن الجراح اور کتاب الزہد لعبداللہ بن المبارک، وغیرہ۔تدوینِ حدیث کا کام تیسری صدی ہجری میں اپنے شباب کو پہونچ گیا جس کے نتیجہ میں اسانید طویل ہوگئیں، ایک حدیث کو متعدد طرق سے روایت کیا گیا؛ نیزشیوعِ علم کی بنا پر فن حدیث پر لکھی گئی کتابوں کو نئی تبویب اور نئے انداز سے ترتیب دیا گیا اس طرح حدیث کی کتابوں کی بیس سے زیادہ قسمیں ہوگئیں پھر اسماء الرجال کے علم نے باقاعدہ صورت اختیار کرلی اور اس پر بھی متعدد کتابیں لکھی گئیں؛ الغرض اسی دور میں صحاحِ ستہ کی بھی تالیف ہوئی جس سے آج تک امت مستفید ہورہی ہے۔خلاصۂ کلام یہ ہے کہ حدیث کی حفاظت وصیانت اور کتابت کا آغاز زمانۂ رسالت ہی سے ہوگیا تھا اور حدیث کی حفاظت کے لیے حفظِ روایت، طریقۂ تعامل اور تحریر سے کام لیا گیا،اور تیسری صدی ہجری تک حدیثوں کوپورے طور پرمدون کردیا گیا۔سنت اور حدیث میں فرقسنت کا لفظ عمل متوارث پر آتا ہے اس میں نسخ کا کوئی احتمال نہیں رہتا،حدیث کبھی ناسخ ہوتی ہےکبھی منسوخ ؛مگر سنت کبھی منسوخ نہیں ہوتی، سنت ہے ہی وہ جس میں توارث ہواور تسلسلِ تعامل ہو،حدیث کبھی ضعیف بھی ہوتی ہے کبھی صحیح، یہ صحت وضعف کا فرق ایک علمی مرتبہ ہے،ایک علمی درجہ کی بات ہے، بخلاف سنت کے کہ اس میں ہمیشہ عمل نمایاں رہتا ہے.(اٰثار الحدیث:۶۲).............جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

The Education Of Hadees علم حدیث کلاس 1

0 comments

The Education Of Hadees علم حدیث کلاس 1

حدیث کی لغوی تعریف
حدیث کےمعنی بات اور گفتگو کے ہیں،علامہ جوہری صحاح میں لکھتے ہیں:
‘‘اَلْحَدِیْثُ الْکَلَامُ قَلِیْلُہُ وَکَثِیْرُہُ ’’۔
حدیث بات کو کہتے ہیں خواہ وہ مختصر ہو یا مفصل۔
حدیث کی اصطلاحی تعریف
حضورﷺ کےاقوال ،افعال اور تقریرات کے مجموعہ کو حدیث کہتے ہیں،اقوال سے مراد آپﷺ کی زبان مبارک سے نکلےہوئے کلمات ہیں،افعال سے مراد آپﷺ کے اعضاءسے ظاہر شدہ اعمال ہیں اور تقریر سے مراد: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنےکسی صحابی نے کچھ کیا یا کہااور آپ نے اس پر سکوت فرمایا نکیر نہ کی اور اس سے یہی سمجھا گیاکہ اس عمل یا قول کی حضورﷺ نے تصدیق فرمادی ہے تو اسی تصدیق کو ‘‘تقریر’’ confirmationکہتے ہیں اور آپ کی یہ تصدیق تقریری صورت کہلاتی ہے۔
حدیث کی حیثیت قرآن کریم میں
شریعتِ اسلامیہ کی اساس اور بنیاد قرآن اور سنتِ رسول اللہ ہے ؛چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ کو بحیثیتِ مطاع (یعنی جس کی اطاعت کی جائے) پیش کیا ہے، فرمانِ باری ہے:
(۱)‘‘یَاأَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا أَطِیْعُو اللہَ وَأَطِیْعُوالرَّسُوْلَ وَلَاتُبْطِلُوْا أَعْمَالَکُمْ’’۔
(محمد:۳۳)
اے ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرو۔
اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم کی طرح حضورﷺ کے اقوال، افعال اور تقریرات کی بھی اتباع کرنا ضروری ہے ،اللہ تعالیٰ نے مستقل طور سے اس کا حکم دیا ہے۔
(۲)نیز ارشاد خدا وندی ہے:‘‘وَأَنْزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِنَّاسِ مَانُزِّلَ إِلَیْھِمْ وَلَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ’’۔
(النحل:۴۴)
اور(اے پیغمبر!)ہم نے تم پر بھی یہ قرآن اس لیے نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اُن باتوں کی واضح تشریح کردو جو اُن کے لیے اتاری گئی ہیں اور تاکہ وہ غور وفکر سے کام لیں۔
اس آیت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیان کی جو ذمہ داری لی ہے اس کی تکمیل رسول اللہﷺ کریں گے، آپ کا بیان اللہ ہی کا بیان ہوگا اور یہ بات اسی وقت ممکن ہے کہ آپﷺ نے قرآن کی تبیین وتشریح وحی کے ذریعہ فرمائی ہو ورنہ اس کو اللہ کا بیان کیسے کہہ سکتے ہیں۔
(۳)ایک اور جگہ ارشاد ہے‘‘وَمَایَنْطِقُ عَنِ الْھَوَیo إِنْ ھُوَإِلَّاوَحْیٌ یُوْحَی‘‘۔
(النجم:۳،۴)
اور یہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے،یہ تو خالص وحی ہے جو ان کے پاس بھیجی جاتی ہے ۔
(۴)نیز اللہ تعالی کا ارشاد ہے:‘‘وَمَاآتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَانَھَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا’’۔
(الحشر:۷)
رسول تم کو جو کچھ دیں وہ لے لو اور جس چیز سے تم کو روک دیں رک جاؤ۔
ان دونوں آیتوں میں واضح طور پر حدیث کا مقام معلوم ہورہا ہے کہ اللہ تعالی نے حضور اکرم ﷺ کے ارشادات کو وحی الہٰی سے تعبیر فرمایا اور امت کو حکم دیا کہ حضور اکرم ﷺ جس بات کا حکم دیں اس کو اختیار کرو اور جس بات سے منع کریں اس سے رک جاؤ۔
احادیث میں حدیثِ رسولﷺ کی حیثیت
(۱)آپﷺ کی ارشاد ہے:"أَلَاإِنِّي أُوتِيتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ"۔
(ابوداؤد، باب فی لزوم السنۃ، حدیث نمبر:۳۹۸۸)
خبردار رہو کہ مجھے قرآن کے ساتھ اس کا مثل بھی دیا گیا ہے۔
حضرت زید بن ثابت ؓ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا :
(۲)حدیث کے حفظ اور یادداشت کی ترغیب دیتے ہوئے آپﷺ نے فرمایا:نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا فَحَفِظَهُ حَتَّى يُبَلِّغَهُ غَيْرَه۔
(ترمذی،بَاب مَا جَاءَ فِي الْحَثِّ عَلَى تَبْلِيغِ السَّمَاعِ،حدیث نمبر:۲۵۸۰ شاملہ،موقع الاسلام)
اللہ تعالی اس شخص کو تازگی بخشیں جس نے ہم سے کو ئی حدیث سنی اسے یاد رکھا؛ یہاں تک کہ اسے کسی دوسرے تک پہنچایا۔
(۳)ایک اور حدیث میں ہے:فَلْيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ
(مسلم، بَاب تَغْلِيظِ تَحْرِيمِ الدِّمَاءِ وَالْأَعْرَاضِ وَالْأَمْوَالِ،حدیث نمبر:۳۱۸۰،شاملہ، موقع الاسلام)
جو حاضر ہے وہ اسے غائب تک پہنچادے۔
خطبۂ حجۃ الوداع کے موقع پر آنحضرت ﷺ نے متنبہ فرمایا کہ آپ کی یہ حدیث آج صرف اسی اجتماع کے لیے نہیں یہ کل انسانوں کے لیے راہ ہدایت ہے جو آج موجود ہیں اور سن رہے ہیں وہ ان باتوں کو دوسروں تک پہنچادیں۔
علاوہ ازیں ایک حدیث میں ہے:
(۴)‘‘كان جبريل عليه السلام ينزل على رسول الله صلى الله عليه وسلم بالسنة كماينزل عليه بالقرآن، ويعلمه إياها كمايعلمه القرآن’’۔
(مراسیل ابوداؤد، باب فی البدع، حدیث نمبر:۵۰۷)
حضرت جبرئیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سنتوں کا علم لے کر ایسے ہی نازل ہوتے تھے جیسے قرآن آپﷺ پر لےکرنازل ہوتے تھےاور اس کو ایسے ہی سکھاتے تھے جیسے قرآن کو سکھاتے تھے۔
ان میں واضح طور پر یہ مضمون بیان کیا گیا ہے کہ حدیثیں بھی قرآن کی طرح وحی ہیں،
احکامِ اسلامیہ پر عمل کے لیےحدیث کی ضرورت
اسلامی احکامات پر عمل پیرا ہونے کے لیے اور قرآن کریم کو اچھی طرح سمجھنے کےلیےاحادیث کا علم ضروری ہے ، اس کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم میں اسی ۸۰/سے زیادہ جگہوں میں نماز کا حکم دیا گیا، کہیں ‘‘اَقِیْمُوْا الصَّلٰوۃ’’(نماز قائم کرو) کہا گیا ہے تو کہیں‘‘یُقِیْمُوْنَ الصَّلَوۃ’’ (نماز کو قائم کرتے ہیں)کہا گیا ہے؛ مگر سوال یہ ہے کہ نماز کس چیز کا نام ہے؟قیام،رکوع،سجدہ وغیرہ کس طرح کیا جاتا ہے،اس کی ترکیب کیا ہے ؟ قرآن کریم میں کہیں یہ بات بیان نہیں کی گئی ہے؛ البتہ قرآن میں نماز کے ارکان کا مختلف الفاظ سے مختلف جگہ تذکرہ آیا ہے، نبیٔ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازکے تمام ارکان کو جمع کرکے اس کوادا کرنے کا طریقہ بتایا ؛ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے فرائض، واجبات، سنن، مستحبات، آداب، مکروہات اور ممنوعات ہرایک کو تفصیل سے بیان کیا؛ اسی طرح نماز مسجد میں قائم کرنے کا حکم دیا ؛تاکہ نماز کا اہتمام ہو اور اذان وجماعت کا نظام بنایا، امام ومؤذن کے احکام بیان کئے اور پانچوں نمازوں کے اوقات متعین کئے اور ان اوقات کے اوّل وآخر کو بیان کیا؛ غرض تقریباً دوہزار حدیثیں ‘‘یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃ’’ کی تفسیر کرتی ہیں ان دوہزار احادیث کو اگر ‘‘یُقِیْمُوْنَ الصّلٰوۃ’’ کے ساتھ نہ لکھا جائے تو اقامتِ صلوٰۃ کی حقیقت سمجھ میں نہیں آسکتی، اور صرف نماز ہی نہیں؛ بلکہ اسلام کے تمام تفصیلی احکامات کا علم احادیث ہی سے مکمل ہوتا ہے۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،جاری ہے